کارل مارکس-مارکس ازم /تاریخی مادیت/زاہد آرائیں /حصّہ سوم

دوسرے حصّے کا لنک

تیسری قسط

Advertisements
julia rana solicitors

تاریخی مادیّت 
تاریخی ارتقا ء کو سمجھنے اور جاننے کے لیے مارکسی سائنس کے اطلاق کو تاریخی مادیت کا نام دیا گیا ہے۔اس کا بنیادی قضیہ مارکس نے اپنے الفاظ میں یوں بیان کیا، ’’انسانوں کا شعور انسان کے وجود کا تعین نہیں کرتا، بلکہ اس کے برعکس انسان کا سماجی وجود اس کے شعور کا تعین کرتا ہے۔‘‘ مارکس نے انسانی سماجوں کی ترقی کی وجوہات کے لیے ٹھوس ، حقیقی وجوہات دریافت کیں۔ اس نے ضرورت کو پورا کرنے کے لیے انسان کی محنت کو بنیادی عنصر قرار دیا۔ مارکس کے نزدیک انسان کی معاشی ضرورتیں انسان کو غور و فکر کرنے، آلات و اوزار ایجاد کرنے، قدرتی وسائل کو استعمال میں لانے اور زندگی کو بہتر بنانے پر، الغرض انسان کوذہنی اور جسمانی محنت کرنے ہی پر اکساتی ہیں اور محنت کے اس عمل میں انسان معاشرے کو بہتر سے بہتر بناتا رہتا ہے۔ انسان فطرت کے ساتھ کس انداز سے نبردآزما ہے یعنی پیداوار کا وہ عمل جس کے ذریعے وہ اپنی زندگی کو برقرار رکھتا ہے اور اس سے یہ بات بھی ظاہر ہوجاتی ہے کہ اس کے سماجی تعلقات کی تشکیل کس طرح سے ہوتی ہے اور ان کے نتیجے میں کس قسم کے ذہنی تصورات و افکار جنم لیتے ہیں۔ انسانی سماج اور اس کی تاریخ پر مادی نقطہ نظر کے بنیادی اصولوں کے اطلاق کو بہت جامع انداز میں یوں پیش کیا گیا ہے کہ ’’اپنی زندگیوں کی سماجی پیداوار کے دوران افراد ایک دوسرے کے ساتھ ایسے رشتوں میں بندھ جاتے ہیں جو ناگزیر ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی خواہشات کے تابع بھی نہیں ہوتے ۔ یعنی وہ پیداواری رشتے جو مادی پیداواری قوتوں کی ترقی کی اس مخصوص سطح سے میل کھاتے ہیں۔ سماج کا معاشی ڈھانچہ انہی پیداواری رشتوں کے حاصل جمع پر مشتمل ہوتا ہے یہی وہ حقیقی بنیاد ہے جس پر ایک قانونی اور سیاسی بالائی ڈھانچہ کھڑا ہوتاہے اور سماجی شعور کی مخصوص ہیئتیں بھی اسی سے مطابقت رکھتی ہیں۔ مادی زندگی کی پیداوار کا طریقہ ہی سماجی، سیاسی اور فکری زندگی کے عمل کا تعین کرتا ہے۔‘‘
3 – مارکسی معیشت  
مارکس نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’داس کیپیٹل‘‘ یعنی سرمایہ میں سرمایہ دارانہ نظام کی اصلیت کو بیان کرتے ہوئے مارکسی معیشت کی بنیادیں فراہم کیں۔ جہاں سرمایہ دارانہ نظام کے ماہر معاشیات نے چیزوں کے مابین تعلق یعنی ایک مال کا دوسرے سے تبادلہ کو دیکھا وہاں مارکس نے لوگوں کے درمیان تعلق کو دیکھا۔ مالوں کا باہمی تبادلہ اس بندھن کو ظاہر کرتا ہے جو الگ الگ پیداوار کرنے والوں میں بازار کے ذریعے قائم ہوتا ہے ۔ روپیہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ بندھن زیادہ سے زیادہ قریبی ہوتا جاتا جا رہا ہے اور الگ الگ پیداوار کرنے والوں کی ساری معاشی زندگی کو ایک کل میں اس طرح جوڑتا جا رہا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے بے تعلق نہیں ہوسکتے ۔ آدمی کی محنت کی قوت ایک مال بن جاتی ہے ۔ اجرت پرکام کرنے والا اپنی محنت کی قوت کو اس کے ہاتھ بیچتا ہے جو زمین کا ، کار خانوں کا اور کام کے اوزاروں کامالک ہے ۔ مزدور کام کے دن کا ایک حصہ اس لاگت کے لیے کام کرنے میں لگاتاہے جو خود اس کے اور گھر بار کے خرچ کے لیے ضروری ہے ( یہ ہے مزدوری یا اجرت ) ، جب کہ دن کا دوسرا حصہ وہ بغیر اجرت کے کام کرتا ہے اور سرمایہ کے لیے قدر زا ئد (Surplus-Value ) پیدا کرتا ہے ۔ جو نفع کا اصل سرچشمہ ، سرمایہ دار طبقے کی دولت کا سرچشمہ ہے۔ قدر زائد کا نظریہ مارکس کے معاشی نظرئیے میں بنیاد کا پتھر ہے۔ مارکسزم ایک ایسی سائنس ہے جو سرمائے کی اِس وحشیانہ حکمرانی کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے محنت کش طبقات کی رہنمائی کرتی ہے۔ ایسے میں اور بھلا کیا توقع کی جاسکتی ہے؟ طبقاتی کشمکش پر مبنی سماج میں کوئی ’غیر جانبدار‘ سماجی سائنس نہیں ہوتی، سب سے بڑی منافقت اور ڈھونگ یہ ’غیر جانبداری‘ ہوتی ہے۔ تمام تر مروجہ نظریات کسی نہ کسی طریقے سے سرمایہ داری کا دفاع کرتے ہیں، جبکہ مارکسزم نے طبقاتی جبر و استحصال کے خلاف ایک بے رحم جنگ کا اعلان کر رکھا ہے۔ ایسے سماج میں جہاں منافع بنیادی طور پر محنت کش طبقات کی چوری شدہ محنت ہے وہاں یہ سوچ انتہائی بچکانہ ہے کہ محنت کشوں اور غریبوں کا استحصال کرنے والے ان سے کوئی انصاف برت سکتے ہیں۔
جاری ہے۔۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply