امن کی تلاش۔۔ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

امن ایک حقیقت کا نام ہے جس کی ضرورت اور تقاضے عبادت کے مترادف درجہ رکھتے ہیں۔اگر عصر حاضر کے مطابق اس فطری تقاضے کا مشاہدہ کیا جائے تو ہمیں تصویر کا الٹا رخ نظر آتا ہے۔ہر سُو بے چینی اور ذہنی کرب کی فضا ہے ۔
ہر کوئی امن کا متلاشی ہے ۔دنیا میں جہاں بھی جائیں لوگ اس موضوع پر گفت و  شنید کرتے نظر آتے ہیں ۔یہ قصہ اپنی ذات سے شروع ہوتا ہوا خاندانی زندگی کا سفر طے کرتے ہوئے قوموں تک پہنچ جاتا ہے۔یہاں لوگ اپنی زبان سے اپنی تلخیاں ، نفرتیں ، عداوتیں ، الزام تراشیاں ، اور نا انصافیوں کا تھوک دوسروں کے منہ پر پھینکتے نظر آتے ہیں۔ خود کو راست باز اور دوسروں کو گنہگار کہتے ہیں۔اس وطیرے کا طول وعرض مشرق سے مغرب تک پھیلا نظر آتا ہے ۔اگر ہم دنیا میں اس حقیقت کو ٹٹولیں تو پتہ چلتا ہے کہ کہیں تصورات کی جنگ ہے ، کہیں نظریات سے اختلاف ہے ، کہیں معاشرتی پابندیوں کا حدود اربع ہے ۔البتہ جدھر بھی دیکھیں اور جہاں بھی چلے جائیں آلودہ فضا میں سانس لینا پڑتا ہے ۔نتھنوں کو غیر اخلاقی رویوں کی بدبو سونگھنے کو ملتی ہے۔ زبانوں پر  زہر ہے۔قلب و ذہن میں نفرت وفرق زہریلے مادوں کی طرح سرائیت کر چکا ہے ۔بغاوتیں اور عداوتیں اس قدر پختہ ہوگئی ہیں، کہ وہ آسانی سے مسمار نہیں ہوتیں۔
جب لوگوں کو ایسی فضا  میسر آئے گی وہاں نفسیاتی امراض وبائی شکل اختیار کر کے پھیل جاتے ہیں۔معاشرہ امن محبت اور بھائی چارے کی فضا سے خالی ہو جاتا ہے۔جس کا نتیجہ سوائے بحرانوں کے اور کچھ نہیں نکلتا ۔بحران زندگیوں کو کھوکھلے اور بے کار بنا دیتے ہیں ۔اخلاقی تقاضے ختم ہو جاتے ہیں ۔زندگی سوکھے درخت جیسی ہو جاتی ہے ۔شک و شبہ کا رحجان بڑھ جاتا ہے ۔ تلخیاں اور بدمزگیاں پیدا ہوجاتی ہیں ۔فطرت میں ایک نہ ختم ہونے والا روگ پل جاتا ہے یعنی اعتماد کا فقدان ۔
اگر انسان کی زندگی سے یہ فطری صلاحیت ختم ہو جائے تو زندگی شکوک و شبہات کی تصویر پیش کرتی ہے ۔انسان کے پاس سوائے ندامت اور رسوائی کے اور کچھ نہیں بچتا ۔وہ پھر اکثر اپنی لاپرواہی اور بد بختی پر نوحہ کناں ہوتا ہے ۔اور اکثر ایسے خیالات میں گم رہتا ہے ۔ہائے یہ میرے ساتھ کیا ہو گیا ۔آخر مجھ سے وہ کون سی غلطی سرزد ہوگئی ہے جس نے مجھے اتنا زیادہ پیچھے پھینک دیا ہے کہ میں اپنی واپسی کا راستہ بھی بھول گیا ہوں ۔میرے اردگرد تنہائی کا جنگل ہے ۔خوف و خطر نے مجھے بزدل بنا دیا ہے ۔مجھے دنیا کے حیوانوں سے ڈر لگتا ہے پتہ نہیں وہ کب نکل کر مجھے نوچ لیں ۔اب میرے ساتھ میری بے بسی اور پچھتاوا ہے جس نے مجھے بری طرح نڈھال کر رکھا ہے۔میری قوت مدافعت سلب ہو چکی ہے ۔میں کبھی ہاتھ کی ریکھاؤں میں اپنی قسمت تلاش کرتا ہوں اور کبھی فلک کی طرف آنکھیں اٹھاتا ہوں ۔لیکن مجھے یہ توفیق نہیں ملتی کہ میں روحانی آنکھوں سے اپنے اندر جھانک لوں ۔میں نے دنیا میں کیا کھویا ہے؟مجھے اس بات کی خبر نہیں لیکن مجھے اپنی کل کی فکر ہے۔خواہ  میں حلال کماؤں یا حرام ۔میرے اندر ایک ہی لگن اور جتن ہے۔ وہ ہے میرا درخشاں مستقبل۔ میں بے لگام گھوڑے کی طرح بھاگا جا رہا ہوں لیکن مجھے خبر نہیں کہ مجھے کب ٹھوکر لگے اور میں اوندھے منہ گر پڑوں۔ لیکن میں مسلسل صدائے احتجاج ہوں اور اپنے ارادوں میں مضبوط ۔قدرت میرے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے مجھے خبر نہیں ۔الغرض میں دنیا کو دیکھتے ہوئے اس راہ پر گامزن ہو گیا ہوں جہاں دوسرے لوگ اپنی منزل تلاش کر رہے ہیں ۔ان میں سے ایک میں بھی ہوں جو بغیر سوچے سمجھے اپنا سفر طے کر رہا ہوں ۔مجھے کب منہ کی کھانی پڑے مجھے معلوم نہیں ۔مجھے دوران سفر ایک غیبی آواز آتی ہے۔۔ کاش !
میرا ضمیر مجھے جھنجھوڑ کر تنبیہہ  و ملامت کرے۔میری تمام شکایتیں دور کرے ۔میرے اندر خود احتسابی کی شمع جلے تاکہ میں اپنے اندر کے فتنے اور داغ دیکھ سکوں ۔
میں دوسروں کو برا کہنے کی بجائے اپنے آپ کو گنہگار کہہ سکوں ۔میری روح مجھے ملامت کرے کہ میں اپنا قبلہ درست کروں ۔دوسروں میں امن کی تلاش کرنے کی بجائے اپنے اندرامن کا چراغ تلاش کروں تاکہ میرے ہاتھ وہ موتی لگ جائے جو مجھے دولت مند بنا دے ۔وہ میرے گناہ کا سبب قرض اتار دے گا ۔وہ میرے ہاتھ پہ امن محبت اور خوشحالی کی ریکھ بنا دے گا ۔میں جسے بھی اپنا ہاتھ دکھاوں میرے ہاتھ کی لکیریں میری قسمت کا حال بتائیں گی ۔میں اپنی ساری تلخیاں بھول جاؤں گا ۔میرے اندر خوشی   ہوگی ۔جو مجھے باہمت اور طاقتور بنا دے گی ۔میرے دل سے قباحتیں اور کدورتیں دور ہو جائیں گی۔ میرے چہرے سے نور ٹپکے گا ۔میری زندگی دوسروں کے لئے گواہی بنے گی ۔میرے اندر سے تاریکی کے بادل چھٹ جائیں گے ۔میری زندگی بہتوں کے لئے مشعل راہ ہوگی۔میں صداقت کو دوست اور وفا کو عزیز رکھو ں گا ۔میرے اندر سے محبت کی کونپلیں پھوٹ کر دوسروں کو خوشبو کا احساس دیں گے۔لوگ میری قربت و رفاقت کے خواہش مند ہوں گے ۔کیوں کہ میرے اندر ایک ایسا چراغ جل رہا ہے جس کی روشنی دور دور تک پھیلی ہوئی ہے۔میری روح امن کی فاختہ بن اُڑے گی ۔میرے کردار کا چرچا ما فوق الفطرت قوت سے معمور ہو کر اپنی شناخت قائم کرے گا ۔لوگ مجھ سے امن کا راز پوچھیں گے ۔وہ اپنی نادانیوں پر قابو پانے کے لیے اور بشری کمزوریاں دور کرنے کے لیے میرے دیدار کے خواہشمند ہوں گے ۔کیوں کہ میں نے اس راستے کو چنا ہے جو خدا اور انسان کی نظر میں مقبول ہے ۔اس کا بخرہ اس دنیا میں بھی ہے اور آخرت کی بنیادوں میں بھی ۔کیونکہ میں نے اپنی زندگی میں ایک ایسی بنیاد کھودی ہے ۔ جو دیرپا اور قیام امن کی ترجمان ہے ۔کاش! میری زندگی سے ایسے چشمے جاری ہوں جہاں بہتوں کی پیاس بجھے ۔کیونکہ میں نے اپنے اندر سے ایک ایسا موتی تلاش کیا ہے جس نے مجھے دنیا اور آخرت کو سنوار دیا ہے ۔ان باتوں کے بعد میں نے یہ کیسی آواز سنی جس نے مجھے چوکنا کر دیا۔اس کے الفاظ میری قوت سماعت سے یوں ٹکرا گئے جیسے ایک بم کی آواز ہوتی ہے ۔اس میں بجلی جیسا شور اور گرج تھی ۔اس آواز نے مجھے دعوت فکر دی اور مجھے بیدار کر کے کہا ۔
اے بنی آدم!
تو اپنے اندر جھانک اور اپنی ان تمام بشری کمزوریوں پر غور و خوض کر جن کے سبب سے تُو ذلیل  و رسوا ہوتا ہے ۔
تو اپنے دل سے ان تمام ناچاقیوں اور ناپاکیوں کو دور کر دے جنہوں نے تیرا فطری حق چھینا ہے۔کیونکہ تو شبیہ خدا ہے ۔اگر تو اپنی سوچ اور فطرت کو قدرت کے آئینے میں دیکھے گا تجھے اپنے سارے داغ دھبے اور جھریاں نظر آ جائیں گی ۔تیرا دل تجھے گواہی دے گا ۔تو ایک ایسے راستے پر گامزن ہو جائے گا جس کی منزل شادمانی ہے ۔تیرے اندر کامیابی کے دیپ جلیں گے ۔تیرے ہونٹ علم کی روشنی پھیلائیں گے ۔تیری آنکھوں میں امن ہوگا ۔تیرے کانوں میں امن کی سرگوشیاں ہوں گی۔ تیری زبان محبت کی جگالی کرے گی ۔تیرے ہاتھ امن کا معاہدہ کریں گے۔ تیرے پاؤں صلح کی خوشخبری کے لیے اٹھیں گے۔
اٹھ آج اس روشنی سے منور ہو جا جسے ہر کوئی تلاش کرتا ہے ۔آ، اس روشنی کے چراغ کو تھام لے جسے دنیا حاصل نہیں کر سکتی ۔کیونکہ وہ دنیا کے ہیں اور دنیا کی ہی سوچتے ہیں ۔مادہ پرستی کی بھوک و پیاس نے انہیں اندھا   بنا دیا ہے ۔ لیکن تیرے خدا نے تجھے وہ خوبصورت دل دیا ہے جہاں امن و محبت کی فضا آباد ہوتی ہے ۔تو دوسروں پر تنقید کرنے کی بجائے اپنی ذات کی اصلاح کر لے اور اس عمل کو اپنی ہی ذات سے فروغ دے تاکہ لوگ تیرے کردار کو دیکھ کر اس قافلے میں شامل ہو سکیں ۔تاکہ دنیا کے گوشے گوشے میں امن کی روشنی پھیل سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تو دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کی بجائے اپنی پوشاک کو صاف کر لے تیرے لیے یہی بہتر انتخاب ہے ۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply