کیا کھڑکانا ہے ؟۔۔سلیم مرزا

جدہ شہر , اور میں تھا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سائن بورڈ کا کام کرنے کیلئے ایک دکان کرایہ پر لے لی۔ایگریمنٹ کے حساب سے دکان میں ٹیلی فون تھا ۔قبضہ لیا تو ٹیلی فون غائب ۔
مالک دکان دو بہنیں ،ایک بھائی ،بندر نام کا بھائی تھا ۔ بہنیں استانیاں تھیں اور بندر حفیظ شیخ سے بھی بڑا ماہر معاشیات تھا ۔میں نے ایک دن پوچھا یار بندر تمہاری ابھی تک شادی کیوں نہیں ہوئی
کہنے لگا ” باجی کا رشتہ دیکھنے کچھ لوگ آئے ہوئے تھے ۔۔
جلد ہی ہوجائے گی ۔”
میں اس کی ذمہ دارانہ طبیعت دیکھ کر بہت متاثر ہوا ۔
پھر خود ہی کہنے لگا .
“باجی کے جو پیسے ملیں گے اس سے ایک تو نئی گاڑی لوں گا اور باقی پیسے دیکر اپنی بیوی لے آؤں گا ۔”
مجھے حساب سمجھ نہیں آیا میں نے کہا
“یا شیخ ،باجی کے بدلے باجی ،مطلب تمہاری بیوی تو سمجھ آتی ہے ۔یہ مرسڈیز کہاں سے آئے گی”؟
“باجی سات ہزار ریال ماہانہ کی استانی ہے ،سات لاکھ تو ہنس کر مل جائیں گے ۔میں تین چار لاکھ والی لے لوں گا ”
بندر اگر پاکستان میں ہوتا وزارت حج میں ٹھیکیدار ہوتا یا نجکاری کا وزیر ۔
مجھے عربی  پر بھی اتنا عبور تھا کہ عربی مجھ سے بات کرنے کیلئے ترجمان ساتھ لے کر آتے ۔
میری بات “ھذا ان” سے شروع ہوتی اور “ھذا آؤٹ” پہ ختم ہوجاتی
جہالت تب پکڑی گئی جب بلدیہ والوں نے کہا کہ ورکشاپ کے شیشے پہ لکھ کر لگاؤ “خواتین کا داخلہ ممنوع ہے ”
اپنا تو کام ہی سائن بورڈ کا تھا ۔ فورا ًایک قریبی درزی کی دکان سے جاکر پڑھ آیا اور لکھ دیا
“ممنوع الدخل النساء ”
کوئی مہینہ بھر لکھا رہا ،خواتین کی بیحرمتی ہوتی رہتی اگر وہ ایک پڑھا لکھا گاہک نہ آجاتا ۔
کہنے لگا۔۔
“حرام علیک یا صدیق ”
یہ کیا واہیات بات لکھی ہے ۔مانا کہ فطرت ہے مگر یہ آپ کے پی ایم ہاؤس کا چوتھا فلورنہیں ۔
اس نے تصحیح کروائی اور اپنی نگرانی میں ممنوع الدخول النساء “لکھوایا۔
شکر ہے بچ بچا ہوگیا ورنہ اپنے ہاں تو رحمن ملک بھی وزارت داخلہ کو “دخل النساء “کا ہی محکمہ سمجھتا رہا۔
بات ہورہی تھی ٹیلی فون کی ۔
میں نے بندر سے کہا “بھائی دیکھ تیری دو بہنیں ہیں ۔ پاکستان ہوتا تو میں ایک فون اور لگوا لیتا۔مگر یہاں تمہاری بہن سنتھیا کی طرح سب کی بہن ہے۔لہذا اتنے شرعی قوانین میں مجھے فون ہی چاہیے ۔
بندر کوے سے زیادہ سیانہ تھا ،کہنے لگا
“ہونے والا بہنوئی پیسے دیتا ہے تو میں فون لگوا دوں گا ۔
تب تک آپ اور باجیاں مل کر استعمال کرو ”
مالک سے کیا بحث کرنی ۔چنانچہ فون میں نے رکھ لیا ،اور ایکسٹینشن انہیں دیدی ۔
یوں حکومت اور ادارہ ایک پیج پہ آگیا ۔بندر نے بتایا کہ اگر ہمارا فون آجائے تو کہنا ری ڈائل کریں ۔اس نے عربی میں کچھ بتایا ۔جو میں بھول گیا ۔
اگلے دن ہی ان کا فون آگیا ۔پاس کھڑے ایک پرانے مستری ٹائپ پاکستانی سے پوچھا
” دوبارہ فون کھڑکانے کیلئے کیا کہوں” ؟
کہنے لگا “دقو ثانی مرہ ” (دوبارہ کھڑکاؤ )
میں نے کہہ کر فون بند کردیا ۔یہ سلسلہ کوئی دوماہ چلا کہ ایک دن بندر کی ایک بہن “ممنوع الدخول النساء “کو نظر انداز کرتی رحیم شاہ کی طرح دکان میں گھس آئی ۔
کہنے لگی
” کیا بکواس ہے ۔جب بھی کوئی  مجھ سے بات کرنے کیلئے فون کرتا ہے  تم کہتے ہو دوبارہ کھڑکاؤ ۔”
میں نے عربی میں اپنی صفائی دینے کی کوشش کی تو اس پہ میری اسمارٹنیس اور علمیت جرمنی سے جاپان تک واضح ہوگئی ۔حسین ترین استانی کہنے لگی
“ابھی میرے سامنے کاغذ پہ بیس بار لکھو ۔ “اتصل مرہ ثانیہ ” (دوبارہ رابطہ کریں)
اور مجھے پڑھے بغیر سناؤ ۔”
میں نے لکھا ۔پڑھے بغیر سنایا ،اور پپو پاس ہوگیا ۔
پیپلز پارٹی کو بھی چاہیے کہ بندر کی بہن نے اگر چڑھائی کر ہی دی ہے تو ادھر اُدھر خجل ہونے کی بجائے سیدھا ایکسٹینشن والوں سے پوچھ لیں کہ سرکار دوبارہ کھڑکانے کا پرگرام ہے  کہ رابطے کا موڈ ہے ۔؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کیا کھڑکانا ہے ؟۔۔سلیم مرزا

  1. ھاھاھا۔ بہت بڑہیا سر۔ پرلطف تحریر، بات سے بات اور انتہائی شگفتہ رواں لہجہ۔ لفظوں سے کھیلنا کوئی سلیم مرزا سے سیکھے۔ سلیم بھائی فیسبک کے یوسفی ہیں۔

Leave a Reply