• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ظلمت سے نور کا سفر(قسط10)۔۔۔محمد جمیل آصف ،سیدہ فاطمہ کی مشترکہ کاوش

ظلمت سے نور کا سفر(قسط10)۔۔۔محمد جمیل آصف ،سیدہ فاطمہ کی مشترکہ کاوش

کب تک رہوں میں خوف زدہ اپنے آپ سے
اک دن نکل نہ جاؤں ذرا اپنے آپ سے
جس کی مجھے تلاش تھی وہ تو مجھی میں تھا
کیوں آج تک میں دور رہا اپنے آپ سے

کچھ روگ ایسے ہوتے ہیں ۔جن کا اظہار کرنے سے بہتر ہے انہیں چپکے چپکے اندر ہی پال لیں ۔ ضحی نے اِ ن دنوں میں یہ اچھی طرح سے جان لیا ۔ اسکی گرتی صحت پر بے رحم رویے، تمسخر اڑاتی مسکراہٹیں اور لوگوں کے چبھتے سوالات، اس کی ذہنی و جسمانی حالت کو مزید حساس بناتے چلے گئے اور اس نے اپنے احساسات کی دنیا کو عام معاشرے کے لیے بند کرنا شروع کردیا ۔
حساس انسان اپنی دنیا کے دروازے کچھ ہی لوگوں پر کھولتا ہے۔ جہاں اُسے ظلمت کدے میں زرا سا روشن روزن لگتا ہے۔ جہا‌ں اُسے ہلکی سی اُمید لگتی ہے کہ “میں سمجھا جاؤں گا ۔میرے احساسات بتانے سے بے مول نہیں ہوں گے۔میرا استہزاء نہیں اڑایا جاۓگا بلکہ مجھے شاید خود سے فرار کا موقع مل جاۓ ۔” موت کے فوبیا میں مبتلا انسان ہر پل اپنی ہی موت کی خوفزدہ سوچوں کی پہرہ داری سے تنگ آکر فرار چاہتا ہے۔
آج وہ دن تھا ضحی کے لیے جب اُس نے بھاگ کر دروازہ کھولا اور ساتھ ہی اپنی زندگی میں امید کی کرن کو آتے دیکھا ۔
اتنی بے تابی کے ضحی کو پھرتی سے دروازے کی  طرف بڑھتے دیکھ کر ۔
اماں چیخ کر بولیں
” اب دیکھو!
کیسے ٹانگوں میں بجلی بھر گئی ہے ہمارے آگے تو پاؤں میں جان نہیں رہتی ۔ مریل گھوڑے کی طرح گردن گرائے پڑی ایسے لگتی ہے جیسے زندگی کے دن پورے کر رہی ہو ۔اب دیکھو بجاۓ گھر کے رزق کی فکر کرے میرے سر پر مہمان بیٹھا رہی ہے”

Advertisements
julia rana solicitors

ضحی نے پہلی بار افسردہ ہوۓ بنا، دروازہ کھولا اور ایک بے ساختہ مسکراہٹ اس کے لبوں پر دوڑ گئی ۔ اسے ایسے لگا جیسے لق دق صحرا میں بھٹکے ہوئے کارواں کو نخلستان کے آثار محسوس ہونے پر ان کی مردہ ہوتی روحوں میں زندگی بجلی کی طرح دوڑنے لگتی ہیں ۔
بے صبری سے مخاطب ہوئی اور سلام دعا کا خیال بھی نہ  رہا اور کہا
“آمنہ آؤ، میں بہت یاد کر رہی تھی ۔”
آمنہ نے اسکی ظاہری حالت دیکھی ۔ تنہائی اور انزائٹی نے کیسے اس کی شادابی کو نچوڑ دیا اور اس کی دل لگی کے لیے بولی
“اس لیے تو میں آگئی اور اب کی بار فون نمبر بھی دیتی جاؤں گی ۔”
آمنہ نے چادر اتارتے ہوۓ کچن میں برتن پٹخے جانے کی آواز کو بھی سنا۔ چونکہ وہ بھی ڈیتھ فوبیاز، ایگزئیٹی اور ڈیپرشن کی مریض رہ چکی تھی اِسی گھٹن اذیت بھری راستے کی مسافرت کا پھل چکھا تھا اور اب ضحی کے گھر والوں کو سمجھانا چاہتی تھی ۔فوبیا کے آتشگی میں تیل گھر کا برا ماحول ڈالتا ہے وہ ابھی نامحسوس انداز میں اس چیز کو نوٹ کررہی تھی ۔ آمنہ کے الفاظ نے گویا ضحی کو ایک اپنائیت کا احساس دلوایا ۔اور وہ تشکر سے بولی
“بہت شکریہ!
آمنہ میں تنہا ہوتی جا رہی ہو، میری کیفیت ایسی بن رہی ہے جیسے ایک مکھی بے بسی سے کسی مکڑی کے جال میں پھنس رہی ہے، کیا کرو، پہلے لوگوں سے ڈر لگتا تھا َاب آئینہ دیکھو تو خود سے بھی خوف آتا ہے •”
آمنہ نے اس کے کمرے پر گہری نظر ڈالتے ہوۓ بے ترتیبی دیکھی اور اضطراب ضحی کے ہاتھوں میں واضح تھا جسے وہ مرڑور رہی تھی۔ آمنہ نے اس کے ہاتھ آہستگی سے پکڑ کر علیحدہ کیے اور مسکراتے ہوۓ بولی
” دیکھو اچھی لڑکی آئینہ وہی دیکھاتا ہے جو اُسے نظر آتا ہے ہمارے اندر خوف اور منفی سوچیں اس قدر بھر گئی ہیں کہ وہ ہمارے ظاہر سے ٹپکتی ہیں۔ ہم اپنے اندر سے منفی سوچوں کے خود رو پودے اکھاڑ کر مثبت سوچوں کے بیج بوئیں گے پھر آئینے میں صرف اعتماد، امید اور نور نظر آۓ گا”
ضحی نے اس کی بات سنی اور سمجھنے کی کوشش کی
” میری حالت اب ایسی ہے، کسی کے قدموں کی چاپ، دروازے پر دستک، موبائل فون کی گھنٹی اور کسی کی بلند آواز سے ایک دم چونک جاتی ہوں، دل مٹھی میں آ جاتا ہے، بلاوجہ کے اندیشے مجھے گھیر لیتے ہیں، بہت سی فضول سوچیں جو لوگ سن لیں تو میرا مذاق اڑائیں، زہن میں گھومنے لگتی ہیں، میں بے بس ہو رہی ہوں، اور میرے گھر والوں کا رویہ اوپر سے مجھے کھا رہا ہے”۔
آمنہ نے اس کے احساسات کو سنا اور اپنے ماضی کو یاد کیا ۔ایک سرد آہ دل سے نکلی ہر فوبیک پرسن اتنا کمزور کیسے ہو جاتا ہے ۔ بظاہر تندرست لیکن مکڑی کے جالے کی طرح کمزور ۔
” ضحی میری پیاری دوست اندیشوں کی زنجیر کو اب توڑنا ہوگا اور یہ تم ہی کر سکتی ہو ۔میں ان سب مراحل سے گزر چکی ہوں ضحی میری جان اب تمہیں خود کو اہم سمجھنا ہوگا اور خود کی ذات پر توجہ دینی ہوگی۔ گھر کا ماحول برا اثر ڈالتا ہے۔ میں مانتی ہوں ساری ہمت اپنے پیاروں کی کج روی دیکھ کر صفر ہوجاتی ہے ، پر جب ہم خود کو ہر چیز سے بڑھ کر اہمیت دیتے ہیں تو گھر والوں کے رویوں کے اثرات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ خود کو اُس بلند مقام تک لا سکتے ہیں جہاں خوف کی زنگ آلود زنجیروں سے آزاد ہو کر، رویوں کے اثرات سے بالاتر اپنے خوابوں کو اہمیت دے سکیں”۔
ضحی کچن سے چاۓ کی ٹرے لائی اور الجھن بھرے انداز میں کانپتے ہاتھوں سے میز پر رکھی۔ ذہن میں یہی آندھی چل رہی تھی کہ خود کو اہمیت کیسے دوں۔ خود کی سوچوں سے ہی تو خوف زدہ ہوں پر زبان سے یہ کہا۔۔
” کیسے خواب، سب ختم لگتا ہے، وقت کے ساتھ اب قوت فیصلہ بھی ختم ہوتی جا رہی ہے، اب تو اٹھنا بھی مشکل لگتا ہے، کھانا کیا کھانا، کب کھانا ہے، اس پر بہت بھی سوچتی ہوں۔” آمنہ نے اس کی بات کو غور سے سنا، کہنے لگی
“بالکل اس کیفیت میں یہی حال ہوتا ہے قوت فیصلہ اور خود اعتمادی مجروح ہو جاتی ہے ۔ ڈیپرشن انسان کی اعصابی طاقت کو کمزور کرتا ہے ۔ اور فوبیاز انسان کی خود اعتمادی کو صفر کر دیتے ہیں ۔ تم درست کہہ رہی ہو ضحی
منفی سوچوں کی خوراک ہی انہیں زیادہ سوچنا ہے ۔زیادہ سوچنا انسان کے اندر جنگ کا ماحول بنا دیتا ہے، میں تمہاری مدد کروں گی۔ ادویات کے بغیر ٹھیک ہوجاؤ گی ۔ اصل میں ڈاکٹرز کے پاس مریض پینک حالت میں جاتا ہے اور وہ فوراً اس کے اعصاب کو پرسکون کرنے کے لیے ادویات دیتے ہیں،
Jameel sent Today at 12:47
، پر افسوس کوئی بھی نہیں بتاتا کہ یہ ادویات انسان کے اندر بے چینی بھر دیتی ہیں۔ یاداشت کا دھاگہ چھوٹا کر کے اتنا کردیتی ہیں کہ یہ بھی نہیں یاد رہتا کہ ابھی دو گھنٹے پہلے کھایا کیا تھا۔ مسکن ادویات انسان کے اندر کنفیوژن پیدا کرتی ہیں کہ اس کے اندر سے فیصلہ کی قوت ختم ہو جاۓ۔ اس لیے ہم گھنٹوں سوچتے رہتے ہیں ۔ تمہیں یہ سب مسکن ادویات چھوڑنی ہوں گی تاکہ ان اثرات سے پاک ہوکر خود پر کام کر سکو ۔”
ضحی غیر یقینی کیفیت کے ساتھ اس کی بات کو سن رہی تھی ۔ ساتھ میں اسے اس بات پر حیرانگی بھی ہوئی ، کیا آج کے مادیت پرست دور میں جب ماہر نفسیات بھاری فیسوں کے عوض کونسلنگ سیشن کرتے ہیں، بلامعاوضہ آمنہ میری راہنمائی اور کونسلنگ کرے گی؟ ۔اسے یقین نہیں آ رہا تھا ۔
” ایسے کیسے ممکن ہے ۔”؟
جاری ہے ۔۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔