کسان خواتین کو درپیش صحت کے مسائل/ڈاکٹر نوید فرح، قرسم فاطمہ

“اور اسی نے آسمان سے پانی اتارا، پھر ہم نے اس سے ہر چیز اگنے والی نکالی پھر ہم نے اس سے سبز کھیتی نکالی جس سے ہم ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے دانے نکالتے ہیں، اور کھجور کے شگوفوں میں سے پھل کے جھکے ہوئے گچھے ہیں، اور باغ ہیں انگور اور زیتون اور انار کے آپس میں ملتے جلتے اور جدا جدا بھی، دیکھو ہر ایک درخت کے پھل کو جب وہ پھل لاتا ہے اور اس کے پکنے کو دیکھو، ان چیزوں میں ایمان والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔”

(انعام: ۹۹)

اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو فطرتِ تحقیق پر پیدا کیا ہے۔ انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کا شرف بھی اسی لیے حاصل ہے کہ اس میں دیگر مخلوقات کے برعکس سوچ، جستجو اور عمل کا عنصر نمایاں ہے جو اسے دیگر تمام مخلوقات سے برتر بناتا ہے۔ جیسے اللہ نے انسان کو ایک خاص فطرت پر پیدا کیا ہے، اسی طرح اس کے رہن سہن کے لیے تخلیق کردہ کائنات کو بھی ایک منظم نظام کے ساتھ تخلیق کیا ہے۔ اس کی عمدہ مثال ہمیں یوں ملتی ہے کہ خداوندِ تعالیٰ نے انسان کو مصروفِ عمل رکھنے کے لیے روئے زمین پر اس کے لیے مختلف سرگرمیوں کا نظام پیدا کردیا اور یہ سلسلہ روزِ اول سے جاری ہے۔ کھیتی باڑی، زراعت، کاشتکاری، تجارت اور ایسے دیگر شعبہ جات انبیاء کرام علیہ سلام سے لے کر عصرِ حاضر تک جاری ہیں۔ اگر ہم زراعت کے شعبے کی جانب نظر دوڑائیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ حضرت یوسف علیہ سلام نے زراعت کے شعبے کا مرکزی نظام متعارف کروایا جس میں خوراک کو کثرت میں ذخیرہ کر کے ایک منظم طریقۂ کار سے لوگوں کو مہیا کیا جاتا تھا۔

جوں جوں زمانہ گزرتا گیا، زراعت کے شعبے میں بھی جدّت آتی گئی۔ جہاں پہلے چند افراد ہاتھ کی محنت سے فصلوں میں کام کرتے اور خوراک کا ذخیرہ کیا کرتے تھے، آج کے دور میں لاکھوں کی تعداد میں کسان کاشتکاری اور زراعت کے شعبے سے منسلک ہیں جن میں نہ صرف مرد بلکہ خواتین کی بھی کثیر تعداد شامل ہے جو زرعی شعبے کی ترقی میں مصروفِ عمل ہیں۔ فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں زرعی لیبر فورس کا 43% حصہ خواتین پر مشتمل ہے۔ پاکستان اکنامک سروے کے مطابق ملک کی GDP کا 20% زراعت پر منحصر ہے اور اس شعبے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں خواتین کا بھی ایک اہم حصہ شامل ہے۔

پاکستان میں خواتین بیچ بونے اور فصل کاٹنے سے لے کر زرعی مصنوعات تیار کرنے اور خرید و فروخت کرنے تک، زراعت کے مختلف پہلوؤں سے منسلکہ ہیں۔ ملکی معیشت میں ترقی کے حوالے سے ایک جانب تو خواتین کا زرعی شعبے میں کردار قابلِ ذکر ہے مگر دوسری جانب نظر دوڑائیں تو زرعی شعبے کی وجہ سے خواتین کو درپیش صحت کے مسائل بھی بے شمار ہیں۔ چونکہ خواتین کی جسمانی صحت مردوں کی نسبت کمزور ہوتی ہے اس لیے ایسے شعبہ جات میں ان کی صحت کو سنگین مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ بالخصوص دیہاتوں میں رہائش پذیر خواتین جو گندم، روئی، کپاس، چاول اور دیگر فصلوں میں کام کرتی ہیں، انہیں مختلف بیماریاں لاحق ہیں جن میں ہارمونز کے مسائل، کھانسی، سانس کی تکلیف، بچوں کی پیدائش کے مسائل، حیض کے مسائل، ذہنی تھکاوٹ، ہاتھوں پر زخموں کے نشانات، بدلتے موسموں کے باعث چہرے کا جھلسنا، آنکھوں میں سرخی، فصلوں میں استعمال ہونے والی ادویات اور سپرے کے نتیجے میں ہونے والے مختلف جسمانی مسائل شامل ہیں۔؎

ایک رپورٹ کے مطابق کپاس چننے والی خواتین تھکاوٹ اور ذہنی بیماریوں کا شکار رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ کپاس چننے والی خواتین کے ہاتھوں بالخصوص انگلیوں کی پوروں پر زخموں کے نشانات واضح رہتے ہیں اور زہریلی طرز کی آلودگی کے باعث انہیں سانس کی تکلیف کا بھی سامنا رہتا ہے۔ چونکہ خواتین میں اوسطاً ایڈیپوز ٹیشوز کی سطح نسبتاً زیادہ ہوتی ہے اور انہیں حیض، حمل اور رجونورتی کے دوران ہارمونل تبدیلیوں کا بھی سامنا رہتا ہے اس لیے ان میں آلودہ ماحول سے کیڑے مار ادویات کو جذب کرنے کا امکان زیادہ رہتا ہے جس کے صحت پر نقصان دہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ گندم کی کاشت کرنے والی خواتین میں عضلی استخوانی تکالیف کا زیادہ خدشہ رہتا ہے۔ چاول کی کاشت کرنے والی خواتین میں ایک سروے کے مطابق کمر درد کی تکلیف نسبتاً زیادہ پائی جاتی ہے۔ چاول کی کاشت کرنے والی ایک خاتون نے انٹریو کے دوران بتایا کہ “ہمیں جھک کر فصلوں میں کام کرنا پڑتا ہے اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب میں اٹھنا چاہوں تو کمر میں شدید تکلیف کے باعث میں اٹھ نہیں پاتی” اس سے واضح طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ زرعی شعبہ جات میں کام کرنے والی خواتین کس قدر ذہنی و جسمانی تکالیف میں مبتلا رہتی ہیں۔ ایسی تمام خواتین چونکہ دیہاتی علاقوں سے تعق رکھتی ہیں جس کی وجہ سے انہیں نہ بہتر خوراک کی سہولیات میسر ہیں نہ علاج کی۔

اس کے بارے میں ایک سروے رپورٹ کے دوران ایک خاتون کا کہنا تھا کہ “اگر آپ کے پاس دولت ہے تو آپ کسی پرائیوٹ ہسپتال میں علاج کرواسکتے ہیں ورنہ گھر میں سسکتے رہنے اور مرجانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔” اس کے علاوہ وہ خواتین جو فصلوں میں حشرات کش دوا کے عمل میں شامل رہتی ہیں، وہ سینے میں تعفن، پھیپڑوں کی تکلیف، دمہ اور چھاتی کے سرطان جیسے انتہائی امراض میں مبتلا رہتی ہیں۔ ان ادویات کے باعث ایسی خواتین میں cholinesterase ایک ابنارمل حد تک بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے دل کی شرح میں کمی، اسہال، آنکھ کی پتلیوں کا سکڑنا، خون کے دباؤ میں کمی اور ایسی کئی بیماریاں جنم لیتی ہیں جن کا علاج بالخصوص دیہی علاقوں میں ناممکن ہوجاتا ہے۔ فصلوں میں اسپرے کے باعث بھی خواتین کو ایسے ہی بے شمار صحت کے مسائل سے دوچار رہنا پڑتا ہے۔ حاملہ خواتین جب اس عمل میں شمولیت اختیار کرتی ہیں تو ان کمیکلز سے لاحق ہونے والی سانس کی بیماریاں بچوں کے لیے شدید نقصان کا باعث ثابت ہوتی ہیں اور ایسے بچے پیدائشی طور پر مختلف دیرینہ امراض میں مبتلا رہتے ہیں۔

زرعی شعبے میں کام کرنے والی خواتین کس قدر سنگین تکالیف سے وابستہ رہتی ہیں، ہم اس کا ادراک قطعاً نہیں کرسکتے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر خواتین کی صحت کے لیے بہترین سہولیات کا انتظام کیا جائے۔ خواتین کے لیے مفت علاج کی سہولت کو بھی لازم بنایا جائے۔

نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار آکوپیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ NIOSH نے زرعی ملازمت سے متعلق خواتین کے تحفظ اور صحت کے متعدد مسائل کی فہرست تیار کی ہے جن میں زرعی کیڑے مار ادویات کے منفی اثرات، کھانسی، پھیپڑوں میں ورم، حمل میں خرابیاں، بانجھ پن اور ایسے دیگر مسائل سامنے آئے ہیں جن کا حل تلاش کرنا اور اسے عمل میں لانا اس وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔

چونکہ حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستانی زراعت میں خواتین کی شمولیت کو فروغ دینے پر خاص توجہ دی جارہی ہے تو یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہمارے معاشرے کی خواتین ذہنی و جسمانی حوالے سے بہترین کام کرنے کے قابل ہوں گی۔ خواتین کو اُن کے کام کا بہترین معاوضہ دیا جائے، مفت علاج جی سہولیات میسر ہوں، ان کے بچوں کے لیے تعلیم حاصل کرنے کی راہیں آسان ہوں، انہیں ٹیکنالوجی کے جدید آلات سے متعارف کروایا جائے اور دیگر وسائل مہیا کیے جائیں تو وہ وقت دور نہیں جب خواتین زراعت کے شعبے کو ترقی کی بلند منزلوں پر گامزن کرسکتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

pic/dawn

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply