کشمیری اور سکھ علیحدگی پسندوں کی پُراسرار ہلاکتیں/افتخار گیلانی

یہ جولائی 2005کی بات ہے کہ بھارت کے اقتصادی مرکز ممبئی کے کرائم برانچ کے ڈپٹی کمشنر دھننجے کملاکر ملزموں کی ایک گینگ کے خلاف تفتیش کر رہے تھے، کہ ان کو اطلاع ملی کہ اس گروہ کا ایک اہم رکن وکی ملہوترہ دہلی میں چھپا ہوا ہے۔ اپنے سینئر افسران سے صلاح مشورہ کرکے ملہوترہ اپنی ٹیم کے ساتھ دہلی روانہ ہوگئے اور ضابط کے مطابق دہلی پولیس کو اطلاع دی۔ مخبروں کی اطلاع اور فون کی نگرانی کے دوران پتہ چلا کہ اگلی صبح دہلی کے ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں ملہوترہ کی کسی کے ساتھ ناشتہ پر ملاقات طے ہے۔ رات بھر اس ہوٹل کے باہر اور اندر خفیہ پولیس نے جال بچھا دیا۔ استقبالیہ کلرکوں سے لیکر پورٹر وں تک کے بھیس میں خفیہ پولیس کے اہلکار موجود تھے۔ملہوترہ ، چھوٹا راجن گینگ کا ایک اہم رکن تھا، اور کئی بار پولیس کو جل دینے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ اس د ن اس کے ستارے گردش میں تھے۔
ناشتہ کرنے کے بعد جب اسکی سفید ایمبیسڈر گاڑی ہوٹل کے احاطہ سے باہر نکلی، تو پولیس نے اسکو روک کر ملہوترہ پر بندوق تان کر باہر آنے کیلئے کہا۔ مگر کملاکر کی حیرت کی کوئی حد نہیں رہی، جب اس نے دیکھا کہ گینگسٹر کے ساتھ پچھلی سیٹ پر بھارتی خفیہ ادارہ کے حال ہی میں ریٹائرڈ ہوئے سربراہ ا اور موجودہ قومی سلامتی مشیر جیت کمار دوول برا جمان تھے۔ اس گاڑی کی ڈکی میں اسلحہ کی ایک کھیپ بھی موجود تھی۔ شاید یہ پورا واقعہ کبھی بھی منظر عام پر نہیں آتا۔ مگر ملہوترہ کے ارد گرد شکنجہ ایسا سخت کردیا گیا تھا اور اسکی گرفتاری کا ممبئی اور دہلی پولیس کو اتنا یقین تھا، کہ انہوں نے اس گرفتاری کو ریکارڈ کرنے کیلئے کئی کرائم رپورٹروں کو بھی مدعو کیا ہوا تھا۔
بعد میں پتہ چلا کہ انٹیلی جنس بیورو میں اپنی مدت سربراہی کے دوران دوول نے 1993 کے ممبئی دھماکوں کے ایک کلیدی مفرور کردار داؤد ابراہیم کو حریف گینگ کے ذریعے ٹھکانے لگانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ مگر اس سے پہلے ہی وہ ریٹائرڈ ہوگئے۔ اس وقت کی کانگریس کی زیر قیادت حکومت نے ان کی ملازمت میں توسیع نہیں کی۔ مگر انہوں نے اس آپریشن کو جاری رکھا۔ ریٹائرمنٹ کے چھ ماہ بعد ان کو معلوم ہوا کہ 23جولائی 2005کو دوبئی کے گرینڈ حیات میں داوٗد کی بیٹی ماہ رخ اور پاکستانی کرکٹر جاوید میانداد کے بیٹے جنید کے ولیمہ کی تقریب منعقد ہونے والی ہے۔ لہذ ا طے ہوا تھا کہ دوبئی میں ڈان داوٗد کو ختم کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ کیونکہ1993کے بعد یہ ایسا پہلا موقع تھا، جب داوٗد کے بارے میں اتنی پکی معلومات تھیں اوربیٹی کی شادی کے موقع پر اس کے منظر عام پر آنے کے قوی امکانات تھے۔ چونکہ آپریشن دوبئی میں ہونا تھا، اسلئے بجائے حکومتی عناصر یعنی کمانڈوز کا استعمال کرنے کے انڈر گراونڈ مافیا چھوٹا راجن گینگ کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ چھوٹا راجن 1993 کے بمبئی دھماکوں کے بعد داؤد سے الگ ہو گیا تھا اور وہ 2000 میں بنکاک میں اس پر ہونے والے حملے کا بدلہ لینے کا موقع ڈھونڈ رہا تھا جس کے لیے اس نے اپنے دو قابل اعتماد آدمیوں وکی ملہوترا اور فرید تناشا کو معاملات طے کرنے کیلئے دہلی بھیجا تھا۔ کملاکر نے بعد میں کہا کہ انہیں صرف یہ پتہ تھا کہ راجن گینگ کے ارکان کسی سیاست دان یا اعلیٰ تاجر کو ختم کرنے کے لیے بھارت میں داخل ہوئے تھے۔دوول کو جانے کی اجازت دے دی گئی، جبکہ کملاکر ملہوترہ کو اپنے ساتھ ممبئی لے کر چلا گیا۔ بعد میں غالباً2010میں اسکو ضمانت پرعدالت نے رہا کر دیا۔
حال ہی میں پچھلے ایک سال کے دوران بیرون ملک مقیم سکھوں کی خالصتان تحریک یا کشمیر کی تحریک آزادی سے تعلق رکھنے والے افراد کی پر اسرار ہلاکتوں کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ ہر قتل پر بھارت میں موجود سوشل میڈیا کے سرخیل خوشیا ں منارہے ہیں، جس سے یہ تقریباً ثابت ہوجاتا ہے کہ ان ہلاکتوں کے تار کہاں سے کنٹرول کئے جار ہے ہیں۔
ابھی ان ہلاکتوں پر چہ منگوئیاں جاری ہی تھیں، کہ کینیڈاکے وزیر اعظم جسٹن ٹرودیو نے نئی دہلی میں گروپ ۔20ممالک کی سربراہ کانفرنس میں شرکت کے بعد واپسی پر پارلیمنٹ میں بیان داغا کہ کینیڈا کے ایک سکھ باشندے ہردیپ سنگھ نجر کی ہلاکت میں بھارت کا ہاتھ ہے۔ چونکہ اس کو کینیڈاکی سرزمین پر اس ملک کے قوانین کی دھجیاں اڑا کر نشانہ بنایا گیا ہے، اس لئے کینیڈا کو اس پر تشویش ہے۔ اسی کی ساتھ کنیڈا کی وزارت خارجہ نے بھارتی سفارت خانے میں خفیہ ادارے ریسرچ اینڈ انالیسیز ونگ کے اہلکار پون کمار رائے کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔ بھارت نے اس کے جواب میں کینیڈاکے سفارت خانے میں اضافی عملہ کو واپس جانے اور کینیڈاکے خفیہ محکمہ کے اہلکار اولیور سیلوسٹر کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔ کینیڈا کا کہنا ہے کہ جی ۔20سربراہ کانفرس کے دوران جب وزیر اعظم ٹرودیونے بھارتی ہم منصب نریندر مودی سے دوطرفہ ملاقات کی، تو قومی سلامتی مشیر اور وزیر خارجہ جے شنکر کی موجودگی میں اس ہلاکت میں بھارتی اہلکاروں کے ملوث ہونے کے ’’ناقابل تردید‘‘ ثبوت فراہم کئے گئے اور امید تھی کہ بھارت خود ہی اس پر کوئی قدم اٹھائے گا۔ مگر چونکہ یہ ثبوت زیادہ تر فون کی نگرانی اور دیگر غیر قانونی ذرائع سے حاصل کئے گئے تھے، بھارت کو یقین تھا کہ کینیڈا ان ثبوتوں کو کبھی بھی کسی عدالت کے سامنے لا سکے گا نہ ہی ان پر کچھ زیادہ واویلا مچا پائے گا۔
کینیڈا کے ساتھ یہ تنازعہ چل ہی رہا تھا کہ امریکی محکمہ انصاف نے باضابط ایک چارج شیٹ عدالت میں دائر کی، جس میں بتایا گیا کہ بھارتی اہلکاروں کی ایما پر امریکہ میں مقیم سکھ لیڈر گورپت ونت سنگھ پنوکوہلاک کرنے کی سازش کی گئی تھی۔ اس سازش کے ایک کردار نکھل گپتا، جو نیم فوجی تنظیم سینٹرل ریزر و پولیس فورس کے ایک سابق اہلکار ہیں، کو امریکی ہدایت کے تحت چیک حکومت نے پراگ میں گرفتار کیا ہے اور فی الوقت وہ جون سے جیل میں ہیں۔ کینیڈاکے انکشافات اورپھر امریکی چارج شیٹ نے فی الحال پچھلے ایک سال سے جاری ہلاکتوں کے تار طشت از بام کر دیے ہیں۔
ان پر اسرار واقعات میں جو افراد ہلاک ہو گئے ہیں، وہ ہیں سلیم رحمانی، ریاض احمد المعروف ابو قاسم، بشیر احمد پیر، سید خالد رضا، پرم جیت سنگھ، شا ہد لطیف، ہردیب سنگھ نجر(کنیڈا)، اوتار سنگھ(برطانیہ) لکھبیر سنگھ روڑے، اعجاز احمد آہنگر (افغانستان)، مستری ظہور ابراہیم ، لال محمد(کٹھمنڈو)، اکرم غازی، خواجہ شاہد (لائن آف کنٹرول کے پاس ان کی سربریدہ لاش ملی تھی)، مولانا ضیاء الرحمان، مفتی قیصر فاروق اور پاکستان کی ملی مسلم لیگ سے وابستہ عدنان احمد المعروف حنظلہ شامل ہیں۔ ان میں اکثر افراد کو پاکستان میں ہلاک کیا گیا۔ ان ہلاکتوں کو گھر میں گھس کر مارنے اور چھپن انچ کی چھاتی یعنی انتہائی جرات سے تشبہہ دیکر ان پر شادیانے بجائے گئے۔
ایک امریکی آن لائن اخبار دی انٹرسیپٹ کے مطابق اکتوبر میں برطانیہ میں اوتار سنگھ کھنڈا کے خاندان نے الزام لگایا گیا کہ ان کو انٹیلی جنس ایجنٹوں نے زہر دیا تھا۔ اس سے قبل 2022 میں،پودامن سنگھ ملک نامی 75 سالہ کینیڈین شخص، جسے 1985 میں ایئر انڈیا کی پرواز پر ہونے والے مہلک بم دھماکے میں ملوث ہونے کے الزام سے بری کر دیا گیا تھا، کو کینیڈا میں اس کے دفتر کے باہر ہلاک کر دیا گیا تھا۔اس اخبار کے مطابق پاکستان میں دو سکھ کارکنوں کو لاہور اور اسلام آباد کے شہروں میں قتل کا نشانہ بنا یا گیا۔ اسلام آباد میں ایک مبینہ ہدف نامعلوم ہے، جب کہ دوسرا لکھبیر سنگھ روڈے ہے، جو 1990 کی دہائی سے پاکستان میں مقیم ایک سرکردہ سکھ علیحدگی پسند رہنما تھا اور جس پر بھارتی حکومت طویل عرصے سے دہشت گردی کا الزام لگاتی رہی ہے۔روڈے کا بیٹا بھگت سنگھ، ایک کینیڈین شہری ہے، اپنے والد کی طرح، سکھ علیحدگی کی تحریک میں نمایاں ہے۔ اس نے دی انٹرسیپٹ کو بتایا کہ ان والد ایک طویل عرصے سے بھارتی حکومت کی ہٹ لسٹ پر تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سال نجار کے قتل کے بعد انہیں کینیڈا کی انٹیلی جنس نے اپنی جان کو لاحق خطرات کے بارے میں بھی خبردار کیا تھا۔
کنیڈا کی طرح امریکہ نے بھی بھارتی خفیہ ادارے راء کے دو سینئر افسران کو ملک چھوڑنے کیلئے کہا۔ چونکہ امریکہ نے اس کی پبلسٹی نہیں کی اور ان افسران کے نام بھی ظاہر نہیں کئے، اس لئے بھارت یہ کڑوی گولی نگل گیا ۔ جن افسران کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا، وہ سان فرانسسکو کے مشن میں کام کرتے تھے۔ اس کے علاوہ، بھارت کو واشنگٹن میں را ء کے اسٹیشن چیف کی پوسٹ پر تعیناتی سے روک دیا گیا، جو اس سال کے شروع سے خالی ہے۔ نئے افسر کو 30 جون سے قبل چارج لینا تھا۔ سان فرانسسکو ، واشنگٹن اور اوٹاوا میںراء کے افسران کی بے دخلی یقینا بھارت کیلئے ایک بڑا دھچکا ہے۔ مگر خیر ہو بھارتی میڈیا کا، جو اب اپنے حکمرانوں سے سوال پوچھنے کے بجائے الٹا اپوزیشن کو ہی ہر معاملے میں کٹہرے میں کھڑا کر دیتا ہے۔ اس طرح ایک طرح سے شمالی امریکی براعظم کوبھارت کے خفیہ اداروں کے اہلکاروں سے صاف کر دیا گیا ہے۔ ان افسران کی بے دخلی کا مقصد اس پیغام کو اجاگر کرنا ہے کہ اگر بھارتی ایجنسیاں مغرب میں جارحانہ کاروائیاں کرتی ہیں، تو ان کو اسکا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ کنیڈا کے مقابلے امریکی الزامات کے جواب میں بھارت کا رویہ یکسر مختلف تھا۔ امریکہ میں گرپت ونت سنگھ کے خلاف قتل کی سازش کا بھانڈا پہلے فنانشل ٹائمز نے پھوڑا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتی وزارت خارجہ نے الزامات کو یکسر مسترد نہیں کیا۔ جو صحافی بھارتی وزارت خارجہ کو کور کرتے ہیں، ان کو معلوم ہے کہ کہ ایسی رپورٹ پر پہلا ردعمل یہی ہوتا ہے کہ بھارتی وزارت خارجہ قیاس آرائی پر مبنی کسی میڈیا رپورٹ پر رائے زنی نہیں کرتی ہے۔ بعد میں جب ایسی رپورٹیں پارلیمنٹ یا عدالت جیسے دیگر فورمز کے ذریعے درست ثابت ہو جائیں تو خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔ فنانشل ٹائمز نے وائٹ ہاؤس کے ذرائع کے حوالے سے جب دعوی کیا کہ امریکہ نے پنن کے قتل کی سازش کو ‘اعلی ترین سطح’ پر بھارت کے ساتھ اٹھایا۔تو تردید کرنے کے بجائے بھارتی وزار ت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے کہا کہ بھارت اس طرح کے الزامات کو سنجیدگی کے ساتھ لیتا ہے، کیونکہ یہ اس کی قومی سلامتی کے مفادات پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ انہوں نے تصدیق کی کہ مریکہ نے کچھ معلومات شیئر کیں ہیں۔
اس سے بھی بڑی بات یہ تھی، کہ ترجمان نے کہا کہ لگتا ہے کہ منظم مجرموں یعنی مافیا، اسلحہ برداروں، دہشت گردوں اور ’’دیگر‘‘ کے درمیان گٹھ جوڑ ہے، جس کی تہہ تک جانے کی ضرورت ہے۔ چونکہ سفارت کاری میں الفاظ چن چن کر استعمال کئے جاتے ہیں، اس لئے اس جملہ میں لفظ ’’دیگر‘‘ کی شمولیت ایک واضح شارہ ہے۔یعنی یہ تسلیہم کیا گیا ہے کہ کچھ اور لوگ یا ا یجنسیاں ملوث ہیں۔ باغچی نے مزید کہا کہ نومبر میں ہی حکومت نے معاملے کے تمام متعلقہ پہلوؤں کو دیکھنے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی تشکیل دی اور یہ کہ حکومت اس کے نتائج کی بنیاد پر کارروائی کرے گی۔
چار سال قبل جرمنی نے بھی بھارتی خفیہ ایجنسیوں پر سوال اٹھا دیے تھے۔ 2020 میں، جرمنی نے ایک افسر کوملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا، جو انڈین ریونیو سروس (IRS) سے ڈیپوٹیشن پرخفیہ ایجنسی میں خدمات انجام دے رہا تھا۔ جوابی کارروائی میں دہلی میں جرمن انٹیلی جنس افسراوی کیہم کو ملک بدر کر دیا گیا تھا۔ جرمنی نے ایک سکھ پناہ گزین بلویر سنگھ کو خالصتان کے حامیوں کی مبینہ جاسوسی کرنے کے الزام میں ایک سال قید اور 2,400 یورو جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ اس سے قبل فرینکفرٹ کی ایک عدالت نے ایک بھارتی صحافی کو کشمیری اور سکھ علیحدگی پسندوں کی جاسوسی کرنے پر 18 ماہ کی سزا سنائی تھی۔اس سے قبل 2015 میںجرمنی کے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں کام کرنے والے ایک جرمن امیگریشن افسر پر خالصتان کے مشتبہ کارکنوں کی معلومات را ء کو فروخت کرنے کے لیے سرکاری ڈیٹا بیس تک رسائی کے لیے مقدمہ چلایا گیا تھا۔ابھی حال ہی میں بھارت کے آٹھ سابق بحریہ کے افسران کو قطر کی ایک عدالت نے جاسوسی سے متعلق الزامات پر سزائے موت سنائی ہے، جب کہ متعدد دیگر بھارتی شہری مشرق وسطیٰ میں جاسوسی کے الزام میں گرفتار ہیں۔
امریکہ اور بھارت اس وقت تو دوستی کی حدیں طے کررہے ہیں اور مختلف امور خاص طور پر اینٹلیجنس میں بھی تعاون کر تے ہیں۔ مگر سرد جنگ کے دوران امریکی سی آئے اے اکثر راء کو نشانہ بناتی رہی ہے۔ 1987 میں راء کے ایک افسرکے وی اننی کرشنن کو گرفتار کیا گیا تھا اور قومی سلامتی ایکٹ (NSA) کے تحت تہاڑ جیل میں رکھا گیا ۔ وہ ایجنسی کے طرف سے سری لنکا میں علیٰحیدگی پسند لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلم (LTTE) کا رابط کار تھا،مگر پتہ چلا وہ معلومات کولمبو میں تعینات سی آئی اے افسر کے ساتھ شیئر کرتا تھا اور اکثر اس کے ساتھ شراب پیتا تھا۔وہ ایک ایئر ہوسٹس کے عشق میں مبتلا ہو گیا تھا اور بعد میں معلوم ہوا کہ سی آئی اے نے ان کی کچھ تصویریں لی تھیں، جن سے وہ بلیک میل ہوتا تھا۔ اگر چہ وہ 18 ماہ تک جیل میں رہا، لیکن اسپر کوئی مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا کیونکہ سماعت کے دوران بھارت کی تامل ٹائگرز کو مدد و تربیت دینے کا بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوٹ جاتا۔ اسلام آباد، بنکاک اور کینیڈا میں تعینات ایک سابق افسر شمشیر سنگھ مہاراج کمار نے اپنی سروس کے اختتام پر اپنے بیٹے کے ساتھ کینیڈا میںرہنے کو ترجیح دی۔اسی طرح ایک اور سابق افسر سکندر لال ملک نے اپنی سروس کے اختتام پر امریکہ میں رہنے کا انتخاب کیا ۔سابق سربراہ گریش سکسینا کے سیکرٹری ایم ایس سہگل لندن میں رہتے ہیں۔اشوک ساٹھے، جو کبھی ایران میںاسٹیشن کے انچارج تھے، کہا جاتا ہے کہ وہ کیلیفورنیا میں رہتے ہیں۔ ، این وائی بھاسکر اور بی آر بچار دونوں نے امریکہ میں رہائش حاصل کی ہے ۔اسی طرح میجر آر ایس سونی اپنے ادارہ کو بغیر کوئی اطلاع کینیڈا چلے گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ روزنامہ 92نیوز

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply