پوسٹ آفس سکینڈل – ” ڈیمیج از ڈن”/فرزانہ افضل

ہم میں سے اکثر لوگ اپنے آبائی ملکوں کے نظام کو کوستے رہتے ہیں۔ رشوت، بےایمانی ، مہنگائی، غربت کمزور عدلیہ اور بے شمار مسائل کی وجہ سے ملکی نظام غیر موثر ہے، حقداروں کو حق نہیں ملتا ، بے گناہ کو جھوٹے الزامات میں دھر لیا جاتا ہے جب کہ مجرمان دندناتے پھرتے ہیں ۔ اور برطانیہ اور مغربی ملکوں کے سسٹمز کی تعریف میں ہم قلابے ملاتے نہیں تھکتے ۔ حالانکہ برطانیہ میں رہتے ہوئے یہاں کے پولیٹیکل سسٹم اور گورننگ باڈیز کی بہت سی  کمزوریاں ، غیر ذمہ دارنہ طرز عمل اور نا انصافیاں وقتاً فوقتاً منظر عام پر آتی رہتی ہیں ۔ حال ہی میں پوسٹ آفس اسکینڈل سامنے آیا ہے ، اگرچہ یہ کیسز کئی سال سے عدالت میں چل رہے ہیں لیکن برطانوی قوم کی تاریخ میں بدترین نا انصافی کی اس سے بڑی مثال نہیں ملتی۔

اس سال جنوری 2024 کے پہلے ہفتے میں آئی ٹی
وی نے چار قسطوں پر مشتمل ڈرامہ نشر کیا جس کا نام “ایلن بیٹس ورسز پوسٹ آفس” ہے جس میں پوسٹ آفس کے فرنچائز، چھوٹی برانچز کے “سب پوسٹ ماسٹرز” اور “سب پوسٹ مسٹرسز” پر پوسٹ آفس کی جانب سے کیئے گئے جھوٹے مقدمات کی وجہ سے ان کی زندگیوں پر مرتب ہوۓ دردناک نتائج کو نہایت پاور فل طریقے سے منظر عام پر لایا گیا۔ جس سے میڈیا میں ہلچل مچ گئی اور سیاست دانوں کا فوری رد عمل سامنے آیا  ہے۔
1999-2015 کے دوران پوسٹ آفس برانچز میں نصب کمپیوٹر سسٹم کی خرابی کے باعث اکاؤنٹس میں شارٹیج پائی گئی۔ پوسٹ آفس لمیٹڈ کی مینجمنٹ نے بجائے کمپیوٹر سسٹم کی خرابی کو چیک کرنے کے اس شارٹیج کا الزام پوسٹ آفس آپریٹرز پر لگایا اور ان پر چوری ، جھوٹے اکاؤنٹس، غبن اور دھوکہ دہی کے الزامات میں مقدمات چلائے ۔ ملک بھر میں 3500 برانچز کے آپریٹرز پر کیسز کیے گئے۔ 900 پوسٹ آفس آپریٹرز جن میں مرد اور خواتین دونوں شامل تھے پر چوری اور غبن کا جرم ثابت کیا گیا، 736 جیل میں گئے جبکہ 93 آپریٹرز کے کورٹ آرڈرز واپس لے لیے گئے ۔
آئی ٹی کی مشہور ملٹی نیشنل کمپنی فیوجٹسو نے پوسٹ آفسز میں ہورائزن اکاؤنٹنگ سسٹم نصب کیا تھا،  اس کی وجہ سے پوسٹ آفس کی برانچز کے اکاؤنٹس رقم کی بجائے کم رقم دکھاتے تھے۔ پوسٹ آفس لمیٹڈ کی مینجمنٹ اور سربراہان نے اس غلطی کو مسترد کر دیا اور اصرار کیا کہ پوسٹ آفس آپریٹرز اصل مسئلہ کو چھپا رہے ہیں درحقیقت انہوں نے رقم میں ہیرا پھیری کی ہے۔ جس کے نتیجے میں ان پر جھوٹے مقدمات کیے گئے۔ اس کا مرکزی محرک پوسٹ آفس کا ناقص اور خفیہ انتظامی کلچر تھا جس میں متاثرین سے متعصبانہ سلوک کیا گیا، ان کو جھٹلایا گیا۔ الٹا ان کو یہ بتایا گیا یہ معاملہ صرف ان کے ساتھ ہی ہے یعنی اکاؤنٹس میں خرابی کی شکایت صرف وہی کر رہے ہیں جبکہ باقی برانچز میں کوئی ایسا مسئلہ نہیں۔ حالانکہ عین اسی وقت کے دوران سینکڑوں افراد کو اسی طرح نشانہ بنایا گیا ،جب اس معاملے کے خطرات کو محسوس کیا گیا، تو  ویلز کے ایک پوسٹ آفس آپریٹر ایلن بیٹس نے پوسٹ ماسٹرز کا ایک گروپ بنایا۔ ایلن پر بھی ہزاروں پاؤنڈ چوری کرنے کا الزام تھا۔ اس نے اس معاملے کو اٹھایا کہ سسٹم میں غلطی ہے اور پوسٹ ماسٹرز کا کوئی قصور نہیں ۔ ایلن کی اس مہم کے نتیجے میں پوسٹ آفس نے فراڈ کے دعوؤں کی جانچ کے لیے فارنزک اکاؤنٹس کی ایک کمپنی کے ساتھ کمیشن بنایا۔ لیکن ہورائزن کے ساتھ ممکنہ غلطی پائے جانے کے بعد ان کے ساتھ کنٹریکٹ ختم کر دیا گیا ۔ حالانکہ پوسٹ افس گورنمنٹ کی نگرانی کے تابع تھا۔ مگر ایلن بیٹس کے گروپ نے 2019 میں ہائی کورٹ کا ایک فیصلہ جیت لیا کہ ان کی سزائیں ناحق تھیں اور ہورائزن سسٹم کی غلطی کی وجہ سے تھیں ۔ اس فیصلے کو پینڈنگ اپیل کے بعد 2021 میں فائنل کر دیا گیا۔ تب ان کیسز کی انکوائری 2021 میں شروع ہوئی ۔ کچھ ورکرز کی سزاؤں کو ختم کرتے ہوئے معاوضے یعنی کمپنسیشن کا راستہ اپنایا گیا۔ اکتوبر 2020 میں پوسٹ آفس نے باضابطہ طور پر معافی مانگی اور اس معاملے کو برٹش قوم کی ہسٹوریکل فیلیئر یعنی تاریخی ناکامی قرار دیا۔ 900 سے زائد سزا یافتہ لوگوں میں سے 142 اپیل کیسز کے جائزے مکمل ہو چکے ہیں۔ پولا وینلز جو 2012-2019 کے دوران پوسٹ آفس کی چیف ایگزیکٹو رہی ہیں شدید تنقید کی زد میں ہیں اور عوام ان سے ڈیمانڈ کر رہی ہے کہ وہ اپنا سی بی ای ( کمانڈر آف برٹش ایمپائر ) کا ٹائٹل واپس کریں ۔ یہ سب سے بڑا برٹش اعزاز ہے جو لوگوں کو ان کی اعلیٰ ترین ملکی اور قومی خدمات پر دیا جاتا ہے۔ پولا وینلز کو یہ ٹائٹل 2019 میں ان کی پوسٹ آفس سروس کے اختتام سے کچھ پہلے ہی دیا گیا تھا ۔ پبلک اور میڈیا کا موقف یہ ہے کہ وہ اس کے حقدار نہیں کیونکہ ان کی زیر نگرانی تاریخ کی بدترین بد انتظامی اور نا انصافی اور غیر ذمہ داری کی مثال قائم ہوئی ہے۔ پولا وینلز نے میڈیا پر آ کر معافی مانگی ہے اور وہ اپنا ٹائٹل واپس کر رہی ہیں۔ اس دور کے بزنس منسٹر ایم پی ایڈ ڈیوی جو لبرل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں،وہ  بھی پروفیشنل نیگلیجنس اور غیر ذمہ داری کی تنقید میں ہیں۔ رشی سناک نے پوسٹ آفس اسکینڈل کو “انصاف کا اسقاط حمل” کہا ہے۔ مگر کیا یہ تمام کیسز ختم ہونےاور گورنمنٹ کی طرف سے کمپنسیشن کے اعلانات ، ان تمام معصوم بے گناہ پوسٹ افس آپریٹرز کے جیل کی قید میں گزرے وہ سال لوٹا سکتے ہیں، فراڈ اور دھوکہ دہی کے الزامات میں سماج اور خاندان میں ان کی کھوئی ہوئی عزت لوٹا سکتے ہیں، کئی خاندان ٹوٹ پھوٹ گئے بکھر گئے ان مقدمات کی وجہ سے، کئی جوڑوں میں طلاقیں ہو گئیں، کیا ان کے ہنستے بستے گھر پھر سے بسا سکتے ہیں، ان معصوم لوگوں پر شدید مالی مشکلات آئیں ،کئی تو دیوالیہ ہو گئے، کئی بیماری اور ڈپریشن کا شکار ہو گئے، ان میں سے چار افراد نے ان جھوٹے مقدمات کے ڈپریشن کی وجہ سے خود کشی کر لی، کیا رشی سناک اور گورنمنٹ کے تمام ادارے اور کورٹ ان کی زندگیوں کو واپس لا سکتے ہیں ، ان کے اس خوشحال وقت کو واپس لوٹا سکتے ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors

۔ انگریزی میں کہتے ہیں ” دی ڈیمیج از ڈن” سو نقصان تو ہو گیا، “ڈیمیج از ڈن” ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply