• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • تصویر کا دوسرا رخ اور آزاد جنسی اختلاط کے لیے ذہن سازی کی بنیادیں۔۔ بلال شوکت آزاد

تصویر کا دوسرا رخ اور آزاد جنسی اختلاط کے لیے ذہن سازی کی بنیادیں۔۔ بلال شوکت آزاد

دو دن سے چند تصاویر سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہیں جن میں ایک مثبت میسج کے ذریعے معاشرے میں منفی رجحان پیدا کرنے کی منافقانہ حرکت کی گئی کہ جی جہیز ایک لعنت اور بوجھ ہے جس کا بار لڑکی اور اس کے والدین پر ہوتا ہے۔ ۔ ۔ بیشک بیشک یہ بالکل سچ ہے لیکن صاحبو!یہ آدھا ہی سچ ہے ،کیونکہ دوسری طرف لڑکا کس طرح کے بوجھ کا شکار اور کن کن معاشرتی قدغنوں میں گِھرا ہے اس پر بھی انصاف سے بات ہونا بہت ضروری ہے، کیونکہ دراصل جہیز و بری کی رسمیں وہ اضافی کردار ادا کرتی ہیں نکاح و شادی کو مشکل اور ناممکن بنانے میں جن میں پہل والدین اور رشتہ داروں کی جانب سے لڑکا لڑکی کی عمر خود شادی کے  لیے طے کرنے سے ہوتی ہے مطلب نہ ہی قدرتی و طبی نکتہ نظر سے اور نہ ہی شریعی و قانونی نکتہ نظر سے بلکہ براہ راست سرپرستوں کی مرضی یہ طے کرے گی کہ لڑکا لڑکی شادی کے قابل ہیں یا نہیں۔ ۔ ۔ لاحول ولا قوت الا باللہ۔

جبکہ اسی فوٹو شوٹ کی ایک اور تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ فوٹو شوٹ والی تصاویر میں علی  ذیشان صاحب جو کہ اس کے کرتا دھرتا اور فیشن ڈیزائنر ہیں نے برائیڈل شو میں جہیز کے خلاف  آگاہی  مہم چلائی   جس میں ایک دلہن کو دکھایا کہ وہ مہنگے جوڑے اور زیورات میں لدی ہوئی ایک چھکڑے کو کھینچ رہی ہے۔

جبک دوسری جانب حقیقت میں اسی ڈیزائنر کے برائڈل جوڑے ہیں جن کی قیمت اگر ہمت ہو تو اسی کی بزنس ویب سائٹ پر ملاحظہ فرمائیں, ایمان سے سستے سے سستا شادی کا جوڑا بھی 50 ہزار سے اوپر ہے جن صاحب نے جہیز کے خلاف ایک کمپین چلا کر اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کی اور حقیقت یہ ہے کہ ایسے نابغہ روزگاروں نے شادی ایک لگژری اور معیوب فعل بنا چھوڑی ہے۔

آپ کی معلومات میں اضافے کے لیے یہ بھی بتاتا چلوں کہ امریکہ و یورپ یا مکمل مغرب کی بات کریں تو وہاں شادی ایک لگژری بن چکی ہے جبکہ آزادانہ جنسی اختلاط عام رواج  ہے مطلب مغرب ” آزاد جنسی اختلاط کا گڑھ ” کب کا بن چکا جہاں لڑکا اور لڑکی سکول کی ” پرام نائٹ ” سے سولہ  سال کی عمر میں اپنی جنسی زندگی کا باقاعدہ آغاز کرتے ہیں بطور گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ وہ بھی والدین کی سو فیصد رضامندی سے جبکہ یہاں دو بول نکاح کے پڑھا کر جنسی اختلاط کی شریعت کی دی گئی چھوٹ سلب کی جاتی اور کی جارہی ہے اور سوال اٹھایا جاتا ہے کہ آیا کم عمری کی شادی کرنی چاہیے یا نہیں یا بلوغت کی حد کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔

جب معاشرہ سراسر بے راہ روی کا شکار ہو اور اوپر سے شادی بیاہ کی ہندوانہ رسم و رواج نے شادی ویسے ہی لگژری بنا دی ہو تو وہاں بلوغت کے نام پر شادی کی روک تھام کا کلچر متعارف کروانا اور پچیس تیس سال تک نوجوانوں کو شادی سے دور رکھ کر زنا کا موقع دینا قطعی اسلامی اور اخلاقی حرکت نہیں۔

میری ذاتی رائے میں نوجوانوں کو شادی سے دور کرنے والا ہر معاشرتی و قانونی عمل محض طاغوت کی خوشنودی کی جانب قدم اٹھانا ہے کیونکہ طاغوت کی یہ اولین خواہش ہے کہ پاکستان سمیت امت مسلمہ کے تمام ممالک جہاں جسمانی جبلت کی تسکین حلال و جائز طریقے سے پوری کی جاتی ہے میں اسقدر گھٹن اور قدغن کا ماحول بنا دیا جائے کہ نوجوان جبلت کے ہاتھوں مجبور ہوکر سیل رواں بن جائیں اور خود ہاتھوں سے اسلام کا باندھا ہوا بندھ توڑ کر آزاد جنسی اختلاط کے گڑھ کی بنیاد رکھ دیں۔

اول تو جہیز و بری وغیرہ اور لڑکے لڑکیوں کی اعلی تعلیم کے معاملات کو جواز بنا کر والدین شادی میں خود رکاوٹ ہیں اوپر سے حکومت وقت اور ان کی مددگار این جی اوز اور فیمنسٹ تنظیمیں بلوغت کی حد مقرر کرنے کے نام پر شادی کی روک تھام میں پیش پیش ہیں جبکہ دوسری جانب سول سوسائٹی اور عورت مارچ کی حامی خواتین و حضرات ” میرا جسم میری مرضی ” اور ” سیکس ایحوکیشن ” کا مطالبہ نما بم بھی پھوڑتے رہتے ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ یو این او  کے ایجنڈا 2030 میں اسلامی و مشرقی ممالک بلخصوص سعودیہ و پاکستان وغیرہ کو آزاد جنسی اختلاط کے گڑھ میں بدلنے کی شق شامل ہو تو آپ اور ہم اس کے بعد بھی شریعت کا مذاق اڑانے والوں کو یونہی مصروف عمل رہنے دیں گے؟

ایسی کمپینز, سلوگنز اور مارچ وغیرہ دراصل تصویر کا دوسرا رخ چھپانے یا مسخ کرنے کی گھنونی سازش ہے اور آزاد جنسی اختلاط کے لیے ذہن سازی کی بنیادیں ہیں کیونکہ جب نکاح اور شادی مشکل و ناممکن اور ناپسند بنادی جائے گی معاشرے میں تب پیچھے آزاد جنسی اختلاط کے اور بچتا ہی کیا ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

مختصراً یہ کہ ہمیں سادہ اور جلد نکاح کو عام کرنے والے اقدامات کرنے چاہئیں اور ایسے عوامل و سوالات پر مبنی بحث و مباحثہ کو نہیں چھیڑنا چاہیے جو نکاح کو مزید مشکل جبکہ زناء کو آسان بنانے کا پیش خیمہ ثابت ہوں۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply