ایا صوفیہ میوزیم
نماز، ظہر کے بعد ایک ریسٹورنٹ میں دوپہر کا کھانا کھایا،تین بجے ایا صوفیہ عجائب گھر کے ٹکٹ گائیڈ نے خریدے،ٹکٹ گھر میں بہت زیادہ رش تھا،غیر ملکی سیاح جن میں زیادہ تر جاپانی،چینی اور دریائی علاقے کے باشندے محسوس ہوتے تھے،ہزاروں کی تعدادمیں قطار در قطار کھڑے تھے۔
سامان اور جسمانی تفتیش کے بعد لوگوں کواندر جانے کی جازت ممکن تھی۔ایک شاندار بلند و بالا چرچ کا tombتھا،حیرت ہوتی ہے کہ وہ دور جس میں کرین،اور سینکڑوں فٹ بلندی تک لے جانے والے جدید تعمیراتی سازو سامان نہیں تھے،یہ تعمیر کیسے ہوگئی۔
اس عمارت کا پہلا فیز بڑی اینٹ،بجری اور گارے کا تعمیر کردہ ہے۔
حیران کُن تعمیر ہے۔
دوسرا فیز،پہلے فیز کے پانچ سو سال بعد تعمیر کیا گیا۔جوانتہاکی خوبصورت رنگین پچکاری کا شاہکار ہے۔بہت بڑا ہال ہے،جو عبادت گاہ تھا،بڑے ہال کے ستونوں پر چار فرشتوں کی تصاویر تصوراتی طور پر بنائی گئی ہیں۔جن کے پُر بھی ہیں۔۔۔
سلطان فاتح کے دور میں تین فرشتوں کے چہرے مٹا دئیے گئے تھے،کہ اُن کا خیال میں نماز میں تصویروں کی وجہ سے خلل آتا تھا،البتہ ایک چہرہ یادگار کے طور پر چھوڑ دیا گیا۔
صدیوں اس حاکم اس چرچ کو جب سلاطین عثمانی کے دور میں مسجد میں تبدیل کردیا گیا،تو ترک روایات کے مطابق خلفائے راشدین کے علاوہ اللہ،محمد ﷺ،ابوبکر،عمر،عثمان رض،علی رض کے ساتھ حسن اور حسین رض کے نام آج بھی بدستور موجود ہیں جو مسجد کے منبر کے دونوں طرف لکھے گئے ہیں۔
ہال کے اوپر کی گیلری میں جانے کے لیے عام پتھر کی بڑ ی بڑی سیلیں جو کئی کئی من وزنی ہیں اس طرح رکھی گئی ہیں کہ یہ سیڑھیوں کے سٹیپ بن گئے ہیں۔بالکونی کا فرش کئی کئی من وزنی سنگ مر مر کے ٹکڑوں کے بنائے گئے ہیں،جو صدیوں گزرنے کے باوجود شکست و ریخت سے محفوظ ہیں۔لکڑی کے دروازے جو پندرہ سو سال پہلے بنائے گئے تھے،آج بھی موجود ہیں بڑے دروازے حکمرانوں کے چرچ میں داخل ہونے کے لیے تھے۔جبکہ چھوٹے دروازے عام لوگوں کے لیے بنائے گئے تھے۔
1923میں جب اتاترک نے اسے سیکولر سٹیٹ قرار دیااور ری پبلک کا اعلان کیا،تو اس مسجد کو مسجد یا گرجا گھر کی بجائے میوزیم قرار دے دیا تاکہ ہر مذہب کے لوگ اس اعلیٰ فنِ تعمیر کا نظارہ کرسکیں۔
اس چرچ کے مین گیٹ میں داخل ہوتے ہی بائیں طرف چھت تک بلندجبرائیل امین اور درمیاں میں حرت عیسیٰ علیہ السلام کی فرضی تصاویر تھیں،اس وقت کے بادشاہ کی تین بیویاں تھیں۔جن سے اولاد نرینہ اورتخت و تاج کا وارث نہیں تھا،وہ بادشاہ حضرت عیسیٰ کے قدموں میں جھک ک چوتھی بیوی کی اجازت مانگ رہا ہے۔مسلمانوں کے دور میں گرجا گھر کو مسجد میں تبدیل کیا گیا،تو محراب کے اوپر آج بھی قدیم دور کی حضرت آدم کی فرضی تصویر ہے۔جس میں حضرت عیسیٰ کو ماں کی گود میں دکھایا گیا ہے۔
روایت ہے کہ اس سے پہلے چرچ کو جس کی تعمیر کو ہزا ر سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔دنیا میں اس طرز پر چار مینار تعمیر کیے گئے ہیں،جن میں ایک گلاسگو(برطانیہ)سکاٹ لینڈ)میں ہے،رومیوں نے اس سے پہلے چر کی تعمیر کے لیے دس ہزار غلام وقف کیے۔ایاصوفیہ کے معنی رومی زبان میں پاک،نیک ہیں۔گویا کہ یہ چرچ پاک لوگوں کے لیے نیکی اور تبرک کے طور پر تعمیر کیا گیا،فن تعمیر کا یہ شاندار نمونہ ترکی کی تاریخ میں اہمیت کے علاوہ آج کے دور میں دنیا بھر کے سیاحوں کی آمد کی وجہ سے کروڑوں ڈالر کی آمدنی کا ذریعہ بھی ہیں۔

جاری ہیں
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں