• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کورونا ویکسین پر بھی اپنے مشیروں کو پیسہ بنانے کی اجازت دیتی حکومتی پالیسی ۔۔ غیور شاہ ترمذی

کورونا ویکسین پر بھی اپنے مشیروں کو پیسہ بنانے کی اجازت دیتی حکومتی پالیسی ۔۔ غیور شاہ ترمذی

بدقسمتی ہے کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کی حکومت نے خود اپنی جیب سے کورونا کووڈ-19 کی ویکسین امپورٹ کر کے عوام کو مفت لگانے کی بجائے پرائیویٹ کمپنیوں کو اسے درآمد کرنے اور بے تحاشا منافع کمانے کی پالیسی اختیار کی ہے۔ یعنی اب مملکت خداداد میں کورونا جیسی ناگہانی آفات پر بھی کورونا کووڈ-19 ویکسین کی منصفانہ تقسیم اور قیمت مقرر کئے بغیر ہی خون چوسنے والی کمپنیوں کو تحریک انصاف حکومت کی جانب سے درآمد اور خریدوفروخت کی اجازت دی گئی ہے۔ حالانکہ دنیا بھر میں بیشتر ممالک اس کے برعکس ویکسین کی درآمد، تقسیم اور ٹیکے لگانے کا نظام سرکاری سطح پر سنبھال رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ریاست کے پاس اتنے بھی وسائل نہیں کہ وہ اپنے شہریوں کے لیے یہ ویکسین مفت فراہم کرتی۔ اگر نہیں تو کم از کم “نو پرافٹ – نو لاس” کی بنیاد پہ درآمدی نرخوں پہ ہی عوام کو یہ ویکسین مہیا کر دیتی مگر نجی کمپنیوں کو اس ویکسین کی درآمد اور اُس پر ہوش ربا منافع کمانے کی اجازت دے کر ملک کے دیگر مسائل کی طرح حکومت نے اپنی روایتی بے حسی کا پھر سے مظاہرہ کیا ہے۔

تبدیلی سرکار حکومت نے 4 کمپنیوں بشمول وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور شہباز گِل کی کمپنی اے جی فارما کو روسی ویکسین Sputnik V کے علاوہ پاکستان میں ویکسین کے بڑے امپورٹر عثمان غنی کی کمپنی سندھ میڈیکل اسٹور کو برطانوی ویکسین آسٹرازینیکا، ایک دوسری کمپنی اے جے ایم فارما کو ایک دوسری چینی ویکسین کین سائنو اور قومی ادارہ صحت کو چینی ویکسین سائنو فام درآمد کرنے اور اسے عامۃ الناس کو فروخت کرنے کی اجازت سے نوازا ہے۔ ان 4 کمپنیوں کے علاوہ چغتائی لیب کو بھی روسی کمپنی Sputnik V کی اجازت دی گئی ہے۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا تھاکہ پاکستان کی جانب نے اب تک اسپٹنک 5، سائنو فام اور آسٹرا زینیکا کے ہنگامی بنیاد پر استعمال کی اجازت دی تھی لیکن بعد میں اے جے ایم فارما نامی کمپنی کو چینی ویکسین کین سائنو کے ہنگامی استعمال کی منظوری بھی دے سی گئی تھی۔ کین سائنو کے بارے میں اوجھا کووڈ لیبارٹری کے سربراہ پروفیسرسعید خان کا کہنا تھا کہ یہ ویکسین 60 سال سے زائد عمر کے افراد کو بھی لگائی جا سکے گی۔

حکومت کی اس پالیسی کے تحت ڈریپ نے نجی کمپنیوں کو 40 فیصد منافع جبکہ دکانداروں اور ہسپتالوں کے لئے 15 فیصد منافع پر ویکسین کی فروخت کی اجازت دینے کے 2 فارمولے منظور کئے ہیں۔ پہلے فارمولہ کے مطابق تجارتی نرخ اس کی درآمدی لاگت کے برابر اور اُس پر 40 فیصدمنافع کے ساتھ فروخت کی اجازت ہوگی۔ دوسرے فارمولہ کے مطابق بڑی مقدار میں ویکسین امپورٹ کی جائے گی اور اسے مقامی سطح پر دوبارہ پیک کیا جائے گا جس کے مطابق عام لوگوں تک اس کو پہنچانے کے لئے اس کی درآمدی لاگت، اس کی پیکنگ کاسٹ اور پھر اُس کے اوپر درآمد کرنے والی کمپینوں کے لئے 40 فیصد منافع کے بعد اسے ہسپتالوں اور میڈیکل سٹورز تک پہنچایا جائے گا اور اُس کے اوپر میڈیکل سٹورز اور ہستال اپنا 15 فیصد تک کمیشن شامل کر کے فروخت کر سکیں گے۔

ان فارمولوں کے حساب سے وزیر اعظم عمران خاں کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور شہباز گل کی کمپنی نے اپنی درآمد کردہ 2 انجیکشن والی روسی ویکسین Sputnik V کی پاکستان میں قیمت 8500 روپے مقرر کروا لی ہے۔ شہباز گل کی کمپنی نے روسی ویکسین کی فی خوراک صرف دس ڈالر میں امپورٹ کی جو پاکستانی روپے میں 1550 روپے بنتے ہیں مگر اس حکومتی فارمولہ کے حساب سے اب یہ ویکسین 8500 میں روپے میں فروخت کی جائے گی۔ یعنی فی خوراک 7000 روپے کا خالص اور شدھ منافع۔ چونکہ شہباز گل کی کمپنی نے پہلی consignment میں دو لاکھ ویکسین کا آرڈر دیا ہے لہذا پہلی ڈیل میں ہی اُن کا کل منافع 1 ارب 40 کروڑ روپے کا ہوا جبکہ مزید ابھی کئی ڈیل اور بھی ہوں گی۔ ویسے تو تحریک انصاف خود کو سچائی اور ایمانداری کا چیمپئین کہتی ہے لہذا شہباز گل اور اُن کی کمپنی کی اس کمائی پر تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں میں کسی کو کچھ کہنے کی نہ اجازت ہے اور نہ ہی کسی میں اتنا ظرف کہ وہ اپنے لیڈر کی کرپشن کو کرپشن ہی تسلیم کر لے۔ ڈاکٹر شہباز گل کی لمبی کمائی والی قیمت فروخت کے مقابلہ میں اسی حکومتی فارمولہ کے حساب سے چینی کمپنی سائنو فام (ایک خوراک والی چینی ویکیسن) پاکستان میں 4 ہزار 225 روپے کی دستیاب ہوگی جبکہ سندھ میڈیکل سٹور، چغتائی لیب اور اے جے ایم فارما نے ابھی تک اپنی ویکسین کی قیمت فروخت ظاہر نہیں کی۔ شاید وہ سب انتظار کر رہے ہیں کہ شہباز گل کی کمپنی کس قیمت فروخت پر اپنی ویکسین لانچ کرتی ہے تو پھر وہ بھی اُسی حساب سے اپنی ویکسین مارکیٹ میں متعارف کروائیں۔

اس سے پہلے چین نے غریب پاکستانی عوام کے لئے پانچ لاکھ ویکسین ڈوزز تحفے میں دی تھیں جو فروری کے اوائل میں پاکستان پہنچی تھیں۔ عالمی ادارہ صحت نے بھی پانچ لاکھ خوراکیں مفت میں مہیا کیں۔ شنید ہے کہ چین سے سائنو فام کی 11 لاکھ ڈوز کی مزید ڈوزز عطیہ کی جا رہی ہیں۔ پاکستان کو عالمی ادارہ صحت کے پروگرام ‘کو ویکس‘ کی جانب سے آکسفورڈ کمپنی کی ایجاد کردہ آسٹرا زینیکا نامی کورونا کے بچاؤ کی ویکسین کی کُل 17 ملین خوراکیں ملیں گی جن میں سے سات ملین اسی مہینہ یعنی مارچ کے اختتام تک پاکستان پہنچ جائیں گی جبکہ بقیہ 10 ملین خوراکیں رواں برس کی دوسری ششماہی میں پاکستان کو ملیں گی۔ عالمی ادارہ صحت کی امداد سے ملنے والی ایک کروڑ 70 لاکھ خوراکیں انڈیا میں بائیوٹیک نامی کمپنی کی تیار کردہ ہیں جس نے آکسفورڈ کمپنی سے اس کی مینوفیکچرنگ کا لائسنس حاصل کیا ہے۔ انڈیا کو ویکسین پاور ہاؤس بھی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ عالمی سطح پر تیار ہونے والی تقریباً 60 فیصد ویکسین بناتا ہے۔ انڈیانے خطے میں دوستانہ ہمسایہ ممالک کو لاکھوں مفت خوراکیں بھیجنا بھی شروع کردی ہے اور انڈیا کے اس اقدام کو ‘ویکسین ڈپلومیسی’ کہا جا رہا ہے۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان ان ممالک میں شامل نہیں جنھیں انڈیا مفت ویکسین دے رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نیا پاکستان کی فلاحی ریاست کے خواب دکھانے والوں اور خواب خرگوش کے مزے لینے والوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ عالمی مارکیٹ میں 10 ڈالر قیمت کی 2 انجیکشن والی روسی ویکسین Sputnik V کو پاکستان میں 8،500 روپے میں فروخت کی اجازت دی گئی ہے۔ ویسے تو تحریک انصاف والے کہتے ہیں کہ اُن کی حکومت عوام کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ دار ہے اور یہ واحد ذمہ داری ہے جس کے نام پہ ٹیکس اکٹھا کیا جاتا ہے مگر یہ کیسی عوام دوست حکومت ہے جس نے اپنی غریب عوام کی جان کی قیمت پر بھی تجارت شروع کر رکھی ہے۔ تحریک انصاف والوں کو شاید اپنے لوگوں کی غربت کا اندازہ ہی نہیں ہے اور نہ ہی اُن کے لیڈروں کا ملک کی سیاست میں کوئی سٹیک (stake) ہے۔ تحریک انصاف کی ساری جدوجہد کا مقصد عمران خاں کو وزیر اعظم بنانا تھا جو کہ وہ بن چکے ہیں۔ اس لئے اُن کی سیاست کو بالکل فرق نہیں پڑتا کہ لوگوں کو ویکسین 8 ہزار کی ملے یا 18 ہزار کی ہو یا بالکل نہ بھی ملے۔ چونکہ تحریک انصاف کی پاور بیس (Power Base) اور ووٹرز بنک ویسے بھی سرکاری ہسپتالوں میں ٹوکن لے کر ویکسین لگوانے والا طبقہ نہیں ہے۔ اس لئے بڑھتی ہوئی مہنگائی، ہسپتالوں سے مفت ادویات کی سہولت کا خاتمہ۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں فیسوں کا اضافہ، بجلی۔ پانی گیس کی قیمتوں میں اضافہ وغیرہ جیسی کس بھی معاملہ سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔ عامۃ الناس بے شک ویکسین کی انتہائی زیادہ قیمت پرجتنا مرضی واویلا کر لیں مگر وہ یہ یاد رکھیں کہ نقار خانے میں طوطی کی آواز کوئی نہیں سنتا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply