کرشن چندر کے ناول ’’ دوسری برف باری سے پہلے‘‘ کا تجزیہ :(1)- یحییٰ تاثیر

کرشن چندر کا ناول ’’دوسری برف باری سے پہلے‘‘ ایک شاہکار ہے۔ یہ ناول پہلی مرتبہ ۱۹۶۷ء میں بمبئی سے ماہنامہ ’’شاعر‘‘ میں ’’تازہ و غیرمطبوعہ‘‘ کی سرخی کے ساتھ شائع ہوا ۔ پھر پاکستان میں پہلی مرتبہ بُک کارنر،جہلم نے اپریل ۱۹۹۵ء میں یہ ناول شائع کیا۔ اس ناول کی کہانی، کردار، اسلوب سب اپنی جگہ دل کش اور پر تجسس ہیں۔ گویا کرشن چندر نے فطرت کی آغوش میں بیٹھ کر یہ ناول تخلیق کیا ہے۔ جس طرح ناول پوری زندگی کا منظرنامہ ہوتا ہے اسی طرح یہ ناول بھی زندگی کے ارتقائی سفر کے مانند ہے جس میں احساسات سے لے کر جذبات تک، حادثات سے کر خطرات تک، حسن سے لے کر بھیانک صورتوں تک، عقیدت سے لے کر انتقام تک، محبت سے لے کر نفرت تک، فطرت سے لے کر مصنوعیت تک، روحانیت سے لے کر مادیت تک، قربتوں سے لے کر دوریوں تک، چین و سکون سے لے کر بے چینی و اضطراب تک،گھبراہٹ سے لے کر سکون تک، داخلی کرب و تنہائی سے لے کر خارجی محرومی تک، اُنس سے لے کر جنس تک، روح سے لے کر جسم تک اور گاؤں سے لے کر شہر تک کا سفر ملتا ہے۔ یہ سفر مختلف اوقات میں مختلف احساسات سے بندے کو روشناس کراتا ہے۔
اس ناول کا پلاٹ دو دھاروں میں بہتا ہے۔ ایک طرف’’ درشنا‘‘ جیسی ناخواندہ عورت اپنی خواہشات کے ہاتھوں شکست کھا کر اپنی عصمت کا سودا کرکے اپنے شوہر کی محبت کو بیچ ڈالتی ہے۔ اس کے شوہر “ٹھاکر سنگھ” کی زندگی دوریوں اور محرومیوں کا شکار ہوجاتی ہے۔اس کو یوں دھوکا دیا جاتا ہے کہ ایک راجہ “بیریندر سنگھ” کے قتل کا کام اس کے سپرد کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ اس نے راجہ نرسنگھ راج کی منظور نظر” بدر بائی” کو ہتھیالیا ہے۔ اس کام میں چوں کہ پیسے بھی ہوتے ہیں اور راجاؤں کے کام کرنا اس کے خاندان والوں کی روایت ہے، اس سے پہلے ٹھاکر سنگھ کا باپ گجراج سنگھ بھی راجاؤں کے ہاں کام کرتا تھا،یعنی شکار کرنا اور اس طرح کے دوسرے ذاتی کام۔ اس لیے نرسنگھ راج یہ ذمہ داری ٹھاکر سنگھ کو سونپتا ہے۔ لیکن اس کام کو قبول کرنے کی کئی وجوہات ہوتے ہیں۔ ایک تو ٹھاکر سنگھ ذاتی طور پر بیریندر سنگھ سے انتقام لینا چاہتا ہے کیوں کہ ایک روز جنگل میں شکار کے دوران ٹھاکر سنگھ نے بیریندر سنگھ سے پہلے شیر پر گولی چلائی تھی اور اسے ٹھکانے لگایا تھا۔ بیریندر سنگھ نے اس پر ٹھاکر سنگھ کو چابک سے خوب مارا تھا کہ تم نے میرے شکار پر گولی چلائی۔ دوسری وجہ “ٹھاکر سنگھ” کی بیوی ہوتی ہے وہ دیہاتی زندگی کو پسند نہیں کرتی،شہروں اور محلات کو پسند کرتی ہے۔ اس لیے ٹھاکر سنگھ زیادہ پیسے حاصل کرنے اور اپنی بیوی کی خواہشات کی تکمیل کےلیے ایسا کرتا ہے۔ اور تیسری وجہ اپنے باپ کی جگہ کو سنبھالنا بھی ہے۔ وہ مجبور ہے۔ پشتوں سے یہ ان لوگوں کا کام ہے۔ لیکن جب وہ قتل کے واسطے محل پہنچتا ہے تو راجہ بیریندر سنگھ کو پہلے سے ہی مردہ حالت میں پاتا ہے ۔ اس قتل کا الزام ٹھاکر پر تھوپ دیا جاتا ہے۔ جب کسی طرح ٹھاکر سنگھ اپنی جان بچا کر گھر پہنچتا ہے تو اسی پتہ لگ جاتا ہے کہ اس کی بیوی درشنا راجہ نرسنگھ راج کے ساتھ ہنسی خوشی محل گئی ہے، اور یہ ایک چال تھی کہ درشنا کو محل لے جایا جائے۔ اسے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ قتل بھی نرسنگھ راج کے لوگوں نے کیا ہے۔ اس کا خون ٹھاٹھیں مارتا ہے لیکن ٹھاکر سنگھ چوں کہ قتل کےلیے مطلوب ہوتا ہے اس لیے وہ اپنی جان بچانے کے وا سطے دور دراز پہاڑوں اور جنگلوں میں جاتا ہے۔ اور وہاں زندگی شروع کرتا ہے۔
دوسری طرف عظیمہ جیسی تعلیم یافتہ عورت ہے جس کا شوہر “گورگانی‘‘ بھی اعلا تعلیم یافتہ اور بڑے عہدے پر فائز ہے۔ لیکن عظیمہ مزید لالچ و حرص کا شکار ہے۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ میرا شوہر ہندوستان کا سب سے پہلا کمشنر بن جائے۔ اس مقصد کے واسطے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتی ہے اس لیے اپنے شوہر کی عزت کو اپنی حریص خواہشات کے نیچے کچل کر ایک انگریز “سرجان” کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کرلیتی ہے۔ دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کر وفادار شوہر “گورگانی” یہ صدمہ برداشت نہیں کرتا اس لیے دونوں کو بندوق سے داغ دیتا ہے۔ انگریز سرکار گورگانی کے قتل پر ہزار روپے انعام رکھ دیتے ہیں۔ گورگانی دور دراز پہاڑوں کا رخ کرکے شہر کی منافقتوں سے دور اپنی زندگی گزارنے کا ارادہ کرتا ہے۔
ٹھاکر سنگھ اور گورگانی دور دراز پہاڑوں میں ایک دوسرے کے ساتھ اتفاقاً ملتے ہیں اور اپنی اپنی کہانی ایک دوسرے کو سناتے ہیں کہ وہ کس طرح عورت کے مکروہ عزائم اور ان کی خواہشات کی وجہ سے اس حد تک پہنچ گئے۔ ناول کے اندر کرشن چندر لکھتے ہیں :
’’اولوالعزم عورتیں جو زندگی میں آگے بڑھنا چاہتی ہیں اپنی جنس سے وہی کام لیتی ہے، جو مرد اپنی عقل سے لیتے ہیں۔ عورت اپنی جنس سے ایک ہتھیار کا کام لیتی ہے کیوں کہ مرد نے باقی سارے ہتھیار اس سے چھین لیے ہیں، جو کام اَن پڑھ درشنا نے کیا، وہی کام پڑھی لکھی عظیمہ نے کیا۔‘‘(۱)
گورگانی تیرہ(۱۳) سال سے جنگلوں میں رہ رہا ہے، لیکن تعلیم یافتہ ہونے کے باعث جدید عہد سے منسلک ہوتا ہے۔ وہ مہینے میں ایک بار پہاڑ سے نیچے گاؤں میں اترتا ہے اور ایک مخصوص بَنیے کے ہاں جنگلی جانوروں کے کھال فروخت کرکے اس کے بدلے اشیاء خورد و نوش ، اخبارات اور کتابیں وغیرہ گھر لے آتا ہے۔
ایک دفعہ گورگانی اور ٹھاکر نیچے گاؤں کی طرف آجاتے ہیں تو راستے میں ایک خون خوار شیر سے بھی اس کی ٹکّر ہوجاتی ہے۔ شیر وہاں موجود کسی عورت کو بھی عین موقع پر اٹھا لیتا ہے۔ گورگانی اور ٹھاکر شیر کے پیچھے لگ جاتے ہیں ٹھاکر سنکھ شیر کو گولی سے داغ دیتا ہے،لیکن عورت کو نہیں بچا پاتے۔ ان دونوں کو وہاں ایک بچی مل جاتی ہے جو اصل میں اس عورت کی بیٹی ہوتی ہے جس کو شیر ہڑپ لیتا ہے۔ اس لڑکی کا نام “دیپالی” ہوتا ہے۔ جب یہ لوگ مع دیپالی گاؤں پہنچ جاتے ہیں تو گاؤں خالی ہوتا ہے۔پتہ کرنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ گاؤں اس خون خوار شیر کی وجہ سے خالی کیا گیا تھا۔ دیپالی اور اس کی ماں کو گاؤں والے محض اس لیے ساتھ نہیں لے گئے کیوں کہ وہ انھیں نیچ ذات سمجھتے تھے۔گورگانی بچی کو اپنے ساتھ گھر لے آتا ہے اور اس کی پرورش ایک جنگلی تازہ دم پودے کی طرح کرتا ہے۔ دیپالی جنگل سے اتنی مانوس ہوجاتی ہے کہ اس کو جنگل اپنا اصل گھر لگنے لگتا ہے۔ ناول میں جنگل ، پہاڑی زندگی اور دیپالی ایک دوسرے کا تکملہ ہیں۔ گرشن چندر نے فطرت کی رنگینیاں دیپالی کے جسم و روح میں مجتمع کر لی ہیں۔ گویا فطرت، دیپالی ہے اور دیپالی فطرت۔ یوں ان لوگوں کی زندگی گزرتی جاتی ہے اور دیپالی ایک نازک پودے کی طرح بڑھتی جاتی ہے۔ گورگانی اس سے اپنی بیٹی جیسی محبت کرتا ہے لیکن ٹھاکر سنکھ اور دیپالی ایک دوسرے سے جھگڑتے رہتے ہیں۔ٹھاکر سنگھ دیپالی سے اس لیے نفرت کرتا ہے کیوں وہ گورگانی اور ٹھاکر سنگھ کے بیچ آگئی ہے اور ٹھاکر سنگھ کی نظر میں اس کے آنے اس کی اہمیت کم ہوگئی ہے۔نفرت کی دوسری اور اہم وجہ یہ ہے کہ ٹھاکر سنگھ عورت ذات سے نفرت کرتا ہے کیوں کہ اسے ایک عورت درشنا نے دھوکا دیا تھا۔
ایک روز یہ لوگ دیر رات کو سوئے ہوئے ہوتے ہیں کہ ایک بندوق کی آواز ان کے کانوں تک پہنچ جاتی ہے۔ صبح ہوتے ہی ان کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے، گورگانی دروازہ کھولتے ہی اپنے سامنے “سرجان مارکھم” (جس کو گورگانی نے اپنی بیوی کے ساتھ پکڑا تھا اور گولی ماری تھی) کے بھائی “وکی مارکھم ” کو پاتا ہے۔ “وکی مارکھم” تھکا ماندہ گرجاتا ہے۔ گورگانی اسے مار بھی سکتا ہے لیکن وہ اس لیے اسے نہیں مارتا کیوں کہ وہ سرجان اور عظیمہ کے قتل پر بھی بعد میں پشیمان ہوتا ہے۔ وہ مزید گناہ نہیں کرنا چاہتا۔ گورگانی اس کی خاطر مدارت کرتا ہے اور اس کی جان بچاتا ہے۔ جب وہ صحت یاب ہوجاتا ہے تو گورگانی سے کہتا ہے کہ ہم اپنا انتقام کبھی نہیں چھوڑتے۔میں نے تمھیں ڈھونڈنے کےلیے کافی جتن اٹھائے ہیں۔تمھاری تلاش میں، کافی ممالک میں گھوما ہوں۔ گورگانی اس کے سامنے شرط رکھتا ہے کیوں کہ گورگانی نے اس کی جان بچائی ہے۔ وہ اسے کہتا ہے کہ نیچے گُپ اندھیری جنگل میں، مَیں شیر اور تم شکاری بن کر تم اپنا انتقام لے سکتے ہو۔ وکی مارکھم شرط قبول کرتا ہے اور دو دونوں شکار کے بہانے(تاکہ دیپالی اور ٹھاکر کو پتہ نے چلے) جنگل کی طرف چلے جاتے ہیں۔ ٹھاکر سنگھ کو گورگانی ویسی ہی مصروف کروانے کے واسطے وکی مارکھم کےلیے جنگل کی دوسری جانب سے بھیڑیےکا بچہ لانے کو کہتا ہے۔ وہ وہاں چلا جاتا ہے۔ دیپالی کو شک ہوتا ہے اس لیے وہ کچھ دیر بعد گورگانی اور وکی مارکھم کے پیچھے جنگل کی طرف جاتی ہے۔خونی کھیل کے دوران گورگانی کا ہاتھ گولی لگنے سے زخمی ہوجاتا ہے۔ لیکن وہ عین موقعے پر وکی پر جھپٹ پڑتا ہے۔ دونوں کے درمیاں ہاتھاپائی جاری ہوتی ہے کہ دیپالی اس منظر کو دیکھ لیتی ہے وہ بہت چلاتی رہتی ہے لیکن گورگانی اور وکی پر آتش فشاں پہاڑ کا ایک تودہ گرجاتا ہے اور وہ ایک تاریک، گہرے گّڈے میں گرجاتے ہیں۔دیپالی بہت مشکلوں سے گھر پہنچ جاتی ہے۔ ٹھاکر سنگھ حیران و پریشان، بھیڑیے کا بچہ ساتھ لیے منتظر ہوتا ہے۔ دیپالی، ٹھاکر سنگھ کو سارا ماجرا سناتی ہے۔ ٹھاکر کو دھچکا لگ جاتا ہے۔اسے یقین نہیں آتا کہ گورگانی دنیا سے چلا گیا ہے۔اب اس گھر میں ٹھاکر سنکھ، بھیڑیے کا بچہ اور دیپالی رہتے ہیں۔دیپالی کی طرح بھیڑ کا بچہ بھی بڑھتا جاتا ہے اور وہ دیپالی سے انتہائی مانوس ہوجاتا ہے۔یہ مونث بچہ ہوتا ہے اس لیے دیپالی اس کا نام ’’لالی‘‘ رکھ دیتی ہے۔

اس کے بعد کرشن چندر نے دیپالی کا سراپا، فطرت کی رنگین آغوش میں جس رومانوی اسلوب میں بیان کیا ہے وہ ایک صاحبِ اسلوب فن کار کی مرصع سازی کا بہترین نمونہ ہے۔ ایک روز دیپالی پانی میں نہاتی ہے کہ ٹھاکر سنکھ اس کو دیکھ لیتا ہے۔ ٹھاکر سنگھ جب دیپالی کے جسم کے پیچ و خم اور مسحور کن اتار چڑھاؤ کو دیکھتا ہے تو دنگ رہ جاتا ہے کہ یہ وہ دیپالی نہیں ہوسکتی جس کو وہ “بھتنی” کہتا تھا اور جس سے نفرت کرتا تھا۔کرشن چندر نے دیپالی کا نقشہ کچھ یوں کھینچا ہے :
’’ یہ سڈول پنڈلیاں، ساق سیمیں کی خطرناک مثلث جس پر نگاہ نہیں ٹھہرتی تھی، پتلی کمر کے نیچے سیمیں ناف اور پیٹ کا جوف اور ان سے اوپر ابھرا ہوا سینہ، اس کی سانسیں رکھنے لگی، گنے کالے بال اور کھلے ہوئے اور پانی میں جال کی طرح تیرتے ہوئے۔ وہ سڈول سنہری بانہیں کبھی پانی میں اٹھکھیلیاں کرتی ہوئیں، کھبی لالی کی طرف پانی کے چھینٹے اڑاتی ہوئیں۔ یکایک دیپالی مگن ہوکر آہستہ سے ہنسی اور اس کے دانتوں کے موتیوں کی لڑیاں دھوپ میں چمک گئیں۔۔۔۔۔ سر سے پاؤں تک پانی میں بھیگا ہوا بدن دھوپ میں دمک سے لو دے رہا تھا جیسے اس سلگتے ہوئے بدن میں الگ سے کوئی روشنی ہو، جو دھوپ سے الگ ہے، شفق سے الگ ہے، سحر سے الگ ہے، ماہتاب اور نجوم کی ضیاء سے الگ ہے۔ دیپالی نے بالوں کی لٹوں کو جوڑ کر دونوں ہاتھوں سے پانی نچوڑا اور پھر گردن جھٹک کے بال پھیلا دئیے اور اس ایک گردن جھٹکنے کے انداز میں ٹھاکر سنکھ کو اس کے خم نظر آگئے، گول گول گدرائے ہوئے کولہے اور ان کے اوپر تنگ کمر کی محراب اور محراب کے بیچ میں کولہوں سے اوپر شانوں تک ایک اڑی لکیر پوری پشت کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئی۔.پھر بالوں کا جال کمر سے نیچے تک پھیل گیا جیسے چاند کالی بدلیوں میں آگیا ہو۔‘‘ (۲)
فطرت اور نسوانی حسن کے یہ امتزاجی تصویر، ٹھاکر سنکھ کو انسانی جبلت یاد دلاتی ہے۔ کرشن چندر نے اس ناول میں محض ظاہری چیزوں کو پیش نہیں کیا بل کہ انھوں نے یہاں فطرت اور انسان کے باطنی محرکات کے مرقعے کھینچے ہیں۔
ٹھاکر سنکھ ایک دو مرتبہ دیپالی کے قریب ہونے کی بھی کوشش کرتا ہے لیکن اپنے جذبات کو انتہائی مشقت سے قابو کرلیتا ہے۔ اتنا تک دیپالی کو کہتا ہے کہ سوتے وقت اپنے کمرے کا دروازہ بند کرلیا کرے۔ لیکن دیپالی قصداً عمداً دروازہ بند نہیں کرتی کیوں کہ وہ بھی جوانی چڑھتے شباب کے مرحلے سے گزر رہی ہے، وہ بھی اپنے جذبات کا انخلا چاہتی ہے۔ یہاں کرشن چندر نے فطرت کے جبلی جذبے کو لالی (بھیڑیا) کے جنسی جذبات کے توسط سے پیش کیا ہے۔ لالی جس نے ساری زندگی انسانوں (ٹھاکر سنکھ، دیپالی) کے بیچ گزاری اور انسانی تہذیب کو قریب سے دیکھا وہ بھی اپنی جبلت سے خود کو چھڑا نہیں سکتی۔ لالی جب ایک بھیڑیے کو زندگی میں پہلی بار قریب سے دیکھتی ہے تو ٹھاکر اور نہ دیپالی کو خاطر میں لاتی ہے بل کہ فوراً بھیڑیے کی طرف بھاگنا شروع کرتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کو قریب سے چھونے لگ جاتے ہیں۔ دیپالی چلا چلا کر اسے کافی کوششوں سے واپس بلاتی ہے مگر ایک رات وہ بھیڑیا دوبارہ آجاتا ہے اور لالی کے جذبات برانگیختہ ہوکر گھر کو سر پر اٹھا لیتی ہے۔دیپالی کے منع کرنے کے باوجود (فطرت کو آخر کون روک سکتا ہے؟) ٹھاکر سنکھ لالی کےلیے دروازہ کھولتا ہے اور وہ اپنے اصل مسکن لوٹ جاتی ہے۔ اِدھر انسانی فطرت بھی خود کوقابو کرنے کےلیے بے چین ہوتی ہے اور دیپالی بالآخر ٹھاکر سنکھ کے آغوش میں پناہ لے کر گویا فطرت سے بغل گیر ہوجاتی ہے۔

یہ ناول رومانوی و جمالیاتی شعور ،عمرانی اور سماجی تناظرات ، نفسیاتی گرہ کشائی، انسان دوستی اور فطرت پسندی کے حوالے سے کافی زرخیز ہے۔ مصنف نے کافی عرق ریزی کے ساتھ ان تمام عوامل کو ناول کا حصہ بنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں حقیقت پسندی اور سچائی کا پرتو دکھائی دیتا ہے۔ کرشن چندر کا خاص رنگ یعنی حقیقت پسندی اور رومانویت کا امتزاج اس ناول کا خاص حوالہ ہے۔ تمام کردار اور واقعات حقیقی زندگی سے ہم آہنگ ہیں۔
شہر اور گاؤں کا موازنہ کرتے ہوئے مصنف مختلف حقائق سامنے لاتے ہیں۔ ان کے خیال میں گاؤں سکون، سچائی،پاکیزگی، خلوص، انسان دوستی، مہمان نوازی اور اجتماعیت کی علامت ہے جب کہ شہر خود غرضی، مفاد پرستی، ظاہر داری، اور انفرادیت کی علامت ہے۔. جب ٹھاکر اپنی جان بچانے کے واسطے دور دراز پہاڑوں کا رخ کرتا ہے تو وہاں ایک مندر میں اس کی ملاقات “موہنا” نامی لڑکی سے ہوجاتی ہے۔موہنا اور اس کا والد برفیلی سردیوں میں حکومت کی طرف سے وہاں تعینات ہوتے ہیں۔سخت سردیوں میں ان بلند و بالا پہاڑوں کا رخ کوئی نہیں کرتا لیکن موہنا اور اس کا باپ اپنا مذہبی فریضہ ادا کرنے اور کسی کی مدد کرنے کے واسطے یہاںشدید سردی میں رہتے ہیں۔ موہنا اس کی ہر طرح سے خدمت کرتی ہے، اس کو کھانا کھلاتی ہے۔حتیٰ کہ اس کے پاؤں میں چُبھے ہوئے کانٹے بھی نکال لیتی ہے۔ ٹھاکر سنکھ موہنا کے متعلق کچھ یوں سوچتا ہے:
’’موہنا کتنی معصوم اور بھولی بھالی تھی اور درشنا سے کتنی مختلف تھی۔کتنی پاکیزہ نگاہیں تھیں اس لڑکی کی، کوئی چھل، فریب، کپٹ، دھوکا دھڑی کی بات ان نگاہوں میں نہیں تھی۔ اس کا(ٹھاکر سنکھ) جی ایسے لوگوں میں رہنے کو چاہتا ہے۔ پتہ نہیں کیا بات ہے کیوں شہروں میں ایسے لوگ نہیں ملتے ہیں۔ کچھ عجیب سے چہرے ہوگئے ہیں شہروں میں، سب کچھ ہوتے ہوئے بھی لوگ کچھ بھوکے بھوکے نظر آتے ہیں۔ آنکھیں پیاسی، ہونٹ لالچی اور زبان جیسے جھوٹ پر جھوٹ کی تہیں جماتی جاتی ہے۔‘‘(۳) صفحہ

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply