یہ کیسا قانون ہے، کیا نظام ہے اور کون سا طریقہ؟۔۔رضوانہ سیّد علی

نور مقدم قتل کی بہیمانہ واردات میں قاتل، مقتول اور آ لہ قتل سب ایک جگہ ہی دستیاب ہو گئے ۔ قاتل نے اپنے منہ سے اعتراف کر لیا کہ ہاں یہ قتل میں نے کیا ہے ۔
اب باقی کیا بچا ہے جس کے لیے دہی کی لسی بنائی جا رہی ہے ؟ بتایا جا رہا ہے کہ پولیس کے سامنے کیے جانے والے اعتراف کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی ۔ اگر ایسا ہے تو پھر پولیس لمبے چوڑے ریمانڈ لے کر کیا اور کیوں اگلواتی ہے ؟ عجب گورکھ دھندہ ہے ۔

گزشتہ کچھ مدت میں ہم بدنصیبوں نے کیسے کیسے ہولناک جرائم دیکھ لئے، مگر کیفرِ کردار تک پہنچتے کسی کو نہ دیکھا ۔ ہر تماشے کے بعد درپیش دوسرا تماشا  پہلے کی سنگینی بھلا دیتا ہے ۔ ابھی بھی اغلب گمان یہی ہے کہ معاملے کو لٹکائے رکھو ،اگلی متوقع واردات پہ عوام اسے بھول کر دوسری کے گرد جمع ہو جائیں گے، تو معاملہ خود بخود رفع ہو جائے گا ۔ یہ تو جرائم اور ان کی تفتیش کی صورتحال ہے ۔ پر باقی تمام معاملات بھی اس ملک میں ٹیڑھی کھیر سے کم تو نہیں ۔ اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی کے مصداق اس معاشرے میں ہر چیز الٹی ہی نظر آ تی ہے ۔

میں اکثر سوچتی ہوں کہ ہمارے مشاہیر کے منہ سے نکلنے والے کچھ جملے ہماری ناعاقبت اندیش اشرافیہ اور بدبخت حکمران ٹولوں نے ہماری سزا بنا دئیے ہیں ۔ مثلاً  علامہ اقبال نے قوم کے لئے اک خواب دیکھنے کا ذکر کیا ۔ 74 برس سے ہر افلاطون نے اس قوم کو خواب دکھانے کا فریضہ سنبھال لیا ہے ۔ خوابوں میں مست رہو ۔ حقیت سے دور خیالوں کی جنت میں بسے رہو ،احمقو ! یہی تمہاری اوقات ہے ۔

قائد اعظم نے کسی خطاب میں کہا تھا کہ ہم پاکستان کو ایسی تجربہ گاہ بنائیں گے جہاں اسلامی اصولوں کا نفاذ دنیا کے لئے ایک مثال ہو گا ۔

74 سال سے اس قوم کی تقدیر کے ٹھیکیدار اندھا دھند اس ملک کو تجربہ گاہ بنائے ہوئے ہیں پر ایسی تجربہ گاہ جہاں اناڑی طالب علم دھنا دھن تجربات کئے جا رہے ہیں ۔ ایسے تجربات جن کا کوئی سر ہے نہ پیر ۔ کوئی مقصد ہے نہ حاصل ۔ جن کے نتائج ہیں تو فقط تجربہ گاہ کی ہر املاک کی تباہی بربادی اور اسکے سوا کچھ نہیں ،کیونکہ نہ کوئی سائنسدان ہے نہ انچارج ۔ ہر اناڑی بیڑہ غرق کرنے کی ہی ٹھان کر آ تا ہے اور اس میں کامیاب بھی رہتا ہے ۔

یا اللہ ! کاٹ دے یہ زنجیریںِ آ زاد کر دے ہمیں اس طلسم ہوش ربا سے ۔ ہوش کے ناخن عطا فرما اس قوم کو کہ چوتھی نسل ابھی کل ہی ایک مادر پدر آزاد جشن آزادی منا کر فارغ ہوئی ہے ،ایسا جشن کہ نہ پاؤں کی زنجیروں کی پرواہ ہے نہ ذلت کی دلدل میں دھنسے وجود کی خبر ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمیں سے رنگ گلستاں ہمیں سے رنگ بہار
ہمیں کو نظمِ گلستاں پہ اختیار نہیں!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply