• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جنابِ وزیراعظم! محمد علی جناح کا نام قائداعظم نہیں/نذر حافی

جنابِ وزیراعظم! محمد علی جناح کا نام قائداعظم نہیں/نذر حافی

کیا کوئی ہے، جو قائداعظم کے بارے میں ہمارے نگران وزیراعظم صاحب کی غلط فہمیاں دور کرے!؟ انہوں نے محمد علی جناح ؒ کا نام یا عُرف، قائداعظم سمجھ لیا ہے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ خطاب اور لقب میں کیا فرق ہوتا ہے۔؟ اُنہیں یقیناً یہ بھی علم نہیں کہ بابائے قوم اور قائداعظم میں سے لقب کون سا ہے اور خطاب کون سا ہے۔؟ اگر نہیں جانتے تو اُن کے منصب کا تقاضا یہ ہے کہ اُنہیں جاننا چاہیئے اور اگر جانتے ہیں اور جان بوجھ کر انہوں نے قائداعظم اور بابائے قوم کے ساتھ اختلاف کرنے پر قوم کو ابھارا ہے تو پھر تو یہ الفاظ اور یہ جذبات صرف اور صرف اکیلے نگران وزیراعظم کے نہیں ہوسکتے۔ قارئین کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ کسی بھی تنظیم، ادارے یا شخص کی مشترکہ قوّتِ متحرکہ کو نظریہ کہتے ہیں۔ نظریہ یعنی کسی ملت کی مشترکہ قوّتِ متحرکہ۔ ایسی سوچ، فکر اور عقیدہ جو آپ کو متحرک نہیں کرتا، وہ آپ کا نظریہ بھی نہیں۔ سوچ اور عقیدہ جب قوّتِ متحرکہ میں بدل جائے تو اُسے ہی نظریہ کہتے ہیں۔

قائداعظم محمد علی جناح ؒ کے اقوال و افکار نے مسلمانانِ برّصغیر کو بغیر کسی رنگ و نسل اور فرقے کی تفریق کے مشترکہ طور پر ایک آزاد اور خود مختار وطن بنانے کیلئے متحرک کیا اور آج تک پاکستان کے باسی قائداعظم کے افکار کی وجہ سے ہی بلاتفریق نسل و رنگ اور مسلک متحد ہیں اور وطن پر قربان ہونے کیلئے ہر لمحہ تیار ہیں۔ پس قائداعظم کے اقوال و فرمودات ہمارے لئے نظریات کا درجہ رکھتے ہیں۔ نظریات کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ عصرِ حاضر میں برس ہا برس کی جنگوں کے بعد انسان اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اپنے مخالف انسانوں کو مارنے کے بجائے اُن کی قوّت متحرکہ یعنی اُن کے نظریات کو مارا اور ختم کیا جائے۔ پاکستان میں لوگوں کو قائد اعظم کے نظریات کے خلاف ابھارنا یعنی ان کی مشترکہ قوّتِ متحرکہ کی طاقت کو کچلنا ہے۔ جب لوگ دفاعِ وطن کیلئے مشترکہ طور پر حرکت نہیں کریں گے تو پھر اُن کے وطن کو با آسانی تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پھر صوبوں کو الگ کرتے ہوئے اور تقسیم فلسطین یا تقسیم کشمیر کو عملی کرتے وقت کوئی قابلِ توجہ عوامی ردِّعمل سامنے نہیں آئے گا۔

نظریات کو کچلنے سے لوگوں کے جسموں کے بجائے اُن کی سوچ مسخّر ہو جاتی ہے۔ لوگوں کی سوچ، ارادے اور نظریات سے اختلاف کرنا کوئی کفر نہیں بلکہ ایک نظریاتی جنگ ہے۔ آج کی جدید دنیا میں استعماری طاقتوں کی طرف سے ہر ملک کو نظریاتی جنگ کا سامنا ہے۔ یہ جنگ سرد اور گرم اسلحے یعنی توپ اور تلوار کے بجائے قلم، کیمرے، تصویر، آواز، بیانیے، تقاریر، تحاریر، بیانات، شعر و شاعری، موسیقی، ٹویٹس، ترانوں اور نغموں جیسے ہتھیاروں سے لڑی جاتی ہے۔ آج ساری دنیا میں توپ اور تلوار کا معرکہ کہیں کہیں جبکہ قلم اور کیمرے کی یلغار ہر جگہ اور ہر لمحے موجود ہے۔ نظریاتی جنگ لڑنے والے افراد بنیادی طور پر تین مقاصد کو اپنے سامنے رکھتے ہیں:
۱۔ اپنے نظریئے کو کیسے پیش کیا جائے کہ مخالف بھی ہم فکر بن جائے۔
۲۔ مخالف ہم فکر نہیں بنتا تو کم از کم مخالفت ترک کر دے۔
۳۔ دشمن اگر مخالفت ترک نہیں کرتا تو کم از کم کھل کر مخالفت کرنے کا موقع اُسے نہ ملے۔

پاکستان میں قائداعظم کے نظریات کی مخالفت اور فلسطین کے دو ریاستی حل کی بات کرنے والے مذکورہ بالا تینوں نکات کی رعایت کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کاکڑ صاحب جہاں “قائداعظم سے اختلاف کُفر نہیں” کہہ کر ایک طرف تو قوم کو قائداعظم سے اختلاف پر ابھار رہے ہیں اور دوسری طرف وہ کہہ رہے ہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح کا وژن اور غیر متزلزل عزم ہماری قوم کے لیے مشعل راہ ہے۔ اپنے ٹویٹ میں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ آیئے اتحاد، ایمان اور نظم و ضبط کو برقرار رکھتے ہوئے قائد کی میراث کی پاسداری کریں۔ یعنی کاکڑ صاحب ہارس ٹروجن تھیوری کو استعمال کرتے ہوئے اپنے نظریئے کو قائداعظم کے خلاف ایسے پیش کر رہے ہیں، تاکہ مخالف بھی ہم فکر بن جائے، ہم فکر نہیں بنتا تو کم از کم مخالفت ترک کر دے، اور اگر مخالفت ترک نہیں کرتا تو کم از کم کھل کر مخالفت کرنے کا موقع اُسے نہ ملے۔

یاد رکھئے! ماضی میں قائداعظم کی مخالفت کا دوسرا نام متحدہ ہندوستان تھا اور آج کے دور میں قائداعظم کی مخالفت کا دوسرا نام فلسطین کا دو ریاستی حل ہے۔ جو لوگ فلسطین کے دو ریاستی حل کی بات کر رہے ہیں، وہ یہ جان لیں کہ محمد علی جناح کا نام قائد اعظم نہیں ہے بلکہ وہ حقیقی معنوں میں قائد ِاعظم ہیں۔ اُن کے فرمودات و افکار حقیقی معنوں میں نظریات ہیں اور ان کے نظریات کے خلاف اعلانِ جنگ کا مطلب، ملت و ریاست کا شیرازہ بکھیرنا ہے۔

بقول شاعر:
ہر سمت مسلمانوں پہ چھائی تھی تباہی
ملک اپنا تھا اور غیروں کے ہاتھوں میں تھی شاہی
ایسے میں اٹھا دین محمد کا سپاہی
اور نعرہ تکبیر سے دی تو نے گواہی
اسلام کا جھنڈا لیے آیا سر میدان
اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان
تیرا احسان ہے تیرا احسان

دیکھا تھا جو اقبال نے اک خواب سہانا
اس خواب کو اک روز حقیقت ہے بنانا
یہ سوچا جو تو نے تو ہنسا تجھ پہ زمانہ
ہر چال سے چاہا تجھے دشمن نے ہرانا
مارا وہ تو نے داؤ کہ دشمن بھی گئے مان
اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان
تیرا احسان ہے تیرا احسان

لڑنے کا دشمنوں سے عجب ڈھنگ نکالا
نہ توپ نہ بندوق نہ تلوار نہ پھالا
سچائی کے انمول اصولوں کو سنبھالا
پنہاں تیرے پیغام میں جادو تھا نرالا
ایمان والے چل پڑے سن کر تیرا فرمان
اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان
تیرا احسان ہے تیرا احسان

پنجاب سے بنگال سے جوان چل پڑے
سندھی، بلوچی، سرحدی پٹھان چل پڑے
گھر بار چھوڑ بے سرو سامان چل پڑے
ساتھ اپنے مہاجر لیے قرآن چل پڑے
اور قائد ملت بھی چلے ہونے کو قربان
اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان
تیرا احسان ہے تیرا احسان

نقشہ بدل کے رکھ دیا اس ملک کا تو نے
سایہ تھا محمد کا، علی کا تیرے سر پہ
دنیا سے کہا تو نے کوئی ہم سے نہ الجھے
لکھا ہے اس زمیں پہ شہیدوں نے لہو سے
آزاد ہیں آزاد رہیں گے یہ مسلمان
اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان
تیرا احسان ہے تیرا احسان

Advertisements
julia rana solicitors london

ہے آج تک ہمیں وہ قیامت کی گھڑی یاد
میت پہ تیری چیخ کے ہم نے جو کی فریاد
بولی یہ تیری روح نہ سمجھو اسے بیداد
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
گر وقت پڑے ملک پہ ہو جائیے قربان
اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان
تیرا احسان ہے تیرا احسان

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply