• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مغرب میں توہین کے واقعات کیسے روکیں؟ (1)۔۔ڈاکٹر محمد شہباز منج

مغرب میں توہین کے واقعات کیسے روکیں؟ (1)۔۔ڈاکٹر محمد شہباز منج

پُرتشدد کاروائیوں کے حوالے سے ٹی ایل پی ایسے لوگوں کے طریقۂ کار سے میرے سخت اختلاف پر بعض احباب نے کہا کہ پھر ہمیں مغرب میں توہین کے واقعات کے حوالے سے کیا لائحۂ عمل اپنانا چاہیے؟ کیا طریقہ اختیار کیا جائے کہ مغرب کے لوگ ہمارے نبی محتشمﷺ کے حوالے سے خاکے وغیرہ شائع کر کے ہمارے جذبات مجروح کرنے سے باز آ جائیں۔ اس سوال کے جواب میں کچھ نکات مختصرا عرض کر رہا ہوں، جن میں بنیادی طور پر اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ کس طرح ہم مغربی اصول و ضوابط ہی کی روشنی میں مغرب کو اس پر قائل کر سکتے ہیں، نیز ہماری حکومتوں کو اس سلسلے میں کیا اور کیسا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے؟

مغرب میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت اور اس کو حکومتوں کی طرف سے تحفظ فراہم کرنے کے پیچھے مغرب کی یہ تہذیبی قدر کارفرما ہے کہ لوگوں کو اظہارِ رائے کی آزادی حاصل ہے۔ لیکن مغرب میں اس بات کو قانونی طور پر تسلیم کیا گیا ہے کہ اظہار کی کوئی آزادی غیر محدود نہیں ہوتی، کہیں نہ کہیں اس پر پابندی لگانی پڑتی ہے۔ مثال کے طور مغربی قوانین کے حوالے سے یہ ایک عام بات ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمن نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل عام (جسے ہولوکاسٹ کہا جاتا ہے)کے انکار یا اس پر شک کا اظہار کرنے (جسے ہولوکاسٹ ڈینائل کہا جاتا ہے)پر قانونی طور پر پابندی عائد ہے۔ اس قانون کے پیچھے یہ تصور کارفرما ہے کہ اظہار کی یہ آزادی نفرت کو جنم دے گی، لہذا اس کا انکار کرنا قابلِ سزا جرم ہے۔ یہ قانون اسرائیل سمیت سولہ ممالک (جس میں فرانس بھی شامل ہے) میں موجود ہے۔ہمیں ان کو سمجھانا ہوگا کہ بھئی جس طرح ہولوکاسٹ کا انکار جرم ہے اس لیے کہ یہ نفرت کو جنم دیتا ہے ، اسی طرح بلکہ اس سے کئی گنا بڑھ کر ہمارے نزدیک پیغمبرِ اسلام ﷺ کی توہین جرم ہے ، اس لیے کہ یہ اس سے کہیں بڑی نفرت کو جنم دیتی ہے۔آپ اپنے آزادیِ اظہار کے تصور پر اس معاملے میں قدغن قبول کر تے ہیں تو پیمبر اسلام ﷺ کے بارے اس قدغن کو بدرجہ اولی قبول کرنا چاہیے۔ گویا ہم آپ ہی کے اصول کے تحت ایک قانون کا مطالبہ کرتے ہیں ، اور ہمارا مطالبہ کوئی مذہبی انتہاپسندی نہیں ، ساری دنیا اور آپ کے یہاں بھی مسلمہ اصول و قوانین کے مطابق ہے۔

بہت سےمغربی سکالرزایسے ہیں جن کا کہنا ہے کہ ہولوکاسٹ ڈینائل کے خلاف قوانین یورپ اور یونائیٹڈ نیشنز کے انسانی حقوق سے متعلق قوانین کے منافی ہیں۔ (واضح رہے کہ یہ سکالرز اپنے لیے ہولوکاسٹ ڈینائرز کی اصطلاح کو درست نہیں سمجھتے بلکہ تاریخ کے دیگر ریویژنسٹ سکالرز کی طرح خود کو ریویژنسٹ کہتے ہیں) لیکن ان سکالرز کو وہاں مذکورہ قوانین کی زد میں آنا پڑتا ہے۔ ہولوکاسٹ ڈینائل پر اپنی اس تنقید کی وجہ سے بہت سے مصنفین کو سزا بھی دی گئی ہے، جن میں ماضی قریب (2006ء) میں برطانوی مورخ ڈیوڈ ارونگ (David Irving)کو آسٹریا کی عدالت سے تین سال کی سزا سنائی گئی تھی ۔ (واضح رہے کہ آسٹریا کے قانون کے تحت، جو 1992 میں بنا، ہولوکاسٹ کے انکار پر دس سال کی سزا دی جا سکتی ہے)۔ ہم ان کو سمجھا سکتے ہیں کہ ہولوکاسٹ ڈینائل پر اگر تم اپنے سکالرز کو سزا دے سکتے ہو، تو ہمارے پیغمبرِ اکرمﷺ کے خلاف اور نتیجتاً اربوں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والے صحافیوں کو کم ازکم اتنی ہی سزا کیوں نہیں دے سکتے؟ نیز اس کو قابلِ سزا جرائم کی فہرست میں کیوں شامل نہیں کر سکتے؟

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری)

Facebook Comments

ڈاکٹر شہباز منج
استاذ (شعبۂ علومِ اسلامیہ) یونی ورسٹی آف سرگودھا،سرگودھا، پاکستان۔ دل چسپی کے موضوعات: اسلام ، استشراق، ادبیات ، فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور اس سے متعلق مسائل،سماجی حرکیات اور ان کا اسلامی تناظر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply