سوشل میڈیا اور مذہبی استحصال۔۔۔۔انوار احمد

 ایک عرصے سے فیس بک ، واٹس اپ اور دوسرے ذرائع ابلاغ پر مختلف لوگوں اور حلقوں کی جانب سے مذہبی مواد پر مبنی میل ، طغرے ، پوسٹس ، احادیث اور قرآنی آیات ، پند و نصائح اور تبلیغی دعوت کے علاوہ جہنم کے روح فرسا منظر اور جنت کے خوبصورت مناظر اور حوروں کی ترغیبات شامل ہیں موصول ہورہی ہیں ۔۔ جس میں اس پر بھی زور دیا جاتا ہے کہ اس کو لائک کیا جائے اور دوسروں کو فارورڈ بھی کیا جائے بصورت دیگر کسی ناخوشگوار حادثے یا گناہگار ہونے کی خبر سنائی جاتی ہے ۔ جبکہ انہی میل کو فارورڈ کرکے آخرت میں سرخرو ہوا جاسکتا ہے ۔ اکثر حضرات رمضان سے مہینوں قبل رمضان کی نوید سب سے پہلے سناکر اپنی جنت پکی کررہے ہیں ۔

ایک اور رواج چل نکلا ہے کہ موبائل فون پر نعت اور قرآنی آیات کی تلاوت رنگ ٹون کے طور پر لگا دی جاتی ۔۔ میرے نزدیک ایسے تمام اعمال سے آیات مقدسہ کی بے حرمتی اور نعتیہ کلام کی تضحیک ہوتی ہے ۔ کال وصول کرنے والا کسی ایسی جگہ پر بھی ہوسکتا ہے جہان اس قسم کی کال نہیں لے سکتا یا وہ اسے کاٹ دیتا  ہے ۔۔ یہی حال دوسری  ایپس کا ہے لوگ اکثر بن پڑھے ہی ان پیغامات کو ڈیلیٹ کردیتے ہیں جو توہین کے زمرے میں ہی آتا  ہے ۔ اکثر حضرات حج اور عمرے کے دوران بیت اللہ اور مسجد حرام کے بیک ڈراپ میں حالت احرام میں سیلفیاں بناتے ہیں اور سعی و طواف کی وڈیو بنا کر اپ لوڈ کردیتے ہیں اس سے نامعلوم وہ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔

میری فہم اور سمجھ کے مطابق یہ مقام مقدسہ اور حرم کی بےادبی اور توہین ہے ۔۔ میں ایک گناہگار اور عاصی بندہ ہوں اور اس قابل نہیں ہوں کہ ان معاملات میں اپنے رائے کا اظہار کروں لیکن میری سمجھ یہ نہیں آتا کہ لوگوں کو دوسروں کی آخرت اور انجام کی اتنی فکر کیوں ہے اور ہر ایک اپنے نظریات دوسروں پر کیوں تھوپنا چاہتا ہے ۔ کیوں دوسروں کو زیادہ سے زیادہ مسلمان بنانے پر تلا ہوا ہے ۔ کیا زیادہ بہتر نہیں ہوگا کہ پہلے ہم خود اپنی اور اپنے زیر کفالت افراد کی صحیح طور پر تربیت کرلیں اور ایک بہتر انسان بن جائیں جو دوسروں کیلئے وبال نہ ہو ۔

کیا یہ بات کبھی کسی نے سوچی ہے کہ واٹس ایپ اور سوشل میڈیا پر بھیجے جانے والے طغرے ،مذہبی ،تبلیغی پیغامات اور اور ہمارے خلاف مبینہ سازشوں سے بھرپور میسیجز، تصاویر اور پیغامات کہاں سے Generate ہوتے ہیں کون یہ دھماکہ خیز خبریں لاتا ہے اور کون ہے وہ جو دوسروں کی عاقبت کے لیے فکر مند رہتا ہے اور مختلف وظائف ،دعائیں اور عمل بتا کر آپکے تمام مسائل کا فوری حل دیتا ہے اور ہم سب کو جنت کی بشارت اور ثواب دارین کی خوشخبری دیتا ہے ۔۔۔ کون ہے جو مختلف مواقع واقعات اور حالات میں و یہود اور نصاری کی سازشوں کو بے نقاب کرتا ہے ۔ آخر کس کو پڑی ہے یہ تمام ” نیک کام ” کرنے اور اپنا ” قیمتی وقت ” آپکی محبت میں برباد کرے ۔۔۔

ان تمام باتوں کا مختصر جواب صرف اتنا سا ہے کہ اس قسم کے میسیجز اور پیغامات مختلف فون کمپنیاں اور میڈیا ہاؤس  چلاتے ہیں تاکہ جذباتی عوام ان کے پیغامات بغیر سوچے سمجھے دوسروں کو فارورڈ کرتے رہتے ہیں اور خود کو اس کار خیر میں شامل محسوس کرتے ہیں جبکہ در حقیقت وہ ان فون کمپنیوں اور میڈیا ہاؤسز  کے آلہ کار بن جاتے ہیں اور ان کی آمدنی کا ذریعہ بھی ۔۔ جس کے نتیجے میں فون کمپنیاں کروڑوں روپے کماتی ہیں اور سادہ لوح عوام انکے جال میں نا دانستہ طور پر پھنستے چلے جاتے ہیں ۔

میں ذاتی طور پر اس قسم کے میسجز کو کبھی کسی کو فارورڈ نہیں کرتا ۔ جہاں تک بات ہے میرے ایمان اور عقیدے کی یہ میرے اور میرے اللہ کا معاملہ ہے ۔ اگر کوئی ادارہ ، گروہ ،قوم یا فرد اللہ اسکے رسول اور کتاب اللہ کی خدانخواستہ توہین کرتا ہے تو مجھے یقین ہے اللہ عز و جل ان سے کہیں زیادہ طاقتور اور قوت رکھتا ہے اور ان سے نمٹنے کی مکمل قدرت رکھتا ہے ۔۔۔۔۔ قرآن میں اللہ نے بارہا اپنے بنی سے کہا کہ تم انکی زیادہ فکر نہ کرو – ان پر اور انکے دل پر مہر لگا دی گئی ہے یہ تمھاری بات نہیں سمجھ سکتےاے نبی تم ان کو چھوڑدو ان سے ہم خود نمٹ لیں  گے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

آپ حضرات کے خیالات اور نکتہ نظر میرے نزدیک قابل احترام ہیں لیکن میرا ان سے متفق ہونا بالکل ضروری نہیں اسی طرع آپ پر بھی لازم نہیں کہ مجھ سے متفق ہوں ۔۔۔ آخر میں میری اپنے تمام دوستوں ، بہی خواہوں اور شناساؤں  سے گزارش ہے کہ مجھے دینی اور تبلیغی مواد پر مبنی میل / پوسٹ ، تصاویر ، طغرے ، اور ویڈیو نہ ارسال کیا کریں ۔ میری کوشش یہی ہے کہ میں جتنا اپنے مذہب اور مسلک کو جتنا جانتااور سمجھتا ہوں پہلے اس پر عمل کرلوں اور کسی صورت اپنی ذات کو اللہ کے بندوں کیلئے فائدہ مند بنالوں اور انکے کسی کام آجاؤں تو یہی غنیمت ہے ۔ ہاں اگر مجھے واقعی کبھی کسی مسئلہ پر مشورے اور ہدایت کی ضرورت محسوس ہوئی تو میں کسی مستند اور باعلم عالم سے رابطہ کرلوں گا۔۔ میری باتوں کو منفی تناظر میں نہ دیکھا جائے اور دعاؤں میں اس کم علم کو ضرور یاد رکھیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”سوشل میڈیا اور مذہبی استحصال۔۔۔۔انوار احمد

  1. چچا جان ،

    آپکی تحریر ہمیشہ کی طرح بہت اہم موضوع پر علمی دلائل کے ساتھ ہوتی ہے۔

    فرحان

  2. بہت خوب ، محترم انوار احمد صاحب ، سلامتی ہو ۔ آپ کی تحریر پڑھ کر یوں لگا کہ گویا، ’’ یہ بھی میرے دل میں تھا ‘‘ ۔ آپ نے کو کچھ لکھا ہے، بر حق ہے ۔ اللہ ہمیں اس پر غور و فکر اور عمؒ کرنے کی تقفیق دے ۔ آمین ۔

Leave a Reply