اردو کیلئے ایک دبائیں ۔ انگریزی کے لیے دو

جی نہیں ، کوئی جمہوریت مضبوط نہیں ہونے والی اور نہ ہی احتساب کی روایت جڑ پکڑنے والی ہے ۔ یہ سیدھا سادا انا کی تسکین ، پرانے حساب بے باق کرنے ، سبق سکھانے ، بدلہ لینے ، نیچا دکھانے، زمین چٹوانے ، ناک سے لکیریں نکلوانے ، چھٹی کا دودھ یاد دلانے جیسا ایک انتقامی نوعیت کا کیس ہے۔ کہنے دیجئے کہ اس سے کرپشن و بدعنوانی بڑھے گی اور احتساب کا شیرخوار کلچر مزید کمزور پڑے گا ۔اب اگر ایک بڑا ڈاکو ایک چھوٹے چور کو اس لیے مار پڑوا رہا ہے کہ وہ بیچارہ چھوٹا اس بڑے سے لوٹ کے مال کا حساب جو مانگ بیٹھا تھا ، تو خود ہی بتایئے کہ چھوٹے کے کھڈے لائن لگائے جانے سے احتساب اور جمہوریت کیسے مضبوط ہو گی۔ پتا نہیں کونسی لاجک سے جمہوریت مضبوط ہوتی نظر آ رہی ہے۔
یہ کیس اسی لیے تو اس نہج کو لایا گیا ہے ڈنڈا ڈولی کر کے کہ آرٹیکل چھ کے تحت احتساب کی ایک کوشش جو دو برس گزرے کی گئی تھی اس کے ذمے داروں اور خاموش تماشائیوں کو ذرا سر بازار نچوایا جائے۔ سر دھنیئے کہ اس پورے معاملے کے روح رواں کون ۔ وہ جو اپنے آئینی مینڈیٹ کی کریز سے بہت آگے نکل کر تجارت صنعت رئیل اسٹیٹ کے میدانوں میں چھکے چوکے مار رہے ہیں۔ معاملہ فہم جانتے ہیں کہ معاملہ بس اتنا سا ہے کہ سویلین وزیر اعظم کو دھول چٹوانی ہے، اپنے سامنے جھکانا ہے اور پھر راستے سے صرف یہ ثابت کرنے کے لیے اٹھا پھینکنا ہے کہ ہم جسے بناتے ہیں اسے مٹا بھی سکتے ہیں ۔۔
یوں تو سویلین سیٹ اپ پہلے ہی ایک آنکھ نہیں بھاتا کہ کہیں اس دوران سویلین سیٹ اپ میلی آنکھ سے خاکی کاروباری سیٹ اپ پر سوال نہ اٹھا دے اور اوپر سے یہ کیا کم قیامت کہ کمبخت دوسرا پانچ سالہ دور آئینی طور پر مکمل ہونے جا رہا ہے ۔۔۔ گو کہ کوئی وزیر اعظم تادم تحریر پانچ سال پورے نہیں کر سکا ۔ شاید یہ اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر کی شق اول تو یہ ہے کہ پارلیمنٹ کو پانچ سال سے پہلے سمیٹ دیا جائے اور شق نمبر دو غالباً یہ ہے کہ اگر نظام لپیٹنا ممکن نہ ہو تو وزیر اعظم کو پانچ سال سے پہلے لپیٹ دیا جاوے ۔
بس جناب تو کہانی اتنی سی ہے کہ بالا دستی اپنی قائم و دائم رکھنی ہے اور اس ستر سال پرانی روایت کو ٹوٹنے نہیں دینا ہے کہ کوئی سویلین وزیر اعظم اپنی مدت مکمل کر سکے ۔ بات تو بس یہی ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔ اب پیکنگ ، جس قدر چاہیں دیدہ زیب کر لیں ۔ جتنا گڑ اتنا میٹھا ۔ اندر نکلے گا مگر کڑوا بادام ہی ۔
احتساب اور جمہوریت مضبوط ہونے کی ’’ آس‘‘ لگائے جو بیٹھے ہیں وہ جان لیں کہ سفر کی طرح اس لفظ کے معانی بھی اردو اور انگریزی میں الگ الگ بنتے ہیں ۔ اردو کیلئے ایک دبائیں انگریزی کے لیے دو ،ورنہ صفر ۔

Facebook Comments

فاروق احمد
کالم نگار ، پبلشر ، صنعتکار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply