پاکستانی پارلیمانی سیاست اور شیڈول کاسٹ ہندو/اعظم معراج

3اپریل 2024
قیام پاکستان سے ہی ہندؤ شیڈول جاتی (کاسٹ) سےتعلق رکھنے والے خواتین و حضرات پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں متحرک رہے ہیں بلکہ جوگںندرا ناتھ منڈل قیام پاکستان سے پہلے ہی قائد اعظم کے ساتھ مل کر بنگال میں شیڈول کاسٹ فیڈیش اور مسلم لیگ کے الحاق سے قیام پاکستان بنانے کی جدو جہد میں بھی شامل رہے ہیں ۔ اسی وجہ سے قیام پاکستان کے بعد 1947 سے
1958 تک بننے والی دو اسمبلیوں میں لیجنڈری جوگںندرا ناتھ منڈل کے دور میں اور اسکے فوراََ بعد والے26 میں سے 20ممبر قومی اسمبلی کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا ۔جن میں سے ایک مسیحی تھے۔۔ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے اجلاس کی صدرات بھی جوگںندرا ناتھ منڈل کے حصے میں آئی ۔ قائد اعظم نے پاکستان کا پہلا وزیر قانون بھی جوگںندرا ناتھ منڈل کو بنایا ۔۔
تحریک شناخت کے کے دوہرے ووٹ کے مطالبے کا جائزہ یہ کیوں ضروری ہے؟ اور یہ کیسے ممکن ہے ؟ نامی کتابچے کے لئے تحقیق کرتے ہوئے۔۔اور پمسا (پاکستان انسٹیوٹ آف مینارٹییز سوائث انلسز) کے لئے اعداد و شمار و حقائق جمع کرتے ہوئے یہ حقائق سامنے آئے ہیں ۔۔۔”پاکستان کی پہلی کانسٹوینٹ( دستور ساز)اسمبلی میں جداگانہ طریقہ انتحاب کے زریعے منتخب ہونے والے مذہبی اقلیتوں کی تعداد پہلے تو 14تھی۔جن میں سے 13کا تعلق مشرقی پاکستان(موجودہ بنگلادیش)سے تھا اور ایک ممبر اسمبلی کا تعلق پنجاب سے تھا۔ بعد میں 1949 تا 1954 اس اسمبلی میں تبدیلیاں کی گئی اور پنجاب سے دو اور اقلیتی ممبران کو شامل کیا گیا ۔ یہ فہرست مندرجہ ذیل ناموں پر مشتمل ہے ۔۔پریم ہری بھرما،راج کمار چکرا ورتی،سارس چندرا،چھوٹو پڈھ یا یا ,اکشے کمار داس ،دھیرن دھرن ناتھ
،بھوپندرا کمار دتا .جندرا چندرا موجمدار . بھرت چندرا منڈل ۔ جوگںندرا ناتھ منڈل .دھنن جوئے رائے ،مودی بخیش چندا،ہرایندر کمار سر ،قوی کرور دتا گنگا سرن ( مغربی پنجاب) 1949 تا 1954 کی گئی تبدیلیاں ۔سیٹھ سکھ دیو کانچی ( کراچی) بھندرا پی ڈی (لاہور پنجاب) رلیا رانا ،( لاہور پنجاب)شک ہے کہ یہ نام رلیا رام ہوگا اور یہ مسیحی تھے ۔ “””
پاکستان کی دوسری اسمبلی 1955کو وجود میں آئی اور یہ 1958تک چلی اس میں گیارہ اقلیتی ارکان تھے ،جن میں سے نو کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا ان میں سے ایک مسیحی تھے ۔۔جن کے نام یہ تھے،گور چندرا بالا ،کنتسور برمن ،بسنتا کمار داس ،بھوپندرا کمار دتا ، کمنی کمار دتا ،اکشے کمار داس ،پیٹر پال گومز( مشرقی پاکستان)۔،.رسا راج منڈل، سیلندرا کمار سین سی ای گبن (پنجاب مغربی پاکستان) ,سرو مل کرپل داس (سندھ مغربی پاکستان)۔ہندؤ اور صاحب علم خواتین و حضرات سے گزارش ہے ،کہ اگر آپ ناموں سے ہندؤ جاتی اور شیڈول کاسٹ،بدھسٹ،یا پارسی ممبران اسمبلی میں تفریق کرسکیں ۔اس کے بعد والی دونوں اسمبلیوں میں کوئی اقلیتی ممبر شامل ہی نہیں تھا۔کیونکہ مخلوط طرزِ انتحاب میں اقلیتوں کے جیتنے کے مواقع نہایت ہی کم ہیں۔۔
اسکے بعد پانچویں 1970 کے الیکشن سے لے کر فروری 2024کے انتحابات نتیجے میں وجود میں آنے والی سولہویں اسمبلی تک شیڈول کاسٹ ممبران سینٹ ،قومی و صوبائی اسمبلی رہنے والے شیڈول کاسٹ خواتین و حضرات کے نام مندرجہ ذیل ہیں ۔۔گل۔جی رتن ميگهواڙ(سابقہ ایم این اے )کھٹو مل جيوڻ ميگهواڙ (سابقہ ایم این اے و ایم پی اے ).انجنيئر گيان چند ميگهواڙ( سابقہ سینٹر ).ڀيرو ٻالاڻي ميگهواڙ,ڪرشن بھیل( سابقہ ایم این اے) مرحوم لالا مهر لال دین بھیل سابقہ( ایم پی اے پنجاب) مرحوم پرتاب سنگهه بھیل , ڪرشنا ڪماري ڪولهي( سینٹر)
.پارو مل ڪولهي (سابقہ ایم این اے ),ٽيڪم ڪولہی (ایم پی اے سندھ)
سريندر ولاسائي ميگهواڙ ( ایم پی اے سندھ حالیہ ).بصرو جی میگھواڑ ( ایم پی اے پنجاب ). نيلم ڪماري ميگهواڙ (ایم این اے،)یدھسڑ چوہان (سابقہ ایم پی اے پنجاب) بھرتھا رام میگھواڑ (ایم پی پنجاب) کانجی رام میگھواڑ (ایم پی اے پنجاب) سیٹھ سورتا رام میگھواڑ (ایم پی اے پنجاب) ڈونگر داس (ایم پی اے پنجاب) دوارکا داس ( سابقہ ایم ایل اے بہاول پور اسمبلی)پونجو مل بھیل سابقہ( ایم پی اے سندھ اور حالیہ سینٹر ).
1947سے ممبران اسمبلی رہنے والے 19 میں سے کتنے شیڈول کاسٹ جاتی اور کتنے ہندو جاتی سے تعلق والے تھے ۔۔۔ یہ بات مستعند نہیں ہے ۔۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق تقسیم ہند کے وقت غیر منقسم بنگال میں ہندوؤں کی آبادی 2 کروڑ 20لاکھ تھی۔ جس میں شیڈول کاسٹ (جاتی) والوں کی تعداد 80لاکھ تھی۔۔تقسیم کے بعد بھی اگر یہ تناسب رہا ہو تو۔اس تناسب سے ان 20 بنگالی ہندو پارلیمنٹرین میں سے شیڈول کاسٹ کی تعداد۔ 6 یا 7 ہونی چاہیئے۔ لیکِن یہ تھیوری یوں غلط لگتی ہے۔ کہ شیڈول کاسٹ فیڈریشن میں ہندؤ جاتی سے تعلق والے سیاستدانوں کا شامل ہونا مشکل ہی لگتا ہے ۔۔یہ بھی ممکن ہے ہندؤ جاتی سے تعلق والے ہندؤں نے زیادہ تعداد میں ہجرت کی ہو اور جوگںندرا منڈل کی وجہ سے شیڈول کاسٹ (جاتی) نے کم ہجرت کی ہو۔۔ یہ معاملہ تحقیق طلب ہے۔ممکن ہے، یہ انیس ( 19) کے انیس ( 19) ہی شیڈول کاسٹ ہوں۔۔کیونکہ شیڈول کاسٹ فیڈریشن کا مسلم لیگ سے باقاعدہ الحاق تھا ۔۔اور یہ بھی ممکن ہے ان ناموں میں کچھ بدھسٹ اور ہندؤ جاتی والے بھی ہوں۔( مغربی پاکستان والے 6 میں سے کئی مغربی پاکستان کے ممبران دستور ساز اسمبلی 1950 یا اسکے بعد شامل کئے گئے تھے)
میں نے اپنے بنگال میں رشتےداریاں رکھنے والے کئی صاحب علم دوستوں سے گزارش کی ہے۔۔ کہ ان 19 کی فہرست میں سے شیڈول کاسٹ ناموں کی تفریق کرسکیں ۔ لیکِن تاریخی شواہد یہ ہی کہتے ہیں کہ ان انیس ناموں میں سے سب یا اکثریت ہندؤ شیڈول کاسٹ (جاتی) سے تعلق والے ہی ہونگے ۔۔۔میرے لئے یہ بات حیران کن ہے ۔۔کہ پاکستان خصوصاً سندھ سے تعلق رکھنے والے شیڈول کاسٹ اپنی بھارت ، بنگال اور پاکستان میں آباد مشترکہ شناخت والے لوگوں کو ناموں سے نہیں پہچان پا رہے ۔۔ جبکہ ان کی شناخت ہی ان ذاتوں جو کے اکثر ناموں سے چھلکتی اور جھلکتی ہیں،کی بنیاد پر ہی برطانوی حکومت نے کی تھی ۔ پہلی دونوں اسمبلیوں میں سے 19 ہندؤ مشرقی پاکستان (بنگلادیش) سے تعلق رکھنے والے ناموں میں سے کی چھاپ تاریخ کے اوراق میں آل ایسٹ پاکستان شیڈول کاسٹ فیڈریشن کے کارناموں کے ساتھ موجودہ بنگلا دیش کی سیاسی تاریخ میں پڑھتے ہوئے یہ خیال آتا ہے۔۔ ۔کہ ہمارے موجودہ ایوانوں میں بیٹھے ہوئے شیڈول کاسٹ خواتین و حضرات اپنی موجودگی کا کوئی احساس اس نظام کو کیوں نہیں دلا پاتے، نہ ہی اقلیتوں اور نہ ہی اپنے لوگوں کے لئے کوئی ایسی آواز اٹھاتے ہیں ،جس سے اس ملک کی تقریباً ایک کروڑ مذہبی اقلیتوں کے اجتماعی مسائل کو حل کرنے کا کوئی مستقل سبب بن سکے۔۔۔ یا ایک کروڑ لوگوں کی فکری راہنمائی ہوسکے ۔ اس کا تاریخی پسِ منظر کا کچھ احاطہ میں نے اس تحریر کے آخر میں کرنے کی کوشش کی ہے ۔۔ فروری کے انتحابات کے نتیجے مخصوص نشستوں پر چنے جانے والے 38کی فہرست میں بھی تین چار خواتین ؤ حضرات شیڈول جاتی ( کاسٹ) سے ہے۔ اب دیکھیں یہ اپنے دیگر غیر مسلم ساتھیوں کے ساتھ مل کر اقلیتوں کے لئے کیا کارنامے انجام دیتے ہیں۔؟ پچھلے 77سالوں میں 137 بار تقریبا 80اقلیتی ایم این اے رہنے والے دس بارہ بار چار پانچ سینٹرز رہنے والے یا کوئی 200 بارکے قریب 125 ایم پی ایز رینے والے ان اقلیتی ممبران میں سے جس طرح ماضی میں جوگںندرا ناتھ منڈل،ایس،پی سنگھا ، شہباز بھٹی ، نے تاریخ میں اپنی چھاپ چھوڑی ہے ۔۔ چھوڑ پاتا ہے یا نہیں؟؟ یا صرف اچھے ہوٹلوں کے بٹر پینر, چند تصاویر, ٹے ،اے، ڈی ,مسیحی ہے.تو یورپ امریکہ کی ہجرت میں آسانی پر ہی اکتفاء کرتے ہیں ۔بظاہر ایسے آثار ایوانوں میں موجود ،صرفِ ایک آواز میں محسوس ہوتے ہیں ۔ لیکِن “ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی “کہ مترادف مایوس نہیں ہونا چاہیئے۔۔ شائد آنے والے دنوں میں کچھ اور نوجوان بھی کوئی بامقصد ، اور درست سمت والی سیاست کے لئے ایوانوں میں پہنچ جائیں ۔۔لیکِن آثار کم ہیں… یہ آواز ہے۔۔ سینٹر دینش کمار کی ، لیکن اوپر والے ناموں میں شامل ہونے بلکہ کسی بھی مقصد کے حصول کے لئے کامیابی کی ضمانت دو خوبیاں سمجھی جاتی ہیں ۔۔ پہلی اس کام کی سمجھ بوجھ دوسرا اپنے مقصد سے پر خلوص ہونا ۔ پہلی خوبی مسلسل سیکھنے کے عمل سے بڑھائی جا سکتی ہے۔۔ دوسری آپکی فطرت کا حصہ ہوتی ہے۔ اسکا حال آپ خؤد جانتے ہیں یا رب کی ذات باقی عام لوگ تو آپکے اعمال سے اس پر رائے قائم کرتے ہیں ۔۔اسلئے سینٹر دینش کمار کو بھی چاہیئے کہ تقریروں کے ساتھ ، ساتھ وہ کچھ ہوم ورک کے ساتھ چند بنیادی اجتماعی مسائل مثلاً شیڈول کاسٹ اور مسیحو کی آبادی بارے شکوک وابہام کو دؤر کرنے کے لئے اعداد و شمار تک ہر شہری کی رسائی کا میکنزم ترتیب دلوانے کے لئے حکومت و ریاست کی راہنمائی کریں ۔ یا اقلیتی انتحاہی نظام جیسے اجتماعی مسائل کے حل کے لئے کچھ بل پیش کرے ۔ اور اس بے ضرر آئینی ترمیم کے لئے کوشش کریں ۔۔تحریک شناخت کے رضآ کار اس میں فکری دستاویزی اعانت و معاونت کے لئے ہر وقت دستیاب ہیں۔۔ یہ بل پاس ہوں نہ ہوں لیکن اہل وطن جان تو لیں کہ اصل اقلیتی مسائل ہیں کیا ؟ اور ان کے حل کتنے سادہ ہیں ۔۔ورنہ تو محرومیوں کے موجودہ سوداگر ،این جی اوز یا موجودہ مذہبی راہنماہ خصوصا مسیحو کے اور موجودہ نظام کے بینفشریز جو کہتے ہیں۔ حکومت سمجھتی ہے۔۔ جو یہ کہہ رہےہیں وہ ہی صحیح ہے ۔۔۔لیکِن یہ بھی اک حقیقت ہے آج سیاسی طور پر جن سیاسی مراعات و آسائشوں کے ہندؤ دوست مزے لے رہےہیں یہ سب ماضی میں مسحییوں کی سیاسی جدو جہد و کئی سیاسی شہادتوں کی بدولت ہی ہے۔۔
اپ نوجوان ہیں۔ آپکی ابھی سیکھنے کی عمر بھی ہے ۔ پاکستان کے معروضی حالات میں پاکستانی مزہبی اقلیتوں کو درپیش مسائل کا ادراک، دستیاب موقعوں کی صحیح سمجھ ،ان کی کمزرویوں ،توانائیوں کا صحیح اعداد و شمار کے ساتھ تخمینہ اور خلوص نیت سے کوشش کرنے کی استعداد اور مقصد میں یکسوئی پیدا کر لیں ۔جلد بہت سارے مسائل کا حل نکل آئے گا ۔شہباز بھٹی نے 3 سال 4 دن کی مختصر مدتِ میں اقلیتوں کے لئے جو کامیابیاں حاصل کی انکی بنیاد انھی خوبیوں پر تھی ۔ ان کے قریبی ساتھی عامر بوائز اور طاہر نویدِ چوہدری بتاتے ہیں, کہ وہ مسلسل سیکھنے پر بھی یقین رکھتے تھے ۔ لگے ہاتھ انکے جانشینوں کا بھی ذکر ہو جائے تین یا چار دھڑے انکے نام پر سیاست کر رہے ہیں ۔ ان کارکردگیاں تو سب کے سامنے ہیں ۔ لیکن اسکی سیاسی وارثت کو زندہ رکھنے کا یہ عالم ہے، کہ اگر پاکستان کی تیرہویں قومی اسمبلی کو آج کوئی گوگل کرے تو اس میں شہباز بھٹی کا نام ہی نہیں ہے ۔بلکہ انکی شہادت کے بعد بننے والے کھٹو مل جیون کا نام ہے ۔ جنہیں ترجیحات کی لسٹ میں شہباز بھٹی کے نام کے بعد ہونے کی وجہ سے سینٹ سے استعفی دلوا کر بنایا گیا۔۔ اس کا مطلب یہ ہؤا کہ آج اگر کوئی سیاست کا طالب علم ریسرچ کرنا چاہئے تو ڈیجیٹلی اسمبلی کے ریکارڈ میں شہباز بھٹی کا نام نہیں ملے گا ۔۔ اسے درست کروانا کوئی مشکل بھی نہیں اس فہرست میں یہ اضافہ کیا جاسکتا ہے۔۔ کہ اتنا عرصہ شہباز بھٹی رہے ۔ انکی شہادت کے بعد اتنا عرصہ کھٹو مل جیون رہے ۔۔1972 والی اسمبلی میں اینڈریو ریواز کی موت کے بعد انکی بیوہ نجمہ ریواز کو کو یہ سیٹ بطور جانشین دی گئی۔۔ لیکن اس فہرست میں دونوں نام اسی ترتیب سے درج ہیں ۔۔ تحریک شناخت نے اس ضمن میں اسپیکر قومی اسمبلی کو خط لکھ دیا ہے ۔۔امید ہے جلد ہی یہ درستگی ہو جائے گی ۔۔
جوگںندرا ناتھ منڈل اور ایس پی سنگھا جس دؤر میں سیاست کرتے تھے۔ جن ہم عصروں کے ساتھ کرتے تھے وہاں نا اہلی کی گنجائش ہی نہ تھی ۔۔ ان کے ہم عصروں نے برصغیر کی ہزاروں سالوں کی تاریخ بدل دی ۔۔ ۔۔ اور اس میں ان لوگوں کا بھی کوئی نہ کوئی کردار تھا۔۔ سنگھا صاحب کی سیاسی جانشین تو سارے مسیحی ہی ہیں ۔۔۔لیکن حالات آپ کے سامنے ہیں ۔ جوگںندرا ناتھ منڈل کی جانشینوں کی کارکردگی بنگال کی اندرونی سیاست کو سمجھنے والے ہی بتا سکتے ہیں ۔۔برّصغیر کی سیاست میں ہندؤں سیاسی ورکروں نے ہر مکتبہ فکر کی سیاست میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ۔ لیکن نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے، قیام پاکستان کے بعد سے سوبو گیان چندانی کے علاؤہ اس طرح کی فکری و نظریاتی سیاست کسی کے حصّے نہیں آئی، ویکیوم بہت ہے ۔۔موقعے بہت ہیں۔۔ اس وراثت کو جاری رکھنے کے لئے تھوڑا سا ہوم ورک تھوڑا سا جرآت اظہار جو آپکے پاس ہے ۔ہوم ورک تحریک شناخت آپ کو غیر مشروط مہیا کرتی ہے ۔۔ بس ہمت کریں ۔۔ 77سالہ یہ ویکوم پورا ہونا ہے ۔۔ آپ سے نہیں ہوگا تو کل کوئی اور پورا کرے گا۔ہم دہائیوں سے فکر کے جو بیج بو رہے ہیں۔ ان سے شگوفے پھوٹ رہے ہیں ۔۔انھوں نے تناور درخت بننا ہے ۔ آپ ہی ہمت کرلیجے تاریخ بنانے کا موقع بہت سو کو ملتا ہے ۔ لیکن اس سے فائدہ پہل کرنے کرنے والے کر پاتے ہیں ۔
بقول شاد عظیم آبادی
یہ بزم مے بےیاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود آٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے ۔
یاد رکھیں ایک کروڑ غیر مسلم شہریوں کو بلا تفریق ایک سے ہی مسائل درپیش ہیں ۔اس لئے حل بھی مشترکہ کوششوں یا کم ازکم فکری طور پر یکسو ہونے میں ہے ۔۔

دوسری شخصیت جو ایوانوں سے اس وقت باہر ہے ۔وہ ہے جےسالک صاحب ان سے بھی بصد احترام گزارش ہے ۔ اوپر بیان کی گئی دونوں خوبیوں کا اپنی ذات میں جائزہ لیں ۔۔اپنے سیاسی سرمائے کو کوئی سمت دیں۔ لالحہ عمل کے ساتھ انتحاہی نظام میں بے ضرر آئینی ترمیم مانگیں شفاف اقلیتی گنتی کے اعداد و شمار اداروں کی ویب سائٹس پر ڈسپلے کروائیں ۔۔( تحریک شناخت کی گزارش اور شعیب سڈل کمیشن کی ہدایات پر تحصیل سطح کےاقلیتی ووٹوں کے اعداد و شمار الیکشن کمیشن نے اپنی ویب سائٹ پر آویزاں کر کے پتہ نہیں کس وجہ یا مجبوری سے ہٹا دئئے ہیں) آپ اسلام آباد بٹھیے ہیں۔۔ چیف جسٹس ،الیکشن کمشن ،وزارت شماریات کے سامنے احتجاج کریں ۔۔اپنی شہرت کا استمال سینٹ ،قومی اسمبلی کے ممبران سے لابنگ کے لئے استعمال کریں ۔ لیکِن ان سب کاموں کے لئے ضروری ہے ۔جہاں آپ نے 50سال مسلسل بے سمت جدو جہد کی ہے۔۔وہاں چند گھنٹوں کی سرمایہ کاری اپنی علمی استعداد بڑھانے پر بھی لگا دیں۔۔ یقین مانے ماضی بعید ، ماضی قریب ،یا دور حاضر میں انسانی گروہوں کی تقدیر بدلنے والے تمام سیاسی راہنماؤں نے علم و عمل کے امتزاج سے لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کی ہیں۔۔۔منزل کے تعین پر پہنچنے کا مکمل لالحہ عمل تیار ہونے کی بنیاد پر اپنی منزلوں پر پہنچے ہیں ۔۔وقت کم ہے۔۔ اپنے سیاسی سرمائے کو یکجا کرکے کسی آئینی ترمیم میں سمو لیں۔۔ان ترامیم کے لئے فکری و دستاویزی سرمایہ تحریک شناخت کے بے لوث رضا کاروں نے بڑی محنت سے جمع کیا ہے۔آپ جیسا بے لوث۔ بندہ کسی دوسرے کے مقابلے میں جلد یہ مقاصد حاصل کرنے میں مدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔۔ سمت طے کرلیں بس بقول بابا نجمی
منزل دے متھے دے اتے تختی لگدی انھاں دی
جیڑے گھروں بنا کے ٹر دے نقشہ اپنے سفراں دا۔
آپ نے بہت جدو جہد کی ہے، لیکن منزل پر نہ پہنچنے کی وجہ منزل کا تعین نہ ہونا ہی ہے ۔۔ خدارا تھوڑی سی سرمایہ کاری اجتماعی خؤد آگاہی پر دیں ۔۔ جن مسائل کے لئے آپ روز مرہ کام کرتے ہیں۔ان کے 80فیصد کے حل کا پیش خیمہ انصاف پر مبنی اقلیتی انتحاہی نظام ہے ۔ تھوڑا سا غور فکر کرکے اجتماعیت کو سمجھ لیں ۔۔ انفرادی کوشش بغیر اجتماعی بھلائی کے مکمل لالحہ عمل کے ساتھ نہ ہو تو منزل پر پہنچنا ناممکن ہے۔باقاعدہ اغراضِ ومقاصد کا تعین کئے بغیر آپ بڑے مقاصد کبھی حاصل نہیں کرسکتے ۔انفرادی کوششوں میں اجتماعی بھلائی و خؤد آگاہی کا پہلو غالب رہے تو کاروان بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔۔بس جلدی کرلیں چھوڑیں لاحاصل بے ربطِ گفتگو آپ دو دففہ تقریبآ چار سالوں کے لئے ایم این اے و وزیر رہے ۔پاکستان کی اقلیتوں کے لئے کوئی مفید بل نہ پاس کرواسکے۔ آپکی جدو جہد جس سطح کی اور مسلسل ہے۔ نتائج اس حساب کے قطی ہی نہیں ہیں ۔اپکی یہ جدو جہد بے فائدہ چلی گئی تو سب سے زیادہ دکھ مجھ جیسے آپکے کئی دیگر خیر اندیشوں کو ہوگا ۔۔ عمر کے اس حصے میں شائد سوچ بدلنا اور سیکھنا آپ کے لئے مشکل ہو۔ لیکِن آپ کی توانائی اور مسلسل عملی سیاست میں ہونے کی وجہ سے یہ چند سطریں لکھ دی ہیں۔کچھ کرلیں۔ورنہ پاکستانی مسیحی تو تاریخ ساز سنگھا صاحب سے بھی شاکی نظر آتے ہیں ۔حالانکہ اسکی شخصیت اور اس وقت کے معروضی حالات کو سمجھنے کے لئے اسکی پچیس صفحات کی پنجاب اسمبلی میں کی گئی تقریر ہی کافی ہے ۔لیکن برصغیر کے ہزاروں سال کے تاریخ کے جبر نے اور حالیہ محرومیوں کے سوداگروں اور شعبدے بازوں نے ہماری نسلوں کو غور فکر کے قابل چھوڑا ہی کب ہے جو وہ غور فکر کر سکیں..

۔ موجودہ نہ صرف 227مخصوص نشستوں والے خواتین و حضرات بلکہ 859 حلقوں سے مبینہ طور پر فارم 47 و 45 سے جیت کر آنے والے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی اور پیسوں یا اپنی عقل دانش، ٹیکنوکریسیی یا پارٹی وفاداری کے زور پر چنے جانے والے 96سینٹرز سے اور بالخصوص اقلیتی 38 نمایندگان سے گزارش ہے ۔صرفِ گٹروں ،نالیوں، سڑکوں ،کے افتتاح یا پادریوں، پنڈتوں اور سیاسی جماعتوں کے بڑوں کے ساتھ تصویریں جمع کرنے، شام کو ٹاک شوز میں اپنے اپنے قائدین کی مداح سرائی کرنے یا چند بے ربطِ غیر منطقی تقریروں کے ٹوٹے جمع کر لینا ہی ان مراعات کا نعم البدل نہیں جو یہ مسکین،قرضے میں جکڑی ہوئی کپڑوں ،مکانوں سے بے نیاز روٹی کی تلاش میں ماری ماری پھرتی ہوئی قوم آپ کے عیش و آرام کے لئے مہیا کرتی ہے ۔اپ ان غیر اخلاقی لیکن عین آئینی مراعات ،ٹے اے ڈی اے ، و کچھ ناقابل اشاعت ذرائع آمدن سے بھی وسائل جمع ضرور کریں.. لیکن کوئی ایک ایسا کام تو اپنے چھ، پانچ سال یا جتنا بھی موقع ملے عرصے میں کرجائیں ،جس کے فکری یا عملی اثرات ان بالعموم 24کروڑ اور بلخصوص ان تقریبا ایک کروڑ لوگوں پر پڑیں۔۔جنکی شناخت پر آپکو یہ عزاز ملا ہے ۔۔یقین مانے کوئی نواز شریف ،اصف زرداری یا جس کی بھی مرضی سے آپ ان ایوانوں تک پہنچے ہیں ایسے کام کرنے سے نہیں روکتا ۔ ۔ہاں یہ ایک کروڑ جنکی شناخت پر آپکا نام ان 227مخصوص یا1182 کی فہرست میں شامل ہؤا ہے ۔۔یہ آپ کو کیا کیا کہتے ہیں ؟اور جوگںندر, سنگھا اور شہباز،بھٹی ، یا ایسے دیگر جنہوں نے ان ایوانوں کی بدولت ان خاک نشینوں کی عملی وفکری داد رسی کے لئے کچھ کیا ہے ۔ان کو کیا کہتے ہیں۔؟ ذہن نشین رکھیئے ۔ باقی آپ سب 1182 کے لئے مستقبل کے لئے نیک تمنائیں
بے شکّ آپ جس بھی مکتبہ فکر کی سیاست کریں ۔جس بھی راہنماہ کی سیاسی بعیت کریں, وہ آپ کا حق ہے .لیکِن اقلیتی ونگ کی سیاست کرتے ہوئے ، یہ یاد رہے ۔۔کہ تمھیں اپنے اپنے مذہبی گروہوں کا بھٹو ، نواز شریف ،عمران خان بھی بننا ہے ۔اور اپنے راہنماؤں سے اپنے لوگوں کے حقوق بھی مانگنے ہیں۔۔۔ لیکِن پچھلے 50سال کی اقلیتی پارلممیانی تاریخ خصوصا پچھلے سال 25 کی تاریخ گواہ ہے۔۔ کہ ایک آدھ استشعنات کو چھوڑ کر اقلیتی ممبران نے جمہوری غلامی کو اپنی نس، نس میں اتار لیا ۔۔جس سے اپنے لوگوں کے لئے کچھ مانگنا ممکن ہی نہیں رہتا۔ دل دماغ ماؤف ہو جاتے ہیں ۔۔ حالانکہ اپنی پارٹی سے وفادار رہ کر بھی اپنے لوگوں کے لئے بہت کچھ کیا جا سکتا ہے ۔۔امبیڈکر، گاندھی جی کے ساتھ متفق نہ ہونے کے باوجود معاہدے کرنے کے باوجود ،امبیڈکر ہی رہے۔۔ جوگںندر ناتھ منڈل قائد اعظم کے ساتھ بھی منڈل ہی رہا۔۔ اور جب سمجھا قائد کے جانشینوں کے بس کی بات نہیں اقلیتوں کو تحفظ دینا ۔۔تو ہار مان کر تاریخی استعفی لکھ کر کنارہ کش ہوگیا ۔
اوپر دیئے گئے شیڈول کاسٹ کے ایوانوں میں پہنچنے والے ممبران کے اعداد و شمار پاکستان کی ریاستی ،حکومتی و دانشور اشرفیہ کے لئے کئی سوال اُٹھاتے ہیں۔مثلا پنجاب میں 30جون دو ہزار بائیس 2022 کے الیکشن کمشن کے اعداد و شمار کے مطابق صرف 103656 ہندؤ ووٹرز ہیں ۔ جو کہ پنجاب کی آبادی کے تناسب میں بہت کم تعداد ہے۔ لیکن پھر بھی 1985 کے بعد کے انتحابات میں آج تک 7 ممبران پنجاب اسمبلی شیڈول کاسٹ بن چکے ہیں ۔۔ پنجاب کے شیڈول کاسٹ میں میرے مشاہدے کے مطابق معاشی و سماجی پوزیشن بھی پنجاب کی دیگر مڈل کلاس جیسی ہے ۔۔جبکہ سندھ میں ہندؤ ووٹرز کی مجعوعی تعداد الیکشن کمیشن کے 30جون 2022 کے اعداد و شمار کے مطابق 1936749 تھی ۔شیڈول کاسٹ دوست دعواہ کرتے ہیں کہ ہم مجعوعی ہندؤ آبادی کا 80 کچھ تو۔ 95فیصد کا دعواہ کرکے ایک جھوٹ سے اپنے 100 سچ بھی مشکوک کر لیتے ہیں۔۔۔ لیکِن ماضی کے وزارت شماریات کے اعداد و شمار و زمینی حقائق بھی ان کے 70 سے 75 فیصد ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ لیکن 1970 کے الیکشن کے نتیجے میں 1972سے 2024 کے الیکشن کے نتیجے میں وجود میں آنے والی 12 سندھ اسمبلی کے ممبران اعداد شمار بتاتے ہیں۔ 62 ہندؤ مخصوص یا جدآ گانہ نشستوں کے طرزِ انتحاب کے زریعے ممبر صوبائی اسمبلی بنے ان میں جنرل نشستوں والے اس فہرست میں شامل نہیں ہیں ۔۔ان 62 میں سے یہ اعزاز صرف آٹھ بار میں چھ ہندؤ شیڈول کاسٹ( جاتی) والوں کے حصے آیا ۔۔ اسی طرح 1972سے آج تک ایم این بننے والے 52ہندووں کی فہرست میں ” ہندؤ شیڈول کاسٹ (جاتی) “سے تعلق والے صرف چھ نام ہی ہیں
اگر موجودہ انتحابات میں مخصوص نشستوں کا بحران/۔۔بانٹ نہ ہوتی تو یہ چھ تعداد بھی بھی ہی ہوتی۔۔۔ آبادی کے تناسب سے سندھ میں یہ تعداد انتہائی کم ہے ۔۔۔

سینٹ کی عمر اگرچہ اقلیتی نمائندگی کے حوالے سے ہے ہی صرفِ 14سال ہے۔۔اس کے حساب سے اقلیتی شہریوں کے سینٹرز بننے کے موقعے ہی صرفِ 18 نکلے ہیں ۔جن پر کئی کئی بار کئی کاریگر حضرات کو موقعے ملے ہیں اس لئے اس تعداد میں شیڈول کاسٹ کی پانچ تعداد تناسب کے لحاظ بہت بہتر ہے۔ لیکن اس میں ایسے ایسے خواتین وحضرات کو موقعے فراہم کئے گئے کہ وہ پارٹی قیادت کے لئے تو قابل فخر لیکن متعلقہ مذہبی گروہ ان کے بارے میں بلکل متضاد اور ناقابل تحریر خیالات رکھتے ہیں۔
سندھ کے شیڈول کاسٹ شائد تاریخی طور پر ہی بدقسمت رہے ہیں ۔ جسکی چند جو وجوہات سمجھ میں آتی ہے ۔وہ یہ ہیں ۔۔کہ راو بھیم جی کی جدو جہد کا مرکز مہاراشٹر اور جوگںندرا ناتھ منڈل کی سیاست کا مرکز و محور مغربی و مشرقی بنگال رہا۔جس کی وجہ سے قائد اعظم اور اس وقت کی پاکستانی قیادتِ بھی شیڈول کاسٹ کا مطلب صرف مشرقی پاکستان ہی لیتی رہی ۔۔اور جوگںندرا ناتھ منڈل کی ہجرت سے سرکاری سطح پر شیڈول کاسٹ کا باب بند ہی ہوگیا ۔۔ جبکہ مقامی شیڈول کاسٹ کی آواز تھر کے صحراؤں سے نکل کر با مشکل حیدرآباد تک ہی پہنچ پائی ۔۔گاندھی جی کی سیاست کے اثرات بھی دیہی سندھ میں شیڈول کاسٹ اور ہندؤ جاتی تک بھی کم ہی پہنچے ۔ ۔جس کی وجہ سے ہزاروں سال سے اپنے اجداد کی دھرتی پر ظلم وستم کی چکی میں پستے ان دھرتی واسیوں کی داد رسی جیسی برصغیر کے دیگر شیڈول کی رمزے میکڈونلڈ ،بھیم راؤ جی امبیڈکر ، قائد اعظم ،گاندھی جی ، جوگںندر ناتھ منڈل نے کی ایسی جیسی کوئی نہ کرسکا ۔ اسی کی بدولت بنگلادیش انڈیا کے شیڈول کاسٹ لیڈروں آور سیاسی ورکروں کی استعداد بڑی جسکے اثراتِ وہاں کے عام شیڈول کاسٹ لوگوں پر مرتب یوئے جسکی بدولت آج بھی جوگںندرا ناتھ منڈل اور امبیڈکر کے جانشین وہاں کی سیاست کے مرکزی دھارے میں عملی طور شامل ہو کر سنجیدہ اجتماعی بھلائی کی سیاست کر رہےہیں۔۔۔۔
آج کی ریاستی ، حکومتی ،سیاسی اور دانشور اشرفیہ اور انکے بچھڑے ہوئے بڑے بھائی (ہندؤ جاتی) اور ان خاک نشینوں میں خود کوئی اول الذکر شخصیات کی طرح کے اعمال سے اس ہزاروں سال کے خلا کو پر کرکے بہت عظیم کارنامہ سر انجام دے سکتے ہیں ۔۔ بس بنیاد سے شروع کریں ۔جسکی شروعات اعداد و شمار میں شفافیت ، انصاف پر مبنی اقلیتی انتحابی نظام سے کی جاسکتی ہے ۔یہ دونوں اقدام بالعموم اقلیتوں اور بلخصوص” ہندؤ شیڈول جاتی” کے 80فیصد مسائل کے حل کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔

اخر میں اس ملک کے چوبیس کروڑ بے زبان انسانوں کی روز مرہ کی زندگیوں کے فیصلے کرنے والی ریاستی ، حکومتی ,سیاسی اشرفیہ اور تینوں ریاستی ستونوں کے آئینی رکھوالوں (وزیراعظم ، چیئرمین ،سینیٹ،اسپیکر قومی اسمبلی چیف جسٹس)،اور چوتھے روائتی آئینی ستون صحافت کے رکھوالوں سے گزارش ہے ۔۔کہ ان ایک کروڑ خاک نشینوں، تاریخ کے جبر اور اس معاشرے کے معروضی حالات ، تاریخی ؤ مذہبی پس منظر کی بدولت سماجی رویوں اور ان کی ذیلی پیداوار آئینی شقوں کا شکار ،فکری ،و عملی پسماندگی کے مارے ہوؤں کے لئے، (چاہے ان میں سرمایہ کار ہندؤ ہوں یا پڑھے لکھے این جی اوز اور چرچ کی قیادت ہو لیکن اجتماعی حالاتِ سب کے ایک سے ہی ہیں) کے لئے چند بے ضرر آئینی ترمیم سے بے تحاشا آسانیاں پیدا کی جا سکتی ہیں ۔ اس کے لئے سوچیں ۔ آپ بھی تاریخ میں رمزے میکڈونلڈ کی طرح پاکستان کے پسے ہوئے غریب طبقات کے دوست کہلا سکتے ہیں ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply