دریائے سندھ کا نوحہ۔۔بنتِ شفیع

کچھ عرصہ قبل ٹھٹھہ سے تھر کی طرف سفر کے دوران ہماری گاڑی دریائے سندھ پر بنے پل پرسے گزری ،تا حدِ نظر،اڑتی ریت سوکھی جھاڑیاں جیسے پیاسے صحرا کا کوئی  منظر اور اونچے نیچے مٹی کے ٹیلے اور کہیں دریا اور کنارے کی سطح برابر جیسے کوئی  بنجر زمین۔کیا یہ دریائے سندھ ہے جس کا شمار دنیا کے عظیم ترین دریاؤں میں ہوتا تھا ۔؟میں نے خود سے سوال کیا۔جب میں نے دریائے سندھ سے متعلق پڑھا تو ایک عام قاری کی حیثیت سے ان معلومات نے مجھے ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔جتنے بڑےعلاقے کا پانی یہ دریااپنے ساتھ لےکر آتا تھا اس کا مجموعی رقبہ پاکستان کے رقبے سے بھی زیادہ ہوتا تھا۔دریائے نیل سے دوگنا پانی لانے والا دریائے سندھ ۔ پنجند کے مقام پر 5 دریاؤں کے پانی کو اپنے اندر سما لینے والا دریا٫ایسا اجاڑ ،کہ جیسے پانی کی بوند بوند کو ترستا صحرا۔تڑپا دینے والا منظر تھا۔

ولیم میور کرافٹ اور سیون ہیڈن کی تحقیق کے مطابق دریائےسندھ کا نقطئہ آغاز مانسرو جھیل سے40 کلو میٹر اوپر,سنگی کباب،جہاں سے بہنے والی گارتنگ یا گار تانگ ندی دریائے سندھ کا نقطئہ آغاز ہے۔سنگی کباب کامطلب شیر کے منہ والا۔اسی مناسبت سے دریائے سندھ کو شیر دریا بھی کہا جاتا رہا ہوگا۔ شیر جیسی خاصیت کے بہاؤ میں تند خو لہریں  اپنے سامنے آنے والی ہر چیز کو تہہ و بالا کردیتی ہوں گی۔مختلف وقتوں میں اس کے مختلف نام تھے صدیوں پہلے جب ایرانی حکومت کا دائرہ اثر گندھارا تک تھا تو وہ اسے ہندو کے نام سے پکارتے تھے۔بعد میں سنسکرت سندھو ہوگیا سندھ اسی کے نام پر ہے۔چونکہ اس کا ایک نام انڈس ہے ۔انڈیا کا نام بھی اسی سے لیا گیا۔اور خیبر میں اسے اباسین یعنی دریاؤں کا باپ کہتے ہیں۔اوراس کے نیلگوں پانی کی مناسبت سے اسے ,نیلاب،کانام بھی دیا گیا۔اور اس کا ایک نام جھولے لال بھی ہے۔

حملہ آور زمانہ قدیم سے ہی اس دریا کو عبور کر کے بر صغیر میں داخل ہوتے تھے۔اسی دریا کے کنارے قدیم تہذیبوں نے جنم لیا۔دنیا کی قدیم ترین قوم دراوڑ جو ایک مہذب اور متمدن تہذیب تھی اسی قوم میں بھگوان کے اوتار کرشن نے جنم لیا ۔اور کرشن نے اپنی تعلیم میں ایک واحد خدا کی پر ستش کی تعلیم دی۔گویا قادر مطلق اللہ کی واحدانیت اس خطے کے باشندوں میں ابتداء ہی سے تھی شرک تو بہت بعد میں آیا ۔بطور خاص اس وقت جب آریا قوم نے اسی دریائے سندہ کو عبور کر کے یہاں کے باشندوں کو لڑائی  میں شکست دے کر اپنا غلام بنا لیا ۔جو یہاں کے حقیقی باشندے تھے انہیں شودر بنا دیا۔اپھر اسی دریا کے کنارے آریاؤں نے اپنی مقدس کتاب رگ وید لکھی۔رگ وید میں اس دریا کی تعریف میں بہت سے اشلوک ہیں۔اور انہوں نے اس دریا کو اتنا مقدس بنا دیا کہ ہندو آج بھی اس کی پوجا کرتے ہیں۔دارا و سکندر اعظم کے لشکر دریائے سندھ کو پار کر کے یہاں پہنچے ،کہتے ہیں کہ سکندرنے جب راجہ پورس کو شکست دی تو اس شکست خوردہ بادشاہ سے پوچھا ،کہ تمھارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔تو پورس نے بے خوفی سے کہا جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ کے ساتھ کرتا ہے۔یہ جواب ارسطو کے شاگرد سکندر اعظم کو اتنا پسند آیا کہ اس نے راجہ پورس سے جیتے سب علاقے اسے واپس کردیے۔سکندر اعظم نے دریائے سندھ کو بطور خاص وہاں جاکر دیکھا جہاں دریا سمندر میں گرتا تھا۔اب بھی جب سیلاب آتے ہیں تو اسی دریا کے راستے پانی  سمندر میں جا گرتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

دریائے سندھ اپنے کنارے بسنے والے علاقے، بستیوں کے لیےخدا تعالیٰ بزرگ و برتر کی طرف سے عظیم عطا ہے جو لوگوں کے لیے روزی رساں ہے۔دریائے سندھ اپنے ساتھ بہا کر لانے والی زرخیز مٹی ریت کی وجہ سے بھی خطے کے لیے خیر بنا رہا،آج وہی ریت اور مٹی اس دریا کی بربادی پر نوحہ کناں ہے۔لوگ صحرا میں اپنے گھروں میں کنویں بنا لیتے ہیں جب رحمت خداوندی بارش کے صورت برستی ہےتو اہل تھر بارش کا پانی ان کنووں میں جمع کر لیتے ہیں اور دوسری بارش تک یہی میٹھا پانی پیتے ہیں۔ کاش  جن بستیوں اور علاقوں کے قریب سے یہ دریائے سندھ گزرتا ہے وہاں دریا کی بھل صفائی اورگہرائی کے کام کئے جاتے. ضرورت اس امر کی ہے کہ ارباب اقتدار ضروری اقدامات اٹھائیں تاکہ  بارش کا  اورسیلابی پانی بجائے سمندر میں گرکر ضائع ہونے کے عوامی اور معاشی استعمال میں آسکے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply