خاکسار کی طرف سے منعقدہ دعوت میں شریک ہونے کے لیے تمام دوست احباب کا تہہ دل سے مشکور ہوں۔سب سے پہلے تو میں اس بات کے لیے معذرت خواہ ہوں کہ راقم کی دعوت پر لبیک کہنے والے معزز احباب کا بروقت شکریہ ادا نہیں کرسکا۔اول تو یہ کہ فشارِ تنگیٔ وقت نے مہلت نہیں دی، دوم اینکہ سوزِ غم ہائے نہانی، سودائے خام کی روانی کے لیے جو آنچ مانگتی ہے وہ کسالت و بے زاری کے آتش دان میں بسانِ راکھ سرد پڑی ہوئی ہے۔ اور پھر جب خرابۂ جاں میں ہر سُو خاک برس رہی ہو تو پھر کون سی کیفیت، کیسا رعنائی خیال، کیسی شوق آوارگی اور کاہے کی خمارِ آذری۔۔۔ ساز ومضراب موجود ہوں تو کیا، رامشِ حرف و لفظ پر مطربہ رقص کناں ہو تو بھی درون ذات کچھ مشتعل نہیں ہوتا ۔ جب دل کسی بے نام گرانی کی نرم آنچ پر جل بُجھ رہا ہو تو الفاظ کے رخسار پر سے حسن معانی کا غازہ اترنے لگتا ہے، جمال کی لطافت پر کثافت غالب آنے لگتی ہے ۔ پھر کوئی بھی مغنیہ ہو، کوئی بھی مزمار ہو، کوئی بھی انگشتِ حسیں ساز ہو، محشر خیال کو مشتعل کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ یہ وجدان کی آتش ہے جو شوخیٔ حسن و گفتار کو فروزاں رکھتی ہے ۔ یہ الہام کی سرگوشی ہے کہ خیال یار ابھی جنما نہیں اور قرطاس پر آگیا۔ ہم منتظر ہی رہے، وفور کا یہ لمحہ نہیں آیا، صبا خاک اڑاتی ہوئی سوگوار گزر گئی، کسی سایۂ شاخ گل کے تلے کوئی قصہ سنائے بغیر۔ لیکن مجھے تو بہر صورت سنانا ہے کہ اس طرح کہانی کا سفر جاری رہتا ہے اور آدمی کا بھی۔
ایک دن یونہی، اچانک کشیدہ کار ازل نے کہا! ایک موقع ہے چاہو تو زندگی رفو کرلو! بس شرط یہ ہے کہ یہ جو کہیں کہیں سے پھٹی ہوئی ہے اس کی رفوگری کی صورت یہ ہے کہ تمہیں اپنوں سے دور جانا ہوگا؛ کسی لیت و لعل کے بغیر ساری شرطیں تسلیم کرلیں، یار باشوں کو نوید دی، حلقہ یاراں میں کہرام مچا،ہاؤ ہو کے درمیان آواز آئی؛ پارٹی بنتی ہے، سو پارٹی طے ہوگئی۔ایک طرف سے آواز آئی کہ ہاشم صاحب جا رہے ہیں سو ان کو چاہیے کہ ایک الوداعی پارٹی دیں، دوسری طرف سے آواز آئی کہ ان کے اعزاز میں بھی پارٹی ہونی چاہیے سو ہم نے دونوں کو آمیز کردیا اور کمان اپنے ہاتھ میں رکھی۔ اب کیا الوداعی اور کیا اعزازی۔ اب بس پارٹی تھی اور ہر سو شور و شر تھا۔ طے یہ ہوا کہ گوشت میں بناؤں گا، چکن کی جگہ پر مچھلی ہوگی اور وہ اعجاز بنائے گا۔ شروع میں کل پندرہ افراد تھے، پھر یہ تعداد بڑھنے لگی اور اس کے بعد یہ ہوا کہ اب جو بھی تعداد ہو کوئی تحدید نہیں۔ پھر یہ تعداد بڑھتے بڑھتے تقریباً اسی افراد تک پہنچ گئی۔ بجٹ بڑھ کر ساٹھ ہزار ہوگیا لیکن فکرمند ہونے کی چنداں ضرورت نہیں تھی کہ حلقہ یاراں کے ہوتے ہوئے اگر مجھے اس کی فکر کرنی پڑے تو لعنت ہے مجھ پر اور لعنت ہے میرے دوستوں پر۔ بات غیرت کی ہے اور الحمدللہ یارباشوں میں کوئی بے غیرت نہیں ہے۔ جاوید (ڈاکٹر جاوید چودھری) گرین پارک میں، ہمارے گھر کے قریب ایک بلڈنگ بنا رہے ہیں، وہی زیر تعمیر عمارت دعوت کا مقام ٹھہری۔ عبدالنوربھائی، ڈاکٹرجاوید چودھری، اعجاز احمد خان، شاہد خان( ندوی) ،رضوان احمد خان،رضوان چودھری، صلاح الدین شاہد،سلمان ملک، عبدالمبین، محب الرحمان،پرویز احمد، صفی الرحمان منا، نیز “احباب” گروپ کے افراد جس میں حافظ نیاز سنابلی، محمد اسماعیل، رفیق اللہ، معین الحق مسلسل میرے ساتھ رہے، انہوں نےکبھی احساس نہیں ہونے دیا کہ پروگرام اپنے متوقع حجم سے کافی بڑا ہوگیا ہے اور یہ کہ میں یک و تنہا ہوگیا ہوں، ایسے افراد سرمایہ ہوتے ہیں اور معاشرے میں کمیاب ہیں، جہاں بھی ملیں ان کی تعظیم و تحسین لازمی سمجھیں۔ بجٹ بڑھتا گیا لیکن ساتھ ہی یارباشوں کا عزم بھی کہ پروگرام تو ہوگا اور شایان شان ہوگا۔اللہ کے فضل و کرم سے تقریب بغیر کسی خلل کے اپنے اختتام کو پہنچی۔ اس کے لیے میں تمام دوستوں کا جو پروگرام کو کامیاب بنانے میں ہمارے ساتھ تھے اور جو ایک واٹس اپ میسج پر دعوت میں شریک ہوئے ان سب کا شکرگزار ہوں۔
چار سال قبل تک مجھے یہ ملال تھا کہ اچھا خاصا قابل اور معروف ہونے کے باوجود میرا کوئی حلقہ نہیں ہے، مولوی مجھے دہریہ سمجھتا ہے اور دہریہ مولوی سمجھتا ہے۔ جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی۔ میں دونوں کے درمیان معلق تھا، کبھی مولویت سے بہت دور بھاگتا ہوا دہریت کے بہت قریب اور کبھی دہریت کو وحدانیت کے سمندر میں غرق کرتا ہوا مولویت کے بہت قریب۔ افسوس دونوں بے چارے مجھے نہیں سمجھ سکے کہ وہ اپنے اپنے ظرف کے مطابق سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے اور میں جو دیر و حرم دونوں کو لرزہ براندام کئے رہتا ہوں بھلا ان کے ظرف میں کہاں سما سکتا تھا، سو وہ کنفیوژ کے کنفیوژ ہی رہے اور میں بت شکنی کرتے ہوئے یہاں آپ کے درمیان آگیا۔ اب مجھے کوئی ملال نہیں ہے اور اس کے لیے میں عبدالنور نملی صاحب کا شکرگزار ہوں کہ اب اہل کعبہ مجھے صاحب ایمان سمجھنے لگے ہیں۔ اب کوئی ملال نہیں کہ اب کچھ نکتہ شناس ہم نشیں بھی ساتھ ہوتے ہیں، محفل بھی جمی رہتی ہے، کوئی الاو نہیں کوئی چوپال نہیں، دزدانِ شب چراغ کے لیے کچھ بھی نہیں، مگر کچھ سگریٹیں، کچھ قہقہے اور یاران خوش خصال کی کہانیاں ضرور ہوتی ہیں ۔ 6 جنوری کی شام بھی کچھ ایسی ہی تھی، ایک بار جب یارباشوں کی محفل جم گئی تو بس جم گئی، جام جم کیا اور جام سفال کیا، جو تھا وجد تھا اور جو کچھ مل رہا تھا وجدان تھا۔
ہمارے لیے اس سے زیادہ مسرت کی بات اور کیا ہوسکتی تھی کہ ہماری اس محفل میں مولانا عبدالرحیم امینی، مولانا حمیداللہ سلفی، ڈاکٹر عبدالغنی قوفی، مولانا ثمر صادق، دکتور فاروق عبداللہ نارائن پوری، دکتور عبدالصبور مدنی شریک تھے۔ یہ صرف صاحب علم و فضل ہی نہیں ہیں بلکہ روشن خیال و منکسرالمزاج بھی ہیں۔ یہ وہ آبلہ پایان شوق ہیں جن کے چہروں پر آپ کو علم کی رعونت نظر نہیں آئے گی۔رخ روشن پر کوئی خمار زہد میں مبتلا ہونے والی کرختگی نہیں، پیشانی ہے جو گداخت ہے، دل ہے جو کشادہ ہے اور مزاج وہی وسیع المشربی والا۔ علاوہ ازیں میں عبدالمعید پھولپوری، عبدالعزیز رحمانی، مولانا عبدالرشید سمیع سلفی، ڈاکٹر احرار اعظمی، ڈاکٹر اظفر خان، ڈاکٹر شمس الرب خان، محمود ملک، مشتاق رحمانی، محمد اسماعیل سلفی، محمد زید صابری، عبداللہ فیصل، ابن کلیم، اظہار اظہر، شرف الدین، عمران اللہ شیخ، ندیم بلبلے، ابو طالب، سعیدالرحمان چودھری، عبداللہ خان وغیرہم کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میری دعوت کا احترام کیا اور پروگرام میں شریک ہوئے۔ اس پروگرام سے ہمیں یہ تجربہ ہوا کہ اس طرح کا پروگرام دو چار ماہ میں ایک بار کیا جا سکتا ہے اور انشاء اللہ جلد ہی ایک اور پروگرام کے ساتھ آپ کے درمیان حاضر ہوں گے۔ تب تک کے لیے اللہ حافظ
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں