ریاست ماں ہوتی ہے۔۔زین سہیل وارثی

میرے استاد جی کہتے تھے پتر کسی گھر کا سکون تباہ و برباد کرنا ہو تو گھر کے بڑے (ماں یا باپ) اپنی ایک اولاد کی غلطیاں معاف کرنا شروع کر دیتے ہیں ، نتیجہ اسکا بالآخر گھر کی تباہی و بربادی نکلتا ہے۔ جو سمجھدار مائیں ہوتی ہیں ان کو اپنی اولاد کی غلطی و کوتاہی کا اندازہ ہوتا ہے مگر معاف نہیں کرتیں بلکہ سرزنش کرتی ہیں نیز جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہو اس کو دلاسہ دیتی ہیں۔ مرنے والا واپس نہیں آتا، زندگی رواں دواں رہتی ہے، لوگ دلاسہ دیتے ہیں تو غم کی شدت البتہ وقت کے ساتھ کم ہو جاتی ہے۔

ہزارہ برادری کے ساتھ ظلم و زیادتی قریب 2011ء سے جاری ہے، یہ بنیادی طور پر اس فرقہ واریت کا باب ہے جسکی بنیاد افغان روس جنگ میں رکھی گئی۔ ریاست کا فیصلہ تھا کہ افغان مسلمان بھائیوں کی مدد کرنی ہے، اور سرخ انقلاب جیسے شیطان سے چھٹکارا پانا ہے۔ بابو لوگوں کا فیصلہ تھا، رعایا نے من و عن سر تسلیم خم کیا اور نتائج ہم پچھلی 4 دہائیوں سے بھگت رہے ہیں۔ دو دہائیاں اس جہاد کی داغ بیل میں گزر گئیں، دو دہائیاں اسکی صاف صفائی میں گزر گئی ہیں۔ ایک اور ریاست سعودی عرب نے بھی امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا مگر انھوں نے اپنے ملک میں کسی فساد کی  داغ بیل نہ ڈالنے دی۔ 2015ء اور اسکے بعد کچھ عرصہ یکے بعد دیگرے سعودی عرب کے چند ایک شہروں میں خودکش حملے  ہوئے لیکن کیونکہ ریاست ماں جیسی تھی انھوں نے اسکا سدباب کیا، اور وہاں اب امن قائم ہے۔

ہم نے دوسروں کی جنگ میں اپنے بچے پہلے جہادی بنائے، ان میں زہر بھرا اور پھر 2001ء میں بابو لوگوں نے فیصلہ کیا کہ اب اس زہر کو ختم کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ نتیجہ پھر ہمارے سامنے ہے 23500 کے قریب عام پاکستانیوں نے قربانی دی اور 9000 کے قریب عسکری جوانوں نے قربانیاں دیں۔ 2000ء سے 2010ء کی دہائی تک 68 ارب کا معاشی نقصان اور 2020ء تک تقریباً 126 ارب کا مجموعی مالیاتی نقصان اٹھایا جا چکا ہے، خون کی قربانی الگ جاری ہے، اور عسکریت پسندی کے خاتمہ کے لئے اب تک ضرب عضب، اور ردالفساد بڑے معرکے  وقوع پذیر ہو چکے ہیں، مزید کتنے درکار ہیں ریاست ہی بتا سکتی ہے، ان آپریشنز کا مالیاتی بوجھ اوپر بیان کیے گئے نقصان کے علاوہ ہے۔

ریاست یہ بیان دے کر اپنی ذمہ داری سے عہدہ برا ہو جاتی ہے کہ “آپ کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی”۔ ریاست لوگوں کی حفاظت کی نگہبان ہوتی ہے نہ  کہ قربانی کی۔ جس طرح ماں بچوں کی نگہداشت و حفاظت کی ذمہ دار ہوتی ہے۔

بقول شہاب جعفری
تو ادھر اُدھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گِلا نہیں تری رہبری کا سوال ہے

ریاست کے بقول وقت کے ساتھ ساتھ افغانستان پاکستان بارڈر پر باڑ کا کام بھی جاری  ہے،نیز عسکری چوکیاں جگہ جگہ قائم کی گئی ہیں۔ لیکن یہ لوگ پھر کس طرح ہمارے اردگرد موجود حفاظتی حصار توڑ کر دن دیہاڑے نقب زنی اور قتل و غارت گری کر جاتے ہیں، یہ وہ سوال ہیں جن کے جواب عام آدمی چاہتا ہے۔ آخر کب تک ہمارا خون نا حق بہتا رہے گا۔؟

2011ء سے کوئٹہ میں ہزارہ کے ظلم و ستم کے نتیجے میں کم از کم 1300 ہلاک اور 1500 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ متاثرین میں برادری کے اعلی سطح کے افراد ، مزدور ، خواتین اور ایک تہائی بچے شامل ہیں۔ ان بڑے حملوں میں حسین علی یوسفی کا قتل ، اولمپین ابرار حسین ، ہزارہ کی ایک مسجد پر بمباری ، عاشورہ کا قتل عام ، یوم قدس بم دھماکا ، پلے گراؤنڈ قتل عام ، مستونگ قتل عام ، جنوری 2013 کوئٹہ بم دھماکے ، فروری 2013 کوئٹہ بم دھماکا ، ہزارہ پیلیگرامز قتل عام ، اختر آباد قتل عام اور سانحہ مچھ 2020ء شامل ہیں۔ القاعدہ سے وابستہ پاکستانی سنی مسلم شدت پسند و عسکریت پسند گروپ لشکر جھنگوی نے ان میں سے بیشتر حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

وزیراعظم اور ریاست دیگر معاملات یعنی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اور حزب اختلاف میں نہایت مصروف ہے اس لئے ان کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ مظلوم کی دادرسی کرنے پہنچ جائے۔ مظلوم کو سینے سے لگائے اور واضح پیغام دے کہ ہم آپ کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ کاش ہمارے خلیفہ وقت جو ریاست مدینہ کی تعمیر و ترقی کے لئے کام کر رہے ہیں نیوزی لینڈ کی وزیراعظم سے ہی کچھ سیکھ لیتے۔ پارلیمان کا اجلاس حکومت اور حزب اختلاف مل کر بلاتیں۔ ملک میں اسلحہ پر پابندی کے لئے قانون سازی کی جاتی، وزارت مذہبی امور اور اسلامی نظریاتی کونسل سے باقاعدہ مراسلہ جاری کروایا جاتا، جس میں فرقہ واریت کے سدباب پر عملی اقدامات کیے جاتے۔

ریاست ماں ہوتی تو یہ اقدام کرتی، جہاں تعلیم، صحت، روزگار، بنیادی ضروریات تک نجی محکمہ مہیا کرتے ہوں وہاں لوگوں کو اب اپنی حفاظت کے لئے بھی نجی محکمہ کی خدمات حاصل کر لینی چاہیں کیونکہ ریاست اس ذمہ داری سے بھی بری الذمہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

“اطلاعاً عرض ہے لوگ اپنی حفاظت کے خود ذمہ دار ہیں، جانی نقصان کی صورت میں ریاست ذمہ دار نہ ہو گی۔”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply