یہ 70 کی دہائی نہیں ہے/ذوالفقار علی زلفی

پرویز مشرف نے پاکستانی صحافی حامد میر کو انٹرویو دیتے بلوچ کو مخاطب کرکے بڑی رعونت سے کہا تھا:
“یہ 70 کی دہائی نہیں ہے جو آپ آگے پیچھے کریں گے، ہم آپ کو ایسی جگہ سے ہٹ کریں گے کہ پتہ بھی نہیں چلے گا کیا چیز ہٹ ہوئی ہے”
بالاچ مری نے ردعمل دیا “یہ بلوچ کے لئے بھی 70 کی دہائی نہیں ہے ، اپنا شوق پورا کرلو۔”
“بہادر” مشرف نے “سب سے پہلے پاکستان” کا نعرہ لگا کر 80 سالہ سفید ریش بزرگ کو قتل کرکے ان کے تابوت کو تالا لگا کر دفنا دیا ،ـ وہ سوچ رہا ہوگا اس نے بلوچ مزاحمتی فکر و نظریے کو تالا بند کرکے دفنا دیا ہے ـ مگر بقول بالاچ مری “یہ بلوچ کے لئے بھی 70 کی دہائی نہیں ہے۔”

اربوں روپے خرچ کرکے بلوچ پر آتش و آہن برسائے گئے، ـ جبری گم شدگی، مسخ لاشیں، اجتماعی قبریں، ٹارگٹ کلنگ، ماورائے عدالت قتال کا بازار گرم کیا گیا ،ـ قسم قسم کے، رنگ برنگے ڈیتھ اسکواڈز بنائے گئے، ـ ہڈی چوس سرداروں اور موقع پرست ارب پتی مڈل کلاس نودولتیوں کو بلوچ کا نمائندہ بنا کر پیش کیا گیا، ـ پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے پاکستانی بالخصوص پنجابی محنت کش و مڈل کلاس کو یقین دلایا گیا “بلوچ نسل پرست، فاشسٹ، تنگ نظر، اجڈ، جاہل، گنوار اور بھارتی ایجنٹ ہے۔” ـ

ماہ رنگ بلوچ ؛ جدید عہد کی نمائندہ آواز ابھری ـ بلوچ نے ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کو کوڑے دان کا راستہ دکھا دیا ـ ماہ رنگ بلوچ نے پنجاب کے محنت کش اور مڈل کلاس کے سامنے بلوچ عوام کا مقدمہ پیش کیا ـ۔

پنجاب کے سستے مسخروں نے “پنجابی مزدور” کا سوال اٹھا کر ہوا کا رخ موڑنے کی گھٹیا کوشش کی ـ دانش ور کے لبادے میں چھپے لومڑی صفت انوار الحق کاکڑ نے خرگوش، کتے اور پنجابی کی مثال دے کر ہاتھ پاؤں مارے ـ۔

نواز شریف کوئٹہ اور زرداری تربت پہنچے ـ ڈیتھ اسکواڈز، ہڈی چوس سردار اور موقع پرست ارب پتی مڈل کلاس نودولتیوں کو “ووٹ کی عزت” اور “جمہوریت بہترین انتقام ہے” کی مہریں لگا کر انہیں دوبارہ بلوچ نمائندہ بنانے کی بھونڈی سازش رچائی  گئیں، ـ نواب زادہ جمال رئیسانی کو پنجابی لہجے میں اردو بولنے والے کانک کے عبدالشکور رئیسانی کے ساتھ آرام دہ دھرنا کیمپ میں بسایا گیا ـ
ماہ رنگ بلوچ اور ان کے شہید والد کے خلاف وہی گھسا پٹا راگ الاپا گیا جو برسوں پہلے بھٹو نے بلوچ رہنماؤں کے خلاف ترتیب دیا تھا ـ سمی بلوچ کی کردار کشی کرنے کی گری ہوئی حرکت بھی ریکارڈ پر آئی ـ۔

ماہ رنگ بلوچ مگر 70 کی دہائی نہیں آج کی لڑکی ہے ـ انہوں نے جرات اور بردباری کے ساتھ بلوچ عوام کا مقدمہ پنجاب کی عوامی عدالت میں پیش کردیا ـ ،پنجاب کے عوام نے بلیک پروپیگنڈے کی چادر چیر کر عوام کے ساتھ ایکا کر لیا ـ ،کوئی کمبل بانٹنے پہنچا، کسی نے پانی کی بوتلیں اٹھائیں، کوئی کھانا لایا، کسی نے سوشل میڈیا پر آواز اٹھائی ـ انوار الحق کاکڑ تلملائے، زرداری کے مڈل کلاس پنجابی جیالے آگ بگولہ ہوئے، نواز شریف کے جاں نثار سستے لطیفوں پر اتر آئے ـ ۔منظور پشتین کو منظر عام سے غائب کیا گیا ـ ،اب مگر چڑیا ں چگ گئیں  کھیت ـ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عوام کی یہ جُڑت اب مزید مضبوط ہوگی ـ پاکستان کے نام نہاد جمہوریت پسند، دانش کے پردے میں چھپے جاہل، اقتدار کی ہوس میں رال ٹپکاتے بھاشن باز مزید آشکار ہوں گے ـ
بلوچی میں کہتے ہیں “سر گوں سنگ ءَ مڑینگ نہ بیت” ـ یعنی سر اور پتھر کی لڑائی میں سر ہی پھوٹتا ہے ـ دماغ سے خالی اسٹبلشمنٹی سر کو عوامی پتھر سے لڑائی ہارنی ہی ہوگی اور وہ جلد یا بدیر یہ جنگ ہار ہی جائیں گے ـ۔۔
بقول فیض
ہم دیکھیں گے!

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply