فلسطین ‘جو کبھی بڑی معاشی طاقت تھا/منصور ندیم

اسرائیل کے قبضے سے پہلے فلسطین میں زراعت وہاں کی سب سے بڑی معاشی طاقت تھی, یعنی فلسطینیوں کا سب سے زیادہ انحصار معاشی طور پر زراعت سے تھا، اور نا  صرف یہ زراعتی پیداوار ان کی اپنی ضرورت پور ی کرتی تھی بلکہ فلسطین  کے مالٹے اور سنگترے پورے یورپ میں برآمد کیے جاتے  تھے، اس میں ایک تصویر میں آپ جافا شہر کی، جافا پرنٹنگ کمپنی کا یہ اشتہار دیکھ سکتے ہیں، یہ کمپنی یورپ کو برآمد کرنے سے پہلے سنگتروں کو لپیٹنے کے لیے کاغذ تیار کرنے میں مہارت رکھتی تھی۔ آج اسرائیل پوری دنیا میں جدید زراعت میں اولین ملکوں میں شمار ہوتا ہے، مگر اس میں بہت کچھ حصہ ان فلسطینوں کے پہلے سے موجود زرعی اصولوں کا ضرور شامل ہے۔

دوسری تصویر میں آپ پیکنگ سے پہلے سنگتروں کو کیڑوں اور قدرتی عوامل سے بچانے کے لیے اسے لپیٹنے کا عمل دیکھ سکتے ہیں، جس سے اُس وقت کئی لوگوں کا روزگار جڑا ہوا تھا اور یہ وہاں ایک مکمل پیشہ تھا، یہ سنگترے اس طرح مختلف مراحل سے گزرتے تھے تاکہ یہ تازہ یورپی منڈیوں تک پہنچیں۔ یہ سب کچھ جافا میں ایجاد اور تیار کیا گیا تھا، اس وقت سنتروں کی ایک معروف قسم جسے مقامی زبان میں شموتی کہتے تھے، اس کے علاوہ اس کے بہترین ذائقے کی وجہ سے اسے تمام سنگتروں پر فوقیت حاصل  تھی، اس لیے اس قسم کو فلسطین میں مقامی طور پر “ام البرتقال” بھی کہا جاتا تھا، بس اس کے بعد صہیونی یہودیوں نے اسے لوٹ لیا، اور آج تک یہ شہر ان کے تسلط میں ہے۔

جافا پرنٹنگ کمپنی

ایک تصویر میں آپ کو ایک بچہ مقامی طور پر سنترے بیچتا ہوا بھی نظر آرہا ہے۔

فلسطین میں طولکرم شہر میں قائم خضوری کالج تھا، جو بعد میں یونیورسٹی بنا، یہ سنہء 1937 کی  تصویر ہے، فلسطین جہاں کی بنیادی معیشت اس وقت زراعت و گلہ بانی وغیرہ سے متصل تھی، یہ فلسطین میں زراعت کی تعلیم دینے والی پہلی یونیورسٹی ہے جو 1931 میں قائم ہوئی۔ زراعت اور دودھ کے لئے اس وقت وہاں پر تعلیم بھی دی جاتی تھی اور ساتھ کاروباری معاونت بھی ہوتی تھی اس تصویر میں طلباء دودھ کی نقل و حمل اور پیکنگ کا کام کرتے نظر آرہے ہیں۔

ویسے سوچنے کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں آج تک ہم تازہ دودھ پیکنگ کی کسی صورت میں باقاعدہ نہیں لا سکے ، یہ فلسطینی قریب آج سے 92 برس قبل ہم سے کتنے ایڈوانس جارہے تھے۔
یہ تصویر سنہء 1937 میں فلسطینی محقق احمد مروت کی تصاویر کے مجموعے سے لی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ البقعہ محلہ ہے، سنہء 1923 میں یہ تصویر یروشلم کے اس محلے کی ہے، اس محلے میں دجانی خاندان کی ان کے گھر کے سامنے  بنی ایک تصویر ہے۔ یہ ڈاکٹر محمود دجانی کا ملکیتی گھر تھا، نکبہ کے بعد اسرائیلی غاصبوں نے اس گھر اور اس میں موجود ہر چیز کو لوٹ لیا تھا، اس گھر کی کہانی پر سنہء م 1980 میں ایک اسرائیلی فلم The House بھی بنائی گئی تھی۔

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply