محسن کش صیہونی قوم/افتخار گیلانی

بحیرہ اسود اور بحیرہ مرمرہ کو ملانے والی آبنائے باسفورس ترکیہ کے اقتصادی دارالحکومت اور عروس البلاد استنبول کو دو براعظموں یعنی ایشیا اور یورپ میں بانٹتی ہے۔ باسفورس کی ایک شاخ شہر کے کافی اندر تک جاکر ایک بند گلی میں ختم ہوجاتی ہے۔ پانی کی اس چینل کو شاخ زریں کہا جاتا ہے، جو شہر کے یورپ والے حصے کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ اس شاخ زریں کے کنارے ایک رنگارنگ محلہ بلات واقع ہے، جہاں ایک ہی گلی میں مسجد، چرچ اور یہودیوں کی عبادت گاہ سینا گاج یا کنیسہ واقع ہے۔
یروشلم کی طرح، یہ علاقہ متنوع تہذیبوں کا ایک علاقہ ہے، جہاں صدیوں سے عیسائی، یہودی اور مسلمان مل جل کر رہتے آئے ہیں۔ مقامی بلدیہ نے بلات کی گلیوں کو رنگوں سے رنگ دیا ہے، تاکہ اس کی تکثیریت کی عکاسی ہو سکے۔
ایک عرصہ قبل ایک یہودی عالم نے مجھے کہا تھا کہ اگر یہودی اس وقت بطور مذہبی یا قومی شناخت زندہ ہیں، تو اس کا سار کریڈٹ ایرانیوں اور مسلمانوں کو جاتا ہے، ورنہ قدیم زمانہ میں بابل کے باسیوں نے اور عہد وسطیٰ میں رومیوں نے اور پھربیسیوی صدی میں جنگ عظیم دوم تک یورپ نے ان کو برباد اور ختم کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔
ترکیہ میں مقیم ایک یہودی اسکالر کارین گیرسان سارحون کا کہنا ہے کہ 1492 میں جب اسپین کے بادشاہ فرڈینینڈ دوم اور ملکہ ازابیلا اول کے جاری کردالحمرا فرمان کے بعد یہودیوں کو ملک بدر کر دیا گیا، تو سلطنت عثمانیہ نے فراخدلی کے ساتھ ان کو باز آباد کرنے میں ہاتھ بٹایا۔ ترکیہ کے آرکائیوز کے مطابق سلطان بایزید ثانی نے نہ صرف اسپین کے اقدامات کی مذمت کی بلکہ یہودیوں کو سلطنت عثمانیہ تک بحفاظت پہنچانے کے لیے بحری جہاز بھی بھیجے۔ ان مخطوطات میں ان یہودیوں کے نام اور ایڈریس موجود ہیں، جن کو پناہ دی گئی۔
ان یہودی تارکین وطن میں فرانس سے ہجرت کرنے والا ربی یتزاک سرفاتی بھی شامل تھا، جو جرمن نژاد یہودی تھا۔ اس نے یورپ میں مقیم یہودیوں کو دعوت دی کہ وہ سلطنت عثمانیہ میں آباد ہو جائیں۔اس نے اپنے ہم مذہبوں سے پوچھا کہ کیا تمہارے لیے عیسائیوں کے بدلے مسلمانوں کے ساتھ رہنا بہتر نہیں ہے؟ سلطان محمود دوم، جس کو فاتح استنبول کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کے دور میں ایک یہودی حکیم یعقوب پاشا سلطنت عثمانیہ کا وزیرخزانہ تھا۔ دیگر یہودیوں میں، موسیٰ ہامون اور اسحاق پاشاسلطان کے خصوصی طبیب تھے، اور ابراہم ڈی کاسترو، ٹکسال کے انچارج تھے۔
معروف اسکالر ڈاکٹر ظفر اسلام خان، جنہوں نے حال ہی میں گیارہ سال کی مشقت کے بعد قران کا انگریزی میں تفسیر مکمل کرکے شائع کیا ہے، کا کہنا ہے کہ 20 ویں صدی کے اوائل میں صیہونیت کے ظہور سے قبل تک یہودیوں کی تاریخ مسلمانوں کی تعریفوں کے پل باندھتی تھی۔ ان کے مطابق 20 ویں صدی کے اوائل اور پھر خاص طو پر 1948کے بعد انہوں نے اپنی تاریخ کو توڑ مروڑ کرکے پیش کرنا شروع کر دیا۔ اسرائیل فلسطین تنازعہ سے قبل یہودیوں کی تاریخی کتابیں مسلم حکمرانوں کی سخاوت اور ان کے جذبہ رحم کے واقعات سے بھری پڑی تھیں۔ مسلم حکمرانوں نے وقتاً فوقتاً، انہیں مغرب کے وحشی پن سے نجات دلائی۔
یہودی صحیفوں کے مشہور اسکالر ربی موسیٰ بن میمون، جسے عام طور پر میمونائڈز کے نام سے جانا جاتا ہے، نے ایوبی خاندان کے بانی صلاح الدین یوسف ابن ایوبی کے ذاتی معالج کے طور پر خدمات انجام دیں۔ صلاح الدین نے 1187 میں صلیبیوں کو شکست دے کر یروشلم شہر کو کامیابی سے فتح کیا۔اس یہودی اسکالر نے آزادی کے ساتھ کتابیں لکھی۔ ڈاکٹر خان صاحب نے بتایا کہ دی یونیورسل جیوش انسائیکلو پیڈیا، جو نیویارک میں 1908 میں شائع ہوئی تھی اور دیگر تصانیف میں یہودیوں نے یورپ میں عیسائی حکمرانوں کی طرف سے روا رکھے جانے والے سلوک کا ذکر کرکے، مسلم حکمرانوں کے کردار کی تعریف کرکے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے ان کونہ صرف حفاظت فراہم کی، بلکہ ان کی پرورش بھی کی۔
یہودی عالم اور آئیرلینڈ کے ربی ڈیوڈ روزن سے میں نے پوچھا کہ آخرکیا وجہ ہے کہ ایک یہودی ملک اسرائیل مسلمانوں کے خون کا پیاسا ہے؟، تو ان کا کہنا تھا کہ اگرمسئلہ فلسطین حل ہوتا ہے اور فلسطینیوں کے وقار کوتسلیم کیا جاتا ہے، تو اسلام اور یہودیت کے درمیان تعلقات بحال ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مسیحیت کے برعکس، اسلام نے یہودیوں کے وجود کو کبھی بھی غیر قانونی قرار نہیں دیا۔ عیسائیت کے لیے،یہودی خدا کے دشمن اور ابلیس کے ساتھ تھے، کیونکہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ سلام کو نشانہ بنایا تھا۔ لہذا عیسائی حکمران یہودیوں کا نام و نشان مٹانا چاہتے تھے۔ ان کے دور یہودیوں کے وجود کا مقصد صرف یہ تھا کہ عیسائیت کو درست ثابت کرنے کے لیے اذیتیں جھیلنا اور ذلیل و خوار ہونا۔ اسلام میں اس قسم کی کوئی چیز موجود نہیں تھی۔ان کا کہنا تھاکہ تینوں بڑے مذاہب – یہودیت، عیسائیت اور اسلام – کی بنیاد توحید پر قائم ہیں اور بت پرستی کے مخالف ہیں۔تینوں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے نسبت رکھتے ہیں۔
شام کی سرحد پر واقع ترکیہ کے شانلی عرفہ شہر میں ہی حضرت ابراہیم پیدا ہوئے اور یہیں ان کو بابل کے فرمانروا نمرود نے ایک وسیع و عریض آگ میں ڈال دیا۔ جس مینار سے ان کو پھینک کر آگ میں ڈالا گیا، وہ آج بھی قائم ہے اور یہ وسع و عریض آگ ایک جھیل میں اور لکڑیاں مچھلیوں میں تبدیل ہو گئی۔واللہ عالم بالصواب۔ اس جگہ پر ایک خوبصورت مسجد ہے۔ چونکہ اسماعیل اور اسحاق دونوں ابراہیم کے بیٹے ہیں، جنہوں نے حضرت نوح کے بیٹے شیم سے نسب حاصل کیا، اس لیے سامی سیمیٹک اصطلاح کا اطلاق یہودیوں اور عربوں دونوں پر ہوتا ہے۔مگر بد دیانتی کی انتہا ہے کہ اس کو صرف یہودیوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ 957 قبل مسیح کے آس پاس،حضرت سلیمان نے یروشلم میں پہلا ہیکل تعمیر کیا۔ اس شاندار ڈھانچے کی تعمیر میں مافوق الفطرت مخلوق، جنوں نے بھی مدد کی۔
غالباً چار صدیوں کے بعد جب بابل کو دوبارہ عروج حاصل ہوا، تو بخث نصر یا نبوکد نذر نے 586 قبل مسیح میں یروشلم کی طرف مارچ کیا اور شہر اور ہیکل کو تباہ و برباد کرکے ہزاروں یہودیوں کاقتل عام کیا، جو بچ گئے انہیں غلام بنا کر لے جایا گیا۔کئی سالوں کے بعد جب بابل کی سلطنت کو زوال آگیا اور ایران کو سائرس اعظم کے دور میں قوت حاصل ہوئی، تو انہوں نے بابل پر حملہ کرکے یہودیوں کو آزاد کرایا۔ نہ صرف ان کو فلسطین واپس جانے کی اجازت ملی، بلکہ سائرس نے ہیکل کی دوبارہ تعمیر میں بھی مدد کی۔ کئی مؤرخو ں کے مطابق سائرس اعظم ہی ذولقرنین ہیں، جن کا ذکرقرآن کے سورہ کہف میں ملتا ہے۔ 70 عیسوی میں، ٹائٹس کی قیادت میں رومی فوج نے اس دوسرے ہیکل کو تباہ کر دیا اور یروشلم اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں یہودیوں کے داخلے پر پابندی لگا دی۔
چھ صدی بعد خلیفہ ثانی عمر کے دور میں عرب فوجوں نے یروشلم کا محاصرہ کیا۔ چھ ماہ کے بعد، پیٹریارک سوفرونیئس نے اس شرط کے تحت ہتھیار ڈال دیے کہ وہ صرف خلیفہ کے سامنے سرتسلیم خم کرے۔ خلیفہ عمر نے یروشلم کا سفر کیا، جہاں انہوں نے اس جگہ کے بارے میں دریافت کیا۔ کیونکہ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺنے جب معراج کے واقعات بتائے تھے، تو ان جگہ کے بارے میں صحابہ کو تفصیل کے ساتھ بتایا تھا۔سوفرونئیس جب حضرت عمر کو اس مقام پر لے گیا، تو یہ کھنڈرات تھے۔ رومیوں نے یہودیوں کی ہر علامت کو مٹا دیا تھااور شہر کا کچرا اس جگہ پر پھینکتے تھے۔حضرت عمر نے اس جگہ کو صاف کرکے نماز ادا کرنے کے بعد لکڑی کی ایک مسجد تعمیر کی، جو، مسجد الاقصیٰ ہے، بعد میں امیہ دور میں اس میں توسیع کی گئی اور موجود شکل میں موجود ہے۔ اگرچہ سوفرونیئس کے ساتھ جو معاہدہ طے ہوا تھا اس کے مطابق یہودیوں کو شہر میں رہنے یا آنے کی ممانعت کی گئی تھی، مگر مسلم حکمرانوں نے رواداری کا مظاہر کرکے دریا دلی دکھا کر اس شق کو کبھی نافذ نہیں کیا۔
ستم ظریفی ہی ہے کہ یہ قوم، جو یورپ اور مسیحیوں کے ظلم و ستم کا شکار رہی ہو، اس وقت مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کر رہی ہے، جنہوں نے آڑے اوقات میں ان کو آفات سے محفوظ رکھا۔ وہ ایران کے بھی مقروض ہیں، جس کی وجہ سے وہ روئے زمین پر ابھی بھی زندہ ہیں۔ ورنہ بخث نصر نے زمین کو ان سے پاک کرنے کے پورے سامان فراہم کر دیے تھے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply