جدید ٹیکنالوجی اور انتخابی اصلاحات۔۔عبدالرحمٰن خان

نامور امریکی تاریخ دان آرتھر شلیسنجر کا ماننا تھا کہ “سائنس اور ٹیکنالوجی ہماری زندگیوں میں انقلاب برپا کرتی ہے ، لیکن یادداشت ، روایت اور افسانہ ہمارے ردِعمل کو تشکیل دیتے ہیں”۔ آج کل پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ایک بار پھر سے انتخابی اصلاحات کا تذکرہ عروج پر ہے، مگر اب کی بار اس کا لبِ لباب آرتھر شلیسنجر سے ملتا جلتا ہے۔ دنیائے سیاست میں جتنی پرانی تاریخ انتخابات کی ہے اتنی ہی پرانی تاریخ شاید انتخابات میں بے ضابطگیوں کے الزامات کی بھی ہے۔ البتہ جمہوریت پسند اقوام نے ہر ممکن اصلاحات کے ذریعے انتخابات کو شفاف بنانے کی کوشش کی ہے۔ آج کی نیشن سٹیٹس کی دنیا میں ابتداء سے انتخابات کا روایتی طریقہ کار بیلٹ پیپرز کے ذریعے ووٹنگ کا چلا آ رہا ہے، مگر انتخابات کے حوالے سے حساس ممالک میں اس طریقہ کار کیساتھ جڑے کئی مسائل نے جنم لیا، جس نے اسکے ختم  ہونے کے دعوے کو غلط ثابت کیا۔

جیسے زندگی کے باقی پہلوؤں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی انقلابی ترقی سے نت نئے طریقے ایجاد ہوتے گئے اور انسان کی روز مرہ زندگی کی مشکلات کم ہوتی گئیں۔ اسی طرح جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی ایجاد یعنی “الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم” سے انتخابات کے حوالے سے حساس ممالک کے انتخابی نظام سے جڑے سنگین مسائل ناصرف خاطرخواہ حد تک کم ہوئے بلکہ انتخاب کی شفافیت کو یقینی بنائے جانے میں وقت کے ساتھ ساتھ مزید مثبت پیش رفت بھی ہو رہی ہے۔

الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم سے مستفید ہونے والے ممالک میں ووٹنگ مختلف طریقوں سے ہوتی ہے، جس میں پولنگ کے مقامات پر ووٹنگ مشینیں ، پیپر بیلٹ کی سنٹرلائزڈ ٹیلنگ ، اور انٹرنیٹ ووٹنگ جیسے طریقے سر فہرست ہیں۔ بہت سے ممالک سنٹرلائزڈ ٹیلنگ کا استعمال کرتے ہیں۔ کچھ پولنگ مقامات پر الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں بھی استعمال کرتے ہیں۔ بہت کم لوگ انٹرنیٹ ووٹنگ کا استعمال کرتے ہیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں (EVMs) دنیا کی کئی بڑی جمہوریتوں میں استعمال ہورہی ہیں جن میں برازیل ، بھارت ، فلپائن اور کچھ دوسرے اہم ممالک شامل ہیں۔

پاکستان بھی الیکشن کے حوالے سے ایک حساس ملک ہے جہاں پچھلے 74 سالہ تاریخ کے اوراق اس بات کا ثبوت ہیں کہ الیکشن کی شفافیت پر ہمیشہ سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں اور اصلاحات کیلئے سیاسی جماعتیں شد و مد سے مطالبات کرتی چلی آرہی ہیں۔ ماضی قریب کے عام انتخابات 2013 اور 2018 کے نتائج پر بھی ملک بھر میں سیاسی بحران پیدا ہوئے، مگر سیاست دانوں میں عدم اتفاق کے سبب انتخابی اصلاحات پر کوئی عملی پیش رفت نہیں ہوئی۔

حالیہ دنوں میں حکومت وقت کی جانب سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو آمدہ الیکشن میں استعمال کرنے کا عندیہ سامنے آیا جو کہ انتخابی اصلاحات کی طرف ایک احسن قدم ہے مگر پہلے اس نظام کے لوازمات پورے کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پڑوسی ملک بھارت نے 1982 میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو ملک بھر میں رائج کرنے پر عملدرآمد اس وقت کیا جب سیاسی قیادت کی جانب سے انتخابات پر سنگین سوالات اٹھائے جارہے تھے۔ اِس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ بھارت میں الیکشنز پر اٹھائے جانے والے سوالات اب پہلے کی نسبت بہت کم ہوئے ہیں۔ اسی طرح برازیل اور دوسرے ممالک میں بھی الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کے مثبت اثرات دیکھنے کو ملے ہیں۔

پاکستان میں اس نظام کو رائج کرنے سے پہلے یہاں کے انتخابی مسائل، الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں سے انکے ممکنہ حل کا مختصر سا تقابلی جائزہ لینا اور اس کی خامیوں پر نظر ڈالنا لازمی ہے۔ یہاں ملک کے دور افتادہ علاقوں میں بیلٹ پیپرز پر جعلی ٹھپے لگاکر جعلی ووٹوں سے امیدواروں کے کامیاب ہونے کا الزام تقریباً ہر الیکشن میں لگا یا جاتا رہا ہے۔ اس کی روک تھام الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے ممکن ہے، کیونکہ اس مشین میں یکے بعد دیگرے ووٹس کے بیچ میں خاص وقت کا دورانیہ ہوتا ہے، یعنی لگاتار بغیر کسی وقفے کے ووٹ نہیں ڈالے جاسکتے کیوں کہ ایک ووٹ ڈالنے کے بعد کچھ لمحوں کیلئے مشین غیر فعال ہو جاتی ہے اور پھر اگلے ووٹ کیلئے تیار ہوتی ہے، تو یوں جعلی ٹھپوں کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔

اسی طرح وقت پر الیکشن کے نتائج کی آمد بھی پاکستان میں انتخابات کا مسئلہ رہا ہے۔ مثلاً گزشتہ 2018 کے الیکشن میں آر ٹی ایس کے بیٹھ جانے سے الیکشن نتائج تعطیل کا شکار ہوئے۔ اس مسئلے کا حل بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے ممکن ہے کیونکہ اس سسٹم میں ووٹوں کی گنتی نہایت آسان ہو جاتی ہے اور نتائج وقت پر مرتب کیے جا سکتے ہیں۔

پاکستان میں الیکشنز کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہر انتخابی حلقے میں ایک خاطرخواہ ووٹوں کی تعداد بیلٹ پیپرز کی وجہ سے ریجیکٹ ہو جاتی ہے، جس کے سبب اکثر اوقات جیتنے والا امیدوار ہار جاتا ہے۔ اس کیلئے الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم نہایت مفید ہے کیونکہ اس سسٹم کے تحت ہونے والے انتخابات میں ریجیکٹ ووٹوں کی شرح صفر فیصد ہے۔

ملک میں پولیٹیکل پولرائیزیشن کی وجہ سے سیاسی کلچر اس نہج پہ پہنچ چکا ہے کہ پولنگ اسٹیشنز پر بھگدڑ اور ہاتھاپائی تک کی نوبت آ جاتی ہے جس کی وجہ سے اکثر اوقات بیلٹ پیپرز غائب کر دئیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ماضی میں انتخابات پر سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ اس کی روک تھام بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے ممکن ہے۔ کیونکہ بیلٹ بکس کی نسبت اس سسٹم کی سکیورٹی زیادہ یقینی اور ممکن ہے۔

اسی طرح اس نظام کے تحت کسی بھی حلقے کے ووٹوں کی ریچیکنگ یعنی تصدیق بھی آسان اور شفاف طریقہ سے عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ انڈیا کے 2019 لوک سبھا کے انتخابات اس بات کا ثبوت ہیں جہاں اپوزیشن جماعتوں کے اٹھائے گئے الزامات کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی شفاف کارکردگی سے غلط ثابت کیا گیا۔ دراصل اس نظام میں ڈیجیٹل ووٹ کیساتھ ساتھ ثبوت کیلئے ووٹر ویریفائیڈ پیپر آڈٹ ٹریل (VVPAT) یعنی مشین سے ایک ووٹ شدہ بیلٹ پیپرز کی طرح سلپ باہر آتی ہے۔ جس سے ناصرف ووٹر اپنے کاسٹ شدہ ووٹ کی تصدیق کر تا ہے بلکہ اس سلپ کو بیلٹ بکس میں ریکارڈ کیلئے ڈال کر محفوظ کیا جاتا ہے تاکہ بوقت ضرورت کام آئے۔ ملک میں شرح خواندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات بھی درست ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے ووٹ کاسٹ کرنا بیلٹ پیپرز پر ووٹ کاسٹ کرنے سے زیادہ آسان ہے کیونکہ اس میں پرچیوں پر سٹیمپ کی جھنجھٹ کے برعکس بٹن سے ووٹ کاسٹ ہو جاتا ہے۔

ناقدین کی اکثریت کا مشینوں کے ہیک ہونے پر اعتراض ہے لیکن اس میں کوئی صداقت نہیں کیونکہ یہ مشینیں انٹرنیٹ، وائی فائی، اور بلیوٹوتھ وغیرہ سے مبرا ہیں البتہ ماضی قریب میں ریموٹ وغیرہ سے اس کو کنٹرول کرنا ممکن تھا مگر اب اس خطرے کو بھی جدید سکیورٹی سے معدوم کر دیا گیا ہے۔

اسی طرح الیکٹرانک ووٹنگ کا نظام مجموعی طور پر ماحول دوست بھی ہے کیونکہ اس میں کاغذجوکہ درختوں کی کٹائی کا سبب بنتا ہے اور ڈیکمپوزیشن پر میتھین کے اخراج میں اضافے کا باعث بنتا ہے کا استعمال بھی کم ہو جاتا ہے۔ مزید یہ کہ اس نظام کی صورت میں بیلٹ پیپرز کی چھپائی، ترسیل اور مزید تکلفات سے بھی بچا جاسکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حکومت نے منسٹری آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو اسائنمنٹ دی تھی، جس کی تکمیل ہوچکی ہے اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ماڈلز تیار کرنے کے بعد میڈیا کے سامنے   بھی کردیئے ہیں۔ مگر ملک کی اپوزیشن جماعتوں کے تحفظات کو دور کرنا ابھی باقی ہے۔ حکومت کو مذکورہ ٹیکنالوجی کے نفاذ کیلئے موثر قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح الیکٹرانک ووٹنگ مشینز کی ٹیکنیکلیٹیز پر اپوزیشن جماعتوں کے تحفظات دور کرنا ابھی باقی ہے۔ اسکے لیے ایک غیر جانبدار ادارے سے مشینیں بنوانا لازم ہے کیونکہ مشین کا اصل کام اسکے اند ر انسٹال ڈیٹا کا ہے جس کی غیر جانبدار ہاتھوں سے انسٹالیشن ضروری ہے اس کے لیے مزید بھی کئی اقدامات کئے جا سکتے ہیں جیسے بہت سی مشینیں بنوانے کے بعد ان میں سے بے ترتیب مشینوں کا انتخاب کیا جائے اور پھر کسی ضمنی الیکشن میں ٹیسٹ کیا جائے وغیرہ ان تمام اقدامات پر باہمی اتفاق رائے وقت کی اہم ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں ملک کی معاشی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ان مشینوں کی کاسٹ آف پروڈکشن کو بجٹ کے ساتھ ہم آہنگ کرنا بھی چیلنج ہے۔ اپوزیشن کو اس نئی انتخابی پالیسی بنانے میں خاطرخواہ نمائندگی دینا وقت کی ضرورت ہے۔ مزید یہ کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان پر لازم ہے کہ وہ اس معاملے میں سنجیدگی دکھاتے ہوئے جدید ٹیکنالوجی سے انتخابی دھاندلیوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے میں اپنا آئینی کردار ادا کرے۔ لہذا   وقت کا تقاضا ہے کہ انتخابات کی شفافیت کیلئے ہر سٹیک ہولڈر اپنا آئینی کردار مثبت انداز میں ادا کرے اور تاریخ کی تلخیوں کو پس پشت ڈال کر نئے عزم کے ساتھ قومی یکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے تاکہ پاکستان میں انتخابی فراڈ کا خاتمہ یقینی بنایا جائے۔ تاریخ کے مغالطوں اور افسانوی ماحول سے باہر آکر جدید ٹیکنالوجی کی کھڑکی میں جھانکنا معقول ہے کیونکہ یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی صدی اور اِسی کی تقلید کا زمانہ ہے۔

Facebook Comments

@RahmanRahii
Abdur Rahman khan (Rahi) is a physist (Econophysist) , mentor, writer and motivational speaker. He writes on scientific , technological, economic, and environmental issues

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply