کالم پڑھنے سے طلاق ہو جانے کا بِل۔۔نذر حافی

خبریں بھی چھوٹی اور بڑی ہوتی ہیں۔ سُپر لیڈ، لیڈ اور اداریے میں ہر خبر کو جگہ نہیں ملتی۔ کچھ خبریں تو اتنی چھوٹی ہوتی ہیں کہ انہیں ڈھونڈنے کیلئے خوردبین کی ضرورت پڑتی ہے۔ خبروں کے بڑے اور چھوٹے ہونے کا انحصار مُلکی مفاد اور مُلکی سلامتی و پالیسی پر ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ مُلکی سلامتی اور مُلکی پالیسی کو طاقتور لوگ تشکیل دیتے ہیں۔ چنانچہ طاقتور لوگوں کا کسی کی سالگرہ کا کیک کاٹنا، حج اور عمرے پر چلے جانا، اُن کا پاوں پھسل جانا، اُنہیں زکام اور بخار ہو جانا، کسی کی فاتحہ پڑھنے چلے جانا، کسی کے جنازے میں شریک ہو جانا، نمازِ عید کیلئے ٹوپی پہن لینا، ان کے بچوں کا ولیمہ ہو جانا، ان کا کسی مسئلے پر ٹویٹ کرنا، ان کی گاڑی کے ٹائر کا پھٹ جانا، اُن پر ٹماٹر پھینکے جانا، اُن کا کسی کو تھپڑ مارنا یا انہیں کسی کا تھپڑ لگنا، اُن کا غریبوں کی حالتِ زار پر آنسو بہانا، اُن کی گاڑی کا چالان ہونا یا ان کی گاڑی کا ٹریفک سگنل پر نہ رُکنا۔۔۔ یہ سب ہمارے ہاں کی بڑی بڑی خبریں ہیں۔

ہمارے میڈیا میں ان بڑی بڑی خبروں کے درمیان چھوٹی موٹی خبریں کہیں جگہ ہی نہیں بنا پاتیں۔ ہمارے اینکرز حضرات، کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں کی ترجیحات میں بھی چھوٹی موٹی خبریں شامل نہیں ہوتیں۔ مثلاً اسی مہینے میں 5 جنوری کو آزاد کشمیر جیسے حساس منطقے کے ضلع پونچھ میں عباس پور کے مقام پر تکفیری دہشت گردوں نے مہمان کے روپ میں ایک گھر میں داخل ہو کر صاحبِ خانہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ آزاد کشمیر جو کہ تحریکِ آزادی کا بیس کیمپ ہے، اس میں یہ اپنی نوعیت کا دوسرا واقعہ ہے۔ اس سے چند سال پہلے مظفر آباد میں بھی ٹارگٹ کلنگ کا ایک واقعہ ہوا تھا، جس میں مولانا تصوّر جوادی صاحب کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ دونوں مرتبہ حملہ آوروں کے چہرے سے نقاب نہیں ہٹائی گئی۔ کسی نے نہیں بتایا کہ حملہ آوروں کو کس نے ٹریننگ دی؟ ان پر کس نے سرمایہ کاری کی؟ کون سہولتکار بنے۔؟ تحریکِ آزادی کو کمزور کرنے کیلئے کہیں ان قاتلوں کے پیچھے ہندوستانی ایجنسیاں تو سرگرم نہیں؟ آزاد کشمیر میں ان فرقہ پرستوں کے ٹھکانے کہاں کہاں ہیں اور ان کی سپلائی لائن کہاں کہاں سے گزرتی ہے۔؟

اس حوالے سے ہمارا میڈیا، کالم نگار، فیچر رائٹرز اور تجزیہ کار سب خاموش ہیں۔ خاموشی اس لئے بھی ضروری ہے، چونکہ جنّت کے حصول کیلئے دوسروں کو مارنا یہ ہمارا معمول بن چکا ہے۔ اس لئے ایسی خبروں کو بڑی خبروں میں جگہ نہیں دی جا سکتی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک نامور صحافی قیس جاوید مسیح کو بھی اُن کے گھر میں قتل کر دیا گیا تھا۔ مقتول کو ہماری ریاستِ مدینہ میں مدینہ کالونی کے اندر دو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کرکے مار دیا۔ قیس جاوید مسیح کے قاتلوں کی گرفتاری کیلئے صحافی حضرات، مسیحی برادری اور اُن کے لواحقین نے بہت چیخ و پکار کی، لیکن نامعلوم کو کون گرفتار کرسکتا ہے! ویسے بھی جب مقتول مسیح ہے تو پھر قتل کرنے والوں کو پھولوں کے ہار تو پہنائے جا سکتے ہیں، لیکن اُنہیں بے نقاب تو نہیں کیا جا سکتا۔

ہم نامعلوم قاتلوں کو کیا بے نقاب کریں گے! دین کے نام پر ہماری تربیت ہی ایسی کی گئی ہے کہ ہم کسی دوسرے مسلک والے مسلمان کی نمازِ جنازہ میں شرکت نہیں کرسکتے، چونکہ اس سے ہمارا ایمان باطل ہو جاتا ہے۔ ہم علامہ محمد اقبال اور قائداعظم کے فرمودات سے کہیں استدلال نہیں کرسکتے، چونکہ یہ ریشِ مبارک کو تراشا کرتے تھے۔ ہم فیض احمد فیض کے اشعار سے استفادہ نہیں کرسکتے، چونکہ وہ کامریڈ تھے۔ ہم سر سید احمد خان کی کتابوں کا مطالعہ نہیں کرسکتے، چونکہ موصوف مغرب کے ذہنی غلام تھے۔ ہم میلاد النّبیﷺ یا عزاداری امام حسینؑ کے جلسے، جلوسوں میں نہیں جا سکتے، چونکہ وہاں جانے سے ہم کافر ہو جاتے ہیں، ہم کسی کو دیوالی یا کرسمس کی مبارکباد نہیں دے سکتے، چونکہ اس سے ہم مشرک ہو جاتے ہیں۔۔۔

مشرک اور کافر ہونے سے بچتے بچاتے گذشتہ دنوں ہم نے تنویر مطہری صاحب کا ایک کالم پڑھا۔ وہ ڈیرہ اسماعیل خان کے اہلِ تشیع کے بارے میں لکھتے ہیں کہ “چند دہائیوں سے ڈیرہ اسماعیل خان شیعہ حضرات کیلئے ایک بے صدا مقتل بن چکا ہے۔ کئی دہائیوں سے نہتے لوگوں کے اغوا اور قتل کا سلسلہ جاری ہے۔ ہمارے گھر ماتم کدے اور بازار قبرستان بن چکے ہیں۔ گلی کوچوں میں جنگل کی وحشت رقص کر رہی ہے۔ لگتا ہے کہ یہاں نہ قانون ہے اور نہ حکمران۔ یہاں نہ انسان ہے اور نہ انسانی حقوق، یہاں نہ ہی تو کوئی زندہ ہے اور نہ انسانی زندگی کا احترم دکھائی دیتا ہے۔ میڈیا خود مرچکا ہے، میڈیا پرسنز یا بک چکے ہیں اور یا پھر ڈر کر اپنی جان بچانے اور پیٹ پالنے کی فکر میں ہیں۔ لوگوں کو اغوا کیا جا رہا ہے۔ اغوا کنندگان کروڑوں روپے تاوان مانگ رہے ہیں۔ ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں۔ لوگ واویلا کر رہے ہیں۔ نہ چیف آف آرمی اسٹاف تک ہماری آواز پہنچتی ہے، نہ صدرِ پاکستان کو ہم پاکستان کے شہری نظر آتے ہیں، نہ وزیراعظم کوئی ایکشن لیتے ہیں، نہ انسانی حقوق کی تنطیمیں اس سکوت کو توڑتی ہیں اور نہ ہی دیگر تنظیمیں ان مظلوم لوگوں کے دفاع کیلئے میدان میں آتی ہیں۔”

انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ “ہمارے بزرگان بتاتے ہیں کہ ڈیرہ کو “ڈیرہ پھولوں کا سہرا” کہا جاتا تھا۔ اس کی وجہ لوگوں کا آپس میں مل جل کر رہنا اور پیار و محبت و الفت سے پیش آنا تھا اور ایک دوسرے کی خوشیوں و غموں میں برابر شریک ہونا تھا۔ برادریوں کی کوئی قید نہیں تھی، قومیت سے بالاتر سوچ تھی، سنی و شیعہ کی تقسیم نہیں تھی۔ جنازوں پر سیاست نہیں کی جاتی تھی۔ یعنی مسلکی اختلافات سے بالاتر روابط قائم تھے۔ نہ زبان کا امتیاز، نہ لباس میں فرق۔۔۔” اب یہ نہ سمجھئے گا کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں صرف مسیحی برادری یا شیعہ حضرات تختہ مشق بنے ہوئے ہیں بلکہ آپ ڈیرہ اسماعیل خان کی چھوٹی موٹی خبروں پر نگاہ رکھیں تو آپ دیکھیں گے کہ وہاں سُنّی، شیعہ، مسیحی، وغیرہ کوئی بھی انسان محفوظ نہیں، اگر محفوظ ہے تو صرف اور صرف نامعلوم محفوظ ہے۔ اس صورتحال کو سمجھنے کیلئے کسی نے کیا خوب مثال دی ہے کہ ایک خودکُش بمبار کو جب حملے کیلئے بھیجا جانے لگا تو اُس نے پوچھا کہ کس پر حملہ کروں؟ اہلِ تشیع کی مجالس اور جلوسوں پر یا اہلِ سُنّت کی محفلِ میلاد اور درباروں پر، مسیحیوں کے چرچوں پر یا ہندووں کے تہواروں پر۔۔۔ تو اُس کے آقا نے کہا کہ فرقہ پرستی سے بلند ہو کر سوچو اور جو بھی ملے اُس پر حملہ کر دو۔

جی ہاں ہم سب کا دشمن، انسانیت کا دشمن ہے۔ وہ صرف شیعہ یا سُنی یا عیسائی کا دشمن نہیں ہے، وہ انسانی اقدار اور معاشرتی امن و سکون کا دشمن ہے۔ وہ بغیر کسی تفریق کے ہم سب پر حملہ آور ہے۔ ہمارا مشترکہ دشمن ہم میں سے کسی کو معاف نہیں کر رہا، لیکن ہم اپنی اپنی مصلحتوں کی وجہ سے اُس مشترکہ دشمن کے خلاف نہیں بول رہے۔ ہمارے سامنے نہتے لوگ اغوا اور قتل ہو رہے ہیں، لیکن ہم ان مرنے والوں اور اغوا ہونے والوں کی خبر تک نہیں چھاپ رہے کہ کہیں ہم کافر نہ ہو جائیں، ہم مظلوموں کی آواز نہیں بن رہے کہ کہیں ہم مشرک نہ ہو جائیں، ہم اسلحے کی اسمگلنگ، اغوا برائے تاوان اور منشیات کے خلاف ایک جملہ تک نہیں لکھ پا رہے کہ کہیں ہمارا فرقہ بدنام نہ ہو جائے، ظالم وڈیروں اور جابر سیاستدانوں کے خلاف عوام کو شعور نہیں دے رہے کہ کہیں ہماری پارٹی کو دھچکا نہ لگ جائے۔ بے کسوں اور مجبوروں کی مظلومیت پر چند حروف تک نہیں لکھ رہے کہ کہیں دہشت گردوں کو پالنے والے ہمارے مدرسے اس کی زد میں نہ آجائیں۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میرے قلمکار دوستو! اس فرصت کو غنیمت جانو! مظلوموں کے حق میں دو لفظ لکھ لو اور دو جملے بول لو، اس سے پہلے کہ سیاسی پارٹیاں مقدس گائے بن جائیں، وڈیرے جمہوری مقدسات میں شامل ہو جائیں، کرپشن اور دھونس، آئینی طور پر سیاسی اقدار میں شامل ہو جائے۔ لکھیئے انسانیت کے دفاع کیلئے لکھیئے! اس سے پہلے کہ خون آشام مولویوں اور مفتیوں کی اسمبلیوں میں پیش کی گئی قراردادیں دستورِ الِہی بن کر آپ کے گلے کا پھندا بن جائیں۔ اگر آپ کے سینے میں انسانیت کا درد ہے! اور اگر آپ کا ضمیر زندہ ہے تو پھر یہ وقت ہے ظالموں کے خلاف لکھنے کا۔ لکھیئے! اس سے پہلے کہ جب آپ کے کالم پڑھنے سے طلاق ہو جانے اور نکاح ٹوٹ جانے کا بِل اسمبلی میں پیش ہو جائے۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply