کارل مارکس-مارکس ازم-مارکسیت/زاہد آرائیں /حصّہ دوم

پہلے حصّہ کا لنک

دوسری قسط

Advertisements
julia rana solicitors

مارکسزم کے بنیادی اجزائے ترکیبی مندرجہ ذیل ہیں؛
1. جدلیاتی مادیت
2. تاریخی مادیت
3. مارکسی معیشیت
 1. جدلیاتی مادیت  
یورپین فلسفہ درحقیقت قدیم یونانی فلسفہ کا ہی تسلسل ہے، فلسفے کا بنیادی مرکز ہمیشہ سے ہی حقیقیت کا جاننا رہا ہےکہ اس سوال کا جواب دو جو مخصوص سوچو ں کے ذریعے دیا گیا ہے۔ اس میں عینیت پرستی ہے تو دوسرا تاریخ کا مادی تصور ہے۔ یہ دونوں نظریات ایک دوسرے کی مخالف سمت میں سفر کرتے نظر آتے ہیں۔ عینیت پرستوں کے نزدیک سچائی سوچ اور روح کے سوا کچھ نہیں ہے، ان کے نزدیک یہ دونوں مادے کے بغیر وجود رکھتے ہیں۔ اگرچہ قدیم یونانی بھی مادی تصور کے حوالے سے جستجو میں مگن تھے مگر وہ اپنے حالات کی وجہ سے عینیت پرستی کا شکا ر رہے۔ تاہم جدلیات کا بانی قدیم یونانی فلسفی کابانی ہیراکلیٹس سمجھا جا تا ہے جس نے کائنات میں جاری حرکت و تبدیلی کو مانتے ہوئے اس نے تضاد کو ان کی علت کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے جدلیاتی سائنس کی بنیاد رکھی۔ جدلیاتی سائنس کو تاریخ میں پہلی بار ایک جامع فلسفیانہ نظام کی شکل میں فلسفی جارج ہیگل نے پیش کیا۔
جارج ولیم فریڈریک ہیگل
( اگست 27, 1770 – نومبر 14, 1831)
ایک جرمن فلسفی اور جرمن مثالیت کی اہم شخصیت تھا۔ یہ اپنے دور میں بہت مشہور ہوا اور براعظمی روایت فلسفہ اور تجزیاتی روایت میں بھی بااثر ثابت ہوا۔ اگرچہ ہیگل ایک متنازع شخصیت رہتا ہے، لیکن مغربی فلسفہ میں اس کی علمی قد و قامت تسلیم شدہ ہے۔ اس نے جدلیات کے اہم ترین اصول دریافت کیے۔ یہی اصول بعد ازاں مارکسی مفکر فریڈرک اینگلز نے مستعار لیے اور انھیں مادی جدلیات کی تشکیل و توضیح کے لیے استعمال کیا۔
ہیگل ایک عالمگیر روح اور ریزن کی بات کرتا ہے۔ لیکن یہ کہ خیال، ریزن یا روح کے وجود کے بغیر رہ پانا اسے عینیت پرست بناتا ہے۔ مارکس نے ہیگل کے فلسفہ پر تنقید کرتے ہوئے پہلی مرتبہ جدلیاتی مادیت کے تصور کو سائنسی شکل فراہم کی۔ مارکس ہیگل کی جدلیات کو سر کے بل کھڑا ہونے کی شکل میں دیکھتا ہے، یہ مکمل طور پر غلط نہیں بلکہ صرف اپنے میں الٹا ہونا ہے۔
مارکس ہیگل کے فلسفے کےنفس مضمون سے کم اس کے طریقہ کار سے زیادہ متاثر تھا۔ مارکس بھی حقیقت کو جدلیاتی مانتا ہے یعنی حقیقت متحرک اور مائل بہ ارتقا ہے ۔ ایک ہیئت اپنی تردید کرتی ہے اور اس تردید سے پھر نئی ہیئت پیدا ہوتی ہے۔ زندگی بھی ایک پیہم اور بے پایاں تکوین ہے۔ جس کے لیے تحریک لازمی ہے۔ ایک نئی صورت کے وجود میں آنے کے لے لازمی ہے کہ پرانی صورت مٹے لیکن مارکس حقیقت کو مادہ بتاتا ہے۔ مادہ جامد نہیں۔ ہیگل نے جدلیات کو وجودِ مطلق یا روح مطلق تک محدود کر دیا۔ مگر مارکس نے اس کا رشتہ مادیت سے جوڑ کر اس میں نئے انقلابی معنی پیدا کردیے۔ لینن نے اپنی تصنیف میں اسے یوں بیان کیا کہ “ہیگل نے ڈارون اور مارکس سے پہلے لکھا تھا” ۔ انقلاب فرانس نے سوچ کو جو زبردست تحریک دی تھی اس کی بدولت ہیگل نے سائنس کی ترقی کو پیشگی دیکھ لیا تھا۔ اگرچہ یہ ایک بڑے آدمی کی پیش بینی تھی مگر ہیگل نے اسے خیال پرستانہ کردار دے دیا اس نے خیالی سایوں کو حتمی حقیقت قرار دے ڈالا ۔ لیکن مارکس نے کہا کہ یہ خیالی سائے مادی اجسام کی حرکت کا عکس ہیں۔
’’جدلیات مارکسی فلسفہ میں (Methodology) کے اعتبار سے بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ جدلیات کے اجزائے ترکیبی یوں ہیں:۔
دعوی (Thesis)
ردِ دعوی (Anti-thesis)
ترکیب (Synthesis)
جدلیات کی تعریف ٹراٹسکی نے ذیل الفاظ میں کی،
جدلیات نہ تو فکشن ہے اور نہ ہی تصوف۔ اگر اسے زندگی کے عام مسائل تک محدود نہ رکھا جائے تو یہ ایک سائنس ہے جس کے ذریعے پیچیدہ اور طویل اعمال کو سمجھا جا سکتا ہے ۔ جدلیات اور رسمی منطق میں وہی رشتہ ہے جو بالائی اور زیریں ریاضیات میں ہوتا ہے۔
 جدلیات کے اصول 
ٹراٹسکی کے مطابق،جدلیاتی سوچ کا بیہودگی سے وہی رشتہ ہے جو چلتی تصویرکا ساکت تصویر سے ہوتا ہے۔چلتی تصویر ساکت تصویر کے خلاف نہیں جاتی بلکہ وہ حرکت کے اصول کے تحت ساکت تصویروں کو ایک تسلسل میں پرو دیتی ہے ۔ جدلیات سچ سے انکار نہیں کرتی بلکہ بہت سے سچ اس طرح جوڑ دیتی ہے کہ ہم ازلی طور پر تغیر پزیر حقیقت کو زیادہ قریب سے دیکھ سکتے ہیں ۔ ہیگل اپنی کتاب’’ منطق‘‘ میں قوانین کا ایک سلسلہ قائم کرتا ہے ۔ مثلاً مقدار کا معیار میں بدل جانا ‘ تضادات کے ذریعے آگے بڑھنا‘ ہیت اور مواد کا تصادم ‘تسلسل میں مداخلت ‘ امکان کا ناگزیر یت میں تبدیل ہو جانا وغیرہ۔نظریاتی سوچ کے لیے یہ سب کچھ اتنا ہی ضروی ہے جتنے قضیے ابتدائی کاموں کے لیے۔
جدلیات کے تین اصول ہیں؛
پہلا اصول’’ مقدار کی معیار میں تبدیلی‘‘ ہے۔ فطرت ہو یا انسانی سماج، ان میں تبدیلی کا عمل ہمہ وقت جاری رہتا ہے، مگر یہ تبدیلی محض ایک شکل سے کسی دوسری شکل ہی میں تبدیلی نہیں ہوتی، بلکہ اس تبدیلی میں سماج کی تشکیل و ارتقا کا پہلو غالب ہوتا ہے۔ سماج اور فطرت میں تبدیلی کا عمل تو ہمہ وقت جاری رہتا ہے، مگر جدلیات مقدار کی معیار میں تبدیلی کی وضاحت کرتی ہے۔
دوسرا اصول ’’نفی کی نفی‘‘ ہے۔ نفی (Negation) صرف ایک منطقی مقولہ (Logical Category) ہی نہیں جو خیال پرست فلسفی کی ذہنی اختراع تھا۔ یہ سماجی تشکیل و ارتقا کی لازمی شرط ہے۔ کارل مارکس کے الفاظ میں سماجی وجود کی موجود اشکال کی’ نفی‘ کے بغیرکسی بھی قسم کا ارتقا ممکن نہیں ہے ۔
تیسرا مگر اہم ترین اصول ’’تخالفین کی وحدت اور جدوجہد‘‘ ہے۔ فطرت ہو یا سماجی تشکیل کا کوئی عمل ، وہ سماج میں متحرک قوتوں کے مابین ’تضاد‘ کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔بورژوا فلسفوں کی خامی یہ ہے کہ وہ ’تضاد‘ کو معروض (Object) کے اندر نہیں بلکہ خارج میں اس کے ’تخالف‘ کے طور پر تلاش کرتے ہیں۔
جاری ہے۔
تصویر -جارج ہیگل

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply