سرِ عام سزائیں۔۔سعید چیمہ

صبح کی سفیدی رات کی سیاہی کا سینہ چاک کر رہی تھی،آسمان پر ستاروں کی چمک ماند پڑتی جا رہی تھی،درختوں پر بیٹھے ہوئے پرندے سریلے نغموں کی گنگناہٹ کی مشق کر رہے تھے،سڑک پر گزرنے والی گاڑیوں کا شور ابھی بہت زیادہ نہیں تھا،خاکسار فجر کی نماز سے فارغ ہو کر صبح کی سیر کے لیے جناح باغ جانے ہی لگا تھا کہ گھر کے بیرونی دروازے پر دستک ہوئی،دروازے کے پٹ وا ہوئے تو دیکھا کہ چہرے پر دلنشین مسکراہٹ سجائے سامنے سائیں برکت کھڑے ہیں،صبح کی سیر کا پروگرام کینسل(اس ڈر سے کہ سائیں جی کہیں دوبارہ تشریف ہی نہ لائیں) کرتے ہوئے خاکسار سائیں جی کے ناشتے کے لوازمات تیار کرنے لگا،سائیں جی کی کرسی کے سامنے پڑی ہوئی میز پر ناشتہ رکھ کر خاکسار ان کی دائیں طرف والی کرسی پر براجمان ہو گیا اور سائیں جی ناشتہ سے شکم کی آگ کو ٹھنڈا کرنے لگے،ایک بار پھر بحث چل نکلی ہے کہ ریپ ایسے جرائم کے مجرمان کو سرِعام سزائیں دی جائیں،آپ کی اس معاملے میں کیا رائے ہے،

موصوف ناشتہ ختم کر کے نیپکن سے منہ صاف کر رہے تھے کہ خاکسار نے سوال پوچھا،

“سزاؤں کامقصد جرائم کی شرح کو کم کرنا ہوتا ہے نہ کہ ختم،اب لوگ کہتے ہیں کہ کچھ اسلامی ممالک میں سرِ عام سزاؤں کا نفاذ ہے لیکن جرائم تو پھر بھی وہاں ہوتے ہیں،لبرل ارسطوؤں کی یہ دلیل انتہائی بودی ہے اور ایسے ارسطو کمال مہارت سے حقائق کو توڑ مروڑ دیتے ہیں اور کبھی نہیں بتائیں گے کہ جن ممالک میں سرِ عام سزائیں دی جاتی ہیں وہاں پر دوسرے ممالک کی نسبت جرائم کی شرح کم ہے کیونکہ ایسی باتیں ان کے دلائل کی عمارت کو ڈھا دیتی ہیں،اب ایسے لوگوں کی دوسری دلیل یہ ہوتی ہے کہ مجرمان کو پھانسی کی سزا نہیں دینی چاہیئے کیونکہ بہت سے ممالک میں پھانسی کی سزا معطل ہے لیکن پھر بھی وہاں جرائم کی شرح کم ہے اور ایسے ممالک کی پیروی کرتے ہوئے ہمیں بھی پھانسی کی جگہ عمر قید کی سزا دینی ہو گی،اب ایسے لوگوں کی دلیل سن کر بے اختیار جی چاہتا ہے کہ کوئی سر پر کدال کا ایسا وار کرے جس سے عقل کی قوت سلب کر لی جائے،پاکستان کی جیلوں میں سنگین جرائم کے بہت سے قیدی ایسے ہیں جو حکومت کے خرچے پر اپنی قید بھگت رہے ہیں اور ویسے بھی عمر قید کے مجرمان دس بیس سال بعد رہا ہو جاتے ہیں۔ظلم کا نشانہ بننے والوں سے صلح،سیاسی اشرافیہ کی پشت پناہی اور عدالتی نظام سمیت بہت سے عوامل ہیں جو مجرمان کی رہائی میں کردار ادا کرتے ہیں اور جن ممالک میں پھانسی کی سزا نہیں ہے ان کا پاکستان سے موازنہ نہیں کرنا چاہیئے معلوم نہیں ہم بات بات پر گوری چمڑی والوں کے ممالک سے اپنا موازنہ کیوں کرتے ہیں” سائیں جی نے حقیت پسندانہ جواب دینے کے بعد اپنی پشت کرسی سے لگا لی۔۔

لیکن سائیں جی فواد چودھری ایسے لوگ تو کہتے ہیں کہ سرِ عام سزا دینا اخلاقیات کے منافی ہے،سائیں جی جو کرسی سے ٹیک لگا کر بیٹھے تھے،قدرے آگے کو جھک کر گویا ہوئے کہ پچھلے دنوں سید ارشاد احمد عارف نے سوال اٹھایا تھا کہ جب بھری محفل میں فواد چودھری کسی صحافی کو تھپڑ رسید کرتا ہے اور ڈھٹائی سے اپنے مؤقف پر قائم رہتے ہوئے معافی بھی نہیں مانگتا تو تب اس کی اخلاقیات کہاں جاتی ہیں،مشروبِ مغرب کے جام پر جام چڑھانے والوں کو سرِ عام سزاؤں پر اخلاقیات یاد آ جاتی ہیں،معاملہ اخلاقیات کا نہیں بلکہ ذہنی پسماندگی کا ہے،اب ایسے لوگوں کی ذہنی ترقی کے لیے ہاتھ اٹھا کر لبوں پر دعا ہی سجائی جا سکتی ہے۔

سائیں جی ایک تجویز ڈاکٹر شیریں مزاری کی طرف سے آئی ہے کہ ریپ کرنے والے افراد کو نامرد بنا دیا جائے،معلوم نہیں ایسے لوگوں کا دماغ اتنا زرخیز کیسے ہو گیا ہے جو ایسی تجاویز سوچ لیتا ہے، فرض کرو اگر مجرمان کو نامرد بنا دیا جائے تو کیا نامرد بنانے کے بعد مجرمان کو چھوڑ دیا جائے گا، اور سوچو جس کو نا مردبنا کر چھوڑ دیا جائے گاوہ تو شدید احساسِ کمتری کا شکار ہو جائے گا اور اس بات کی کیا گارنٹی ہو گی کہ وہ خواتین کے ساتھ دوبارہ غیر اخلاقی حرکات کا مرتکب نہیں ہو گا اور اگر ریپ کے مجرمان کو قید میں ہی رکھنا ہے تو ان کو نامرد بنانے کی کیا تُک ہے،انگشتِ بدنداں ہونے کی حد کی تک اس معاملے میں یار لوگوں نے اخلاقیات کا ڈھنڈوار نہیں پیٹا،مغربی ممالک سے جو ہم مرعوب ہیں،اس مرعوبیت کو ختم کر کے معقول قسم کی قانون سازی کرنی چاہیئے اور پولیس کا نظام ایسا ہو کہ مجرمان فرار کا راستہ اپنانے سے پہلے ہی دھر لیے جائیں،اور پراسیکیوشن کا نظام نہایت مضبوط کرنے کی ضرورت ہے،اچھے وکیلوں کی خدمات لینی پڑیں گی تا کہ کیسز جلدی سے اپنے انجام کی طرف بڑھ سکیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جواب ختم کر کے سائیں جی دروازے کی طرف بڑھنے لگے تو خاکسار نے کہا کہ آج تو آپ نے چائے ہی نوش نہیں فرمائی،سائیں جی چلتے چلتے گویا ہوئے کہ چائے پھر پیئں گے ابھی ہم کو جلدی جلدی آستانے پر پہنچنا ہے،اگر چہ یہ خاکسار سائیں جی کے گنے چنے معتقدوں میں شامل ہے لیکن پھر بھی ان کے آستانے کا پتہ نہیں جانتا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply