ماسکو سے مکّہ (5)ڈاکٹر مجاہد مرزا

چلچلاتی دھوپ کی سختی کا احساس مسجد نبوی تک ہی ہوتا تھا لیکن مسجد نبوی کے اندر پہنچ کر ایئ

ر کنڈیشنرز کی وجہ سے اس قدر برودت ہوتی تھی کہ بعض اوقات تو اچھی خاصی خنکی محسوس ہونے لگتی تھی۔ بالخصوص وہ حصہ جو روضہ اقدس کے آگے ہے وہاں اگرچہ دونوں جانب کے بلند دروازے ہمہ وقت کھلے رہتے ہیں لیکن پھر بھی اولیں تین صفوں میں عام کپڑوں میں ٹھنڈ لگتی تھی۔ ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد ہوٹل لوٹ آئے تھے۔ شاید یہ ایک ہی بار تھا کہ میں اور جمشید اکٹھے لوٹے تھے کیونکہ اس کے بعد ہم اکثر بچھڑ جاتے تھے جس کی ایک بڑی وجہ جمشید کی حرص عبادت تھی۔ وہ عبادت کے شوق میں ہمرہی کا بھی خیال نہیں کر تے تھے اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا آگے نکل جایا کر تے تھے ۔
پھر عصر کی نماز پڑھنے گئے تھے اور مغرب تک مسجد نبوی کے باہر گھومتے رہے تھے لیکن علیحدہ علیحدہ۔ مسجد کے باہر خوانچہ نما دکانوں میں عبادت اور عقیدت سے وابستہ اشیاء بشمول تسبیحوں، ٹوپیوں، رومالوں، کھجوروں، مسواکوں اور چپلوں کی فروخت کا بازار گرم تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ معمول کی بات تھی مگر ایک تکلیف دہ چیز جو میں نے اپنے تمام اسفار میں پہلی بار یہیں دیکھی تھی کہ برقعہ پوش سیاہ فام عورتیں جو نہ جانے دیہات کے غرباء میں سے تھیں یا ان کا تعلق غیر قانونی تارکین وطن کے ساتھ تھا، ہاتھ سے کھینچی جانے والی ریڑھیوں میں اشیاء رکھ کر کے بیچ رہی تھیں۔ روس کی اوپن اور کلوزڈ مارکیٹوں میں بھی جارجیا کی عورتیں چائے اور فواکہات ایسی ٹرالیوں میں رکھ کر بیچتی ہیں جیسی ہر طیارے میں ایئر ہوسٹسیں ڈیوٹی فری اشیاء رکھ کر مسافروں کو خریدنے کے لیے پیش کرتی ہیں لیکن ان مستورات کی ریڑھیاں بہت ہی دیسی قسم کی تھیں۔ اتنے خوشحال ملک میں عورتوں کو یوں خوار ہوتے دیکھنا اذیت دہ تھا۔

مغرب کی نماز کے بعد میں اور جمشید صافی کھانا کھانے کی غرض سے صبح جس طرف گئے تھے اسی جانب نکل گئے تھے. وہاں ہمیں ایک مناسب پاکستانی ریستوران نظر آ گیا تھا، جہاں ہم نے چکنائی میں تر سالن اور تندور سے اتری ہوئی گرم گرم روٹیاں کھائی تھیں۔ پھر عشاء کی نماز پڑھنے کے لیے مسجد نبوی جا پہنچے تھے۔ حریص عبادت جمشید کی آج کی خواہش مسجد نبوی کی صف اوّل میں نماز پڑھنا تھی۔ میں نے کسی طرح وہاں جگہ بنا لی تھی اور پھر صافی کو بھی اشارے سے بلا لیا تھا، دونوں کے لیے جگہ بن گئی تھی۔

ایک بوڑھا ، ٹھگنا شخص ہمارے نزدیک اپنا رومال رکھ کر شیلفوں میں لگے قرآنی نسخوں کو ترتیب دیتا پھر رہا تھا۔ ایک فلسطینی اس کے رومال کو تھوڑا سا سرکا کر وہاں بیٹھ گیا۔ پھر کیا تھا، موصوف آئے اور اردو میں اسے بری طرح ڈانٹنے لگے کہ جب رومال پڑا ہوا تھا تو تم یہاں بیٹھے کیوں۔ فلسطینی اسے صبر کرنے کو کہہ رہا تھا لیکن اس کو اگر سمجھ آ بھی رہی تھی تو وہ اس کی نہیں سن رہا تھا۔ مجھے دخل درمعقولات کرنی پڑی تھی اور میں نے ان صاحب کو جو پختون خوا  کے کسی چھوٹے شہر سے تھے بالآخر رام کر لیا تھا۔ یہ صاحب کسی زمانے میں پرائمری سکول ٹیچر تھے۔ ان کے بیٹے مکہ اور ملتان کے دینی مدارس میں پڑھا رہے تھے۔ یہ گذشتہ آٹھ سال سے مدینے میں ہیں۔ اپنے طور پر مسجد نبوی میں دھرے قرآن کے نسخوں کو ترتیب سے رکھتے رہتے  ہیں۔ مقامی عرب اور پاکستانی ان کی تعظیم کرتے ہیں۔ ان کا زیادہ وقت مسجد نبوی میں گذرتا ہے اور کھانے مختلف پاکستانی ‘ہوٹلوں‘ پہ بندھے ہوئے ہیں۔ موصوف کے مزاج سے البتہ پرائمری سکول کی استادی نہیں گئی تھی۔ سبھوں کو ڈانٹنا اپنا فرض سمجھتے تھے لیکن بہرحال تھے دلچسپ آدمی اور خیر سے بزلہ سنج بھی ۔ کہنے لگے نماز کے دوران آدمی سب کچھ کر لے، چاہے تو آنکھیں بھی بند کر لے لیکن اللہ سے اپنا چہرہ تو نہ چھپائے۔ میں نے پوچھا خانصاحب، وہ کون ہے جو اللہ سے اپنا چہرہ چھپاتا ہے۔ بولے جیسے اس نے کیا ہوا ہے۔ ایک انڈونیشیائی نے میڈیکل ماسک باندھا ہوا تھا۔ انڈونیشیا سے آنے والے سب کے سب ماسک باندھ کر آئے تھے۔ لگتا تھا کہ وہیں سے کوئی وائرس لے کر نکلے تھے۔ نماز کے دوران نمازیوں کی تین چوتھائی تعداد کھانس رہی ہوتی تھی۔ کچھ تربیت کا فقدان، کچھ عبادت کا پاس، کھانستے ہوئے منہ پہ کوئی ہاتھ نہ رکھتا تھا یوں یہ مرض تیزی سے پھیل رہی تھی۔ میں فلو سے بہت جلدی متاثر ہوتا ہوں۔ مجھے یقین تھا کہ میرا کام ہو گیا ہے۔ ویسے بھی جانے سے پہلے ہماری کوئی ویکسینیشن نہیں ہوئی تھی۔ علاوہ ازیں بہت ٹھنڈی مسجد نبوی سے براہ راست خاصے گرم صحن میں نکل آتے تھے۔ وائرس اور درجہ حرارت کی فوری اور مسلسل تبدیلیوں کی وجہ سے عشاء کے بعد مجھے نزلہ ہو چکا تھا اور بدن ٹوٹنے لگا تھا۔ میں کمرے میں آ کر آنکھوں پہ پٹی باندھ کر لیٹ گیا تھا۔ اب میرے نخرے بھلا کون برداشت کرتا۔ میں مکمل اندھیرے اور خاموشی کے بغیر سو ہی نہیں سکتا لیکن اس رات گذشتہ رات کے رت جگے کی وجہ سے میں انٹا غفیل ہو گیا تھا۔ صبح انکل داؤد نے نماز فجر کے لیے اٹھایا تھا اور میں وضو کرکے ان کے ہمراہ مسجد نبوی چلا گیا تھا۔ وہاں اتفاقاً  جمشید سے ملاقات ہو گئی تھی۔ مجھ سے بڑے خفا تھے کہ تم رات بھر خراٹے لیتے رہے ہو۔ میں سو نہیں سکا اور رات دو بجے ہی مسجد نبوی میں آ گیا تھا۔ میں نے معذرت کی تھی اور بتایا تھا کہ میں مریض ہوں۔ نماز کے بعد میں نے انہیں اور انکل داؤد کو ناشتہ کرنے کی تجویز دی تھی۔ انکل تو واپس چلے گئے تھے لیکن جمشید میرے ساتھ اسی ہوٹل پہنچا تھا جہاں ہم نے رات کا کھانا کھایا تھا۔ وہاں گرم گرم پراٹھے تلے جا رہے تھے۔ میں نے سبزی کے ساتھ پراٹھا مانگا تھا لیکن جمشید نے چائے کے ساتھ پراٹھے کھائے تھے اور بتایا تھا کہ کابل میں ان کے میڈیسن کے پروفیسر کا کہنا تھا کہ افغانیوں کی بڑی آنت فی الواقعی دوسرے انسانوں سے کم از کم ایک فٹ بڑی ہوتی ہے اس لیے وہ دوسروں کی نسبت دوگنی روٹیاں کھاتے ہیں۔ مجھے یہ بات مذاق لگی تھی لیکن وہ اس کی صداقت پہ مصر تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply