کارل مارکس (1883-1818ء)
کارل مارکس کے نظریات کے مجموعے کو مارکس ازم یا مارکسیت کہا جاتا ہے جسے مارکس نے اپنے ساتھی فریڈرک اینگلز کے ساتھ مل کر ترتیب دیا۔ دنیا بھر کے ممالک میں محنت کشوں کی تحریک کے نظریات اور پروگرام ہیں۔ مارکسزم نہ کوئی مفروضہ ہے اور نہ ہی خیالی پلاؤ بلکہ دیگر سائنسی علوم کی طرح انسانی سماج کے ارتقا کاعلم ہے ۔ جوتجزیہ کے بعد سرمایہ داری نظام کے خاتمہ اور سوشلزم کمیونزم کے قیام کو نویددیتاہے۔ جس طرح سائنس علوم میں آئے دن تبدیلیوں کے باعث بنیادی سائنسی سچائیاں ختم نہیں ہو جاتیں۔ اس طرح انسانی سماج میں تمام تر تبدیلیوں کے باوجود سماجی ارتقا کے متعلق بتائے گئے مارکسی سائنسی اصول ختم نہیں ہوسکتے۔ جس طرح کرہ ارض پر بے شمار تبدیلیاں ہونے کے باوجود زمین کے گول ہونے کی حقیقت نہیں بدل سکتی۔ جس طرح زمین کے اپنے محور کے گرد گردش کے باعث دن اور رات کو سچائی تبدیل نہیں ہوسکتی۔ جس طرح فزکس علم ثبات اور نفی کے بغیر پیش قدمی نہیں کرسکتا اور اسی طرح انسانی سماج کے دریافت شدہ مارکسی قواعد کسی کی خواہش کے مطابق تبدیلی نہیں ہوسکتے۔ مارکس نے اپنے رفیق ویدمیئر کو 5 مارچ 1852 کو لکھے گئے خط میں بیان کیا کہ اس کی تھیوری یعنی “مارکسزم” کیا ہے۔ مارکس نے لکھا کہ:
“جدید معاشرے میں طبقوں یا ان طبقوں کے درمیان کشمکش کی موجودگی کی دریافت کا سہرا میرے سر نہیں جاتا۔ مجھ سے بہت پہلے سرمایہ دارانہ تاریخ دان اس طبقاتی کشمکش کے تاریخی ارتقا کو اور سرمایہ دارانہ معیشت دان طبقاتی معیشت کو تفصیل سے بیان کرچکے تھے۔ جو نئی بات میں نے کی ہے وہ یہ ثابت کرنا ہے کہ:
طبقوں کا وجود پیداوار کی ترقی میں مخصوص تاریخی مرحلے سے مشروط ہے۔
طبقاتی جدوجہد لازمی طور پر مزدور طبقے کی آمریت
(پرولتاریہ) کی جانب لے جاتی ہے۔
کہ یہ آمریت بذات خود طبقوں کے خاتمے اور غیر طبقاتی سماج کی جانب منتقلی پر مشتمل ہے۔
کمیونسٹ مینی فیسٹو میں مارکس اور اینگلز کا نعرہ تھا: دنیا کے “مزدورو” متحد ہو جاؤ!
کارل مارکس سمجھتے تھے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے اپنے اندر یہ خامی موجود ہے کہ یہ مسلسل بڑے پیمانے پر معاشی اتارچڑھاؤ پیدا کرتا ہے اور آخر کار اپنے آپ ہی کو ختم کر لے گا۔ اِس عظیم فلسفی، معیشت دان اور انقلابی کے مطابق سرمایہ دارانہ نظام شدید طور پر ایک غیر مستحکم نظام ہے۔ غلامی کا نظام اورجاگیردارانہ معاشرے کئی صدیوں تک قائم رہے۔ اِن کے مقابلے میں سرمایہ دارانہ نظام جس چیز کو چھوتا ہے اسے بدل دیتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں صرف برانڈ ہی تیزی سے تبدیل نہیں ہوتے بلکہ کمپنیاں اور صنعتیں بھی تخلیقی اور اچھوتے عمل کے نتیجے میں بنتی اور ختم ہوتی ہیں جب کہ انسانی رشتے بھی تحلیل اور نئی شکل میں دوبارہ بنتے ہیں۔انہیں اس بات پر اعتماد تھا کہ ایک عوامی انقلاب آ کر رہے گا اور جس کے نتیجے میں کمیونسٹ نظام آ جائے گا جو زیادہ پیداوار کرنے والا اور زیادہ انسان دوست نظام ہے۔
تاہم چند نقاد کے مطابق مارکسیت اور اس سے رونما ہونے والی سوشلزم کی منصوبہ بند سوسائٹی ایک متصورہ خواہش ہے جہاں مساوات پر زور دیا گیا تھا۔ اس کے مقابلے میں سرمایہ داری کے تحت تشکیل شدہ طبقاتی نظام ایک عمرانی و تجرباتی حقیقت ہے۔
مارکسزم کے بنیادی خیال کے مطابق طبقاتی سماجوں میں حاکم اور محکوم طبقات کے مابین ہر وقت کشمکش جاری رہتی ہے۔ جبکہ وہ طبقہ جس کا استحصال کیا جاتا ہو یعنی پرولتاریہ اپنے ظالموں اور استحصال کرنے والوں یعنی بورژوا طبقے سے اس وقت تک آزادی حاصل نہیں کر سکتا جب تک وہ اپنے ساتھ پورے معاشرے کو ہمیشہ کے لیے استحصال، ظلم اور طبقاتی جدوجہد سے چھٹکارہ نہ دلا دے۔
مارکس نے اپنی تصنیف کمیونسٹ مینی فیسٹو میں لکھا کہ، وہ ہتھیار جن سے بورژوا طبقے نے جاگیر دار نظام کو زیر کیا تھا، اب خود بورژوا طبقے کے خلاف اٹھائے جا رہے ہیں۔ لیکن بورژوا طبقے نے صرف وہ ہتھیار ہی نہیں ڈھالے جو اس کی موت کا پیغام لا رہے ہیں، وہ ان آدمیوں کو بھی وجود میں لے آیا ہے جو یہ ہتھیار اٹھائیں گے، یعنی، جدید مزدور طبقہ (پرولتاریہ)
مارکسیت کے نظریات دنیا بھر کے ممالک میں محنت کشوں کی تحریک کے نظریات اور پروگرام ہیں۔ یہی سوشلسٹ انقلاب اور کمیونسٹ معاشرے کے حصول کی بنیادوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔
لینن نے مارکسزم کی سچائی کو ان الفاظ میں بیان کیا:
مارکس کا نظریہ طاقتور ہے کیونکہ وہ سچا ہے۔ یہ نظریہ مکمل اور مربوط ہے اور لوگوں کو ایک ایسا باضابطہ عالمی تصور مہیا کرتا ہے جو وہم پرستی، رجعت پرستی اور بورژوا زبردستی کی حمایت کی کسی شکل سے بھی میل نہیں کھا سکتا۔
مارکسزم کے بنیادی اجزائے ترکیبی مندرجہ ذیل ہیں؛
جدلیاتی مادیت
تاریخی مادیت
مارکسی معیشیت
جاری ہے
یہ تحریر فیس بک کے گروپ “جستجو “سے لی گئی ہے !
https://web.facebook.com/groups/AutoPrince/?ref=br_tf
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں