احمد پور شرقیہ کے لالچی

احمد پور شرقیہ کے لالچی
شاداب مرتضیٰ
احمد پور شرقیہ میں الٹنے والے آئل ٹینکر کا بکھرا ہوا تیل سمیٹنے والے افراد آگ میں جل کر خاکستر ہوئے تو ایک بحث چل پڑی کہ اس واقعے کا ذمہ دار کون ہے؟ عوام کے مسائل و مصائب کو سمجھنے والے روشن خیال لوگوں نے اسے حکومتی نااہلی اور اشرافیہ کے ہاتھوں عوام کے منظم استحصال سے پیدا ہونے والے حالات کا شاخسانہ قرار دیا جبکہ مڈل کلاس کے سطحی بیانیے کے اسیر لوگ سسٹم کی خرابیوں کو عمومی طور پر نظر انداز کر کے اس واقعے کے اسباب کو غریب عوام کے حرص و لالچ تک محدود کرنے لگے۔ زوردار مباحثہ شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔ اس حوالے سے ہماری گزارشات قارئین کی نظر ہیں۔
اگر تیل چوری کرنے والے “لالچی غریب”لالچ کی وجہ سے جل کر مرے تو ستر سال سے ملک اور عوام کو لوٹنے والے چند امیر خاندان، سرمایہ دار، تاجر، جاگیردار، عوام دشمن سیاستدان، وزیر، بیوروکریٹ، جرنیل، سرکاری افسر، ارب پتی ملاء اور حکمران طبقے کی منشی گیری کرنے والے خوشامدی مڈل کلاسیے کیوں اپنے لالچ کی وجہ سے مرنے کے بجائے امیر تر ہوتے جاتے ہیں؟ غریبوں کا لالچ ان کو موت کے منہ میں کیوں دھکیل دیتا ہے اور امیروں اور مڈل کلاسیوں کا لالچ ان کی زندگی کو مزید خوشحال کیوں بنا دیتا ہے؟ انسانی لالچ کے یہ دو بالکل متضاد نتائج کیوں نکلتے ہیں اس کا کوئی معقول جواب ظالم حکمران طبقے کے خوشامدی اور چاپلوس مڈل کلاس دانشوروں کے پاس نہیں ہو سکتا کیونکہ ان کے علم اور دانشوری کا مقصد سچائی کی کھوج اور اس کی طرفداری نہیں بلکہ اپنے لالچی اور منافقانہ طبقاتی مفاد کا تحفظ ہوتا ہے۔
اس مفاد کو پورا کرنے کے لیے یہ اپنی ذہنی صلاحیت اور علم و دانش کے ذریعے لوگوں کو غریبوں، مظلوموں اور محکوموں کی مساعی، ان سے ہمدردی اور ان کی طرفداری کا سبق دینے کے بجائے لوگوں میں ان کے خلاف ناپسندیدگی اور نفرت کے جذبات و احساسات پیدا کرتے ہیں، انہیں گمراہ کرتے ہیں اور شرفِ انسانی سے گرانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ تعلیم یافتہ طبقہ اور
خصوصا ًنوجوان افراد غریبوں سے نفرت کرنے لگیں، ان کے مسائل کا قصوروار انہی کو سمجھیں اور ظالمانہ نظام کے خلاف آواز نہ اٹھائیں۔ اس ساری حکمتِ عملی سے ان کا مقصد ظلم کے نظام کو دوام بخش کر اپنی زندگی کو خوشحال بنائے رکھنے سے زیادہ کچھ نہیں۔غربت ختم کر دیجیے پھر کوئی غربت کا بہانا بنا کر چوری کرے تو بے شک اسے سزا دیجیے۔ پہلے وہ آئیڈیل معاشرہ بنا لیں جہاں سب برابر ہوں اور پھر وہاں اپنے فی الحال غیر حقیقی اور خیالی اصولوں کا اطلاق سب پر برابری سے کر لیجیے گا۔

Facebook Comments

شاداب مرتضی
قاری اور لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply