کیا وائجر وَن ہم سے جُدا ہوجائے گا؟-تحسین اللہ خان

آج میں ایک ایسے مسافر پر لکھنے جارہا ہوں  جو میرے دل کے بہت ہی قریب ہے  ،صرف میرے نہیں بلکہ ہر وہ شخص اس سے محبت کرتا ہے جو فلکیات کے بارے تھوڑا بہت جانتا ہو ۔یہ پہلا “مضمون” ہے جو میں بالکل بھی لکھنا نہیں چاہتا لیکن کافی دوستوں نے اصرار کیا ہے  کہ میں اس پر تفصيل سے کچھ لکھوں، اس وجہ سے لکھنے پر مجبور ہوگیا، کیونکہ میں ایسی چیزوں پر لکھتے وقت پتا نہیں کیوں “ایموشنل” ہوجاتا ہوں۔

یہ آج سے 46 سال پہلے یعنی پانچ ستمبر 1977 کی بات ہے کہ وائجر ون خلائی  جہاز نے “زمین” کو خیر باد کہا اور اپنی  منزل کی طرف روانہ ہوا۔ وائجر ون ناسا کے جن انجینئرز نے بنایا تھا اگرچہ وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن انکا مشن تا حال اپنی منزل کی جانب بڑھ رہا ہے۔ یہ مشن بنیادی طور پر دو حصوں پر مشتمل تھا۔ مشن کے پہلے حصے میں وائجر ون کو مشتری اور زحل کا تفصیلی جائزہ لینا تھا۔ وائجر ون مسلسل دو   سال  تک مذکورہ سیاروں کا جائزہ لینے کے بعد یورینس اور نیپچون کی طرف روانہ ہوگیا ، اور تقریباً چار پانچ سال تک مسلسل یورینس اور “نیپچون” کے گرد پاگلوں کی طرح گھومتا رہا، وائجر ون نے مشتری کے پاس سے گزر نے میں دو سال کا وقت لیا، مگر وہاں سے جو ڈیٹا بھیجا اس میں کوئی انفارميشن نہیں تھی، وہ ایسے “سگنلز” بھیجتا رہا جیسے اس پر مسلسل فائرنگ ہورہی  ہو۔

ناسا میں بعض فلکیات دان تو یہ کہنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ وائجر ون پر خلائی  مخلوق فائرنگ کررہی ہے ، لیکن بعد میں پتا چلاکہ وہ فائرنگ نہیں بلکہ مشتری پر “طوفان” سے نکلنے والی ویوز تھیں،  جس کو وائجر ون مسلسل “detect” کررہی تھی۔ مشن کے دوسرے حصے کے مطابق وائجر ون کو ہمارے نظام شمسی کے باہر تک سفر کرنا تھا ۔ چونکہ وائجر ون پہلے مشن کے پہلے حصے میں کامیاب رہا ، جب کہ مشن کا دوسرا حصہ قدرے مشکل ہے، اور وہ ہم شاید دیکھ نہیں پائیں گے۔ وائجر ون اس وقت ہم سے تقریباً 32 بلین کلو میٹر کی دوری پر ہے۔  یہ ہم سے اتنی دوری پر ہے کہ اس کا ایک سگنل زمین پر پہنچتے پہنچتے 22 گھنٹے کا وقت لیتا  ہے ۔ امریکہ میں اگر آپ کسی دوست سے بات کرتے ہیں  تو آپکا ایک ہیلو یہاں سے وہاں سیکنڈ کے “ہزارویں” حصے میں پہنچتا ہے،  اس سے آپ خود اندازہ لگائیں کہ یہ مسافر ہم سے کس قدر دور جا چکا ہے کہ اس کا ایک “ہیلو” 22 گھنٹے میں پہنچتا ہے یہ انسانی ہاتھوں کی بنائی ہوئی واحد ایسی چیز ہے،  جو 46 سال بعد بھی ہم سے “رابطے” میں ہے، سال میں کبھی کبھی رابطہ منقطع ہوجاتا ہے۔ لیکن ناسا انجنیئرز کی ٹیم اس کو پھر سے ٹھیک کردیتی ہے۔۔ اس وقت بھی یہ مسافر ہم سے پتا نہیں کیوں ناراض ہوگیا ہے کیونکہ دو تین ہفتے سے ہم سے رابطہ نہیں کرپا رہا ہے۔

وائجر ون اس وقت 61,000 کلو میٹر فی “گھنٹہ” کی رفتار سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے  اور مسلسل ہم سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ جیسے جیسے “وائجر ون” ہم سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ ڈیٹا ٹرانسمیشن سپیڈ کم ہوتی جا رہی ہے ۔ چونکہ ہم جانتے ہیں کہ زمین مسلسل گھوم رہی ہے ، کبھی امریکہ نیچے تو کبھی اوپر رہتا ہے  اور ناسا امریکہ کا خلائی  ادارہ ہے  اور وائجر ون ناسا نے لانچ کیا ہوا ہے، اس وجہ سے وائجر ون جو ڈیٹا بھیجتا ہے، چونکہ ناسا سٹیشن کبھی کبھی زمین کی سپن موشن کی وجہ سے وائجرون کرافٹس کے مخالف سمت ہوا کرتا تھا اور اس طرح وائجر ون کا بھیجا ہوا ڈیٹا ضائع ہو جاتا تھا ۔ چنانچہ ناسا نے اپنے ڈیپ سپیس نیٹ ورک کو مزید expand کیا  اور امریکہ کے ساتھ ساتھ اپنے ڈیپ سپیس نیٹ ورک کو آسٹریلیا اور سپین میں بھی لگادیا ۔ تاکہ ہر وقت کوئی ایک اسٹیشن مسلسل وائجر ون سے رابطے میں رہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ناسا کا ڈائریکٹر سر کارل سارگان جو اب اس دنیا میں نہیں ہے، کے حکم پر ناسا نے 1990 میں “وائجر ون” کے ذریعے اپنی آخری تصور لی تھی جو بلیو ڈاٹ کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں زمین ایک نقطہ کی طرح نظر آ رہی ہے۔اسکے بعد وائجر ون کے کیمرے کو بند کر دیا گیا تھا، وائجر ون کے کیمرے اور باقی الیکٹرانکس آلات نیوکلیئر پاور سے چلتے ہیں ، جب کہ ان کو مصروف کار رکھنے کے لیے کسی قسم کی توانائی کی ضرورت نہیں پڑتی۔  ناسا سائنس دانوں نے حال میں بیان دیا تھا کہ وائجر ون سال 2025 تک ہم سے رابطے میں رہے گی،  لیکن ہم کو کیا معلوم تھا  کہ وائجر و ن ہم سے ناراض ہوکر یوں قبل از وقت ہمیں تنہا چھوڑ دے گی۔ ۔ اس وقت وائجر ون میں ایک مسئلہ آیا ہوا ہے، وہ اس طرح کہ یہاں سے وائجر ون “سگنلز” تو برابر وصول کرتی رہی ہے، لیکن واپس نہیں بھیج رہی، ناسا انجینئرز تقریباً دو ہفتے سے وائجر ون کو ٹھیک کرنے میں لگے ہوۓ ہیں ۔ لیکن ابھی تک کوئی کامیابی نہیں ملی اور اگر مزید دس بارہ دنوں میں بھی کامیابی نہیں ملی،  تو یہ مسافر ہم سب کو چھوڑ کر ہمیشہ کیلئے ایک گمنام دنیا میں داخل ہوجائے  گا”۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply