ملال…سچی کہانی ۔۔ فوزیہ قریشی

میں اکثر سوچتی ہوں۔ ماں جی کسی بات پر ملال کیوں نہیں کرتی تھیں؟
“اگر کبھی زبان سے کوئی غم بیان کرتی تو اندازایسا صابر کہ مجال ہے خدا کی ذات سے کوئی شکوہ ہو۔ اتنے غم میری ماں جی نے جوانی میں ہی دیکھ لئے تھے ۔چھوٹی سی عمر میں شادی ہو گئی ۔ سال بعد اللہ نے ایک چاند سے بیٹے سے نوازا۔ ماں جی بتاتی تھیں اس کے ماتھے پر اک لاٹ تھی۔ سرخ سفید وہ ننھا فرشتہ جب مسکراتا تو پیشانی پر موجود وہی لاٹ اس کے حسین چہرے کو اور بھی حسین بنا دیتی۔ گھر میں جیسے ایک رونق آگئی۔ دادا، نانا اور نانی سب صدقے واری جا رہے تھے۔لیکن کوئی نہیں جانتا تھا یہ خوشی عارضی ھے دوسرے دن ہی وہ ننھا مہمان جہاں سے آیا تھا وہیں واپس چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہتے ہیں جس کے ماتھے پر لاٹ ہو ایسے بچے نہیں بچتے جب تک اس کا خوب چرچا نہ کیا جائے۔۔۔۔اس لاٹ کو کم ہی لوگ دیکھ پاتے ہیں۔ اگر اسے کوئی دیکھ لے تو فورا” اس کا خوب چرچا کیا جائے.” یعنی سب کو بتایا جائے اور صدقہ خیرات کی جائے۔۔۔۔۔۔ماں جی کہتی تھیں ۔۔ جس نے بھی دیکھی اس نے اس کا چرچا بچے کی موت پر کیا۔”
کہتے ہیں، اگر خاموشی اختیار کی جائے تو وہ بچہ نہیں بچتا۔۔۔۔۔۔ یہ روائیتی توہم پرستی ہے۔
جو ہمارے ہاں پنجاب اور سندھ کے دیہی علاقوں میں بہت عام ہے۔ اسے پنجابی میں لاٹ کہتے ہیں، سندھی اور سرائیکی میں” مانڑکی ” یا “ماننکی”۔۔۔۔۔۔۔۔پرانے زمانےکے لوگ بھی سادہ تھے اس توہم پرستی پر دل سے یقین کرتے تھے۔….
“ماں جی بھی سادہ مزاج کی تھیں۔ کوے کے بولنے اور کنگھی کے گرنے پر مہمان کا انتظار بڑے اہتمام سے کرتی تھیں۔ کالی بلی کے راستہ کاٹنے پر بھی ان کی پریشانی بڑھ جاتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔کسی نے کہا بچےکو نظر لگ گئی ہے تو کوئی بولا ماں پر کسی کا پرچھاواں ہے۔ غرضیکہ جتنے منہ اتنی باتیں۔۔۔۔۔اپنے پہلے بیٹے کی اس اچانک موت سے ماں جی صدمے میں چلی گئیں۔۔ کیوں نہ ہوتیں ؟ جسے نو مہینے کوکھ کے سات پردوں میں پل پل محسوس کیا ہو۔ اس کے دل کی دھڑکن سے لے کر، کھانے پینے اور یہاں تک اس کی مچلتی اٹھکیلیاں بھی ، جب وہ کروٹ بدلتا تو ایسا محسوس ہوتا جیسے کوئی اپنے ننھےننھے پاؤں کی ہلکی سی آ ہٹ سے ما ں کو احساس دلا رہا ہے کہ ماں جی میں ٹھیک ہوں۔ آپ فکر نہ کریں۔ جلد آپ سے ملوں گا لیکن ماں جی سے ملاقات کا لمحہ اتنا مختصر ہوگا۔۔۔۔ ماں جی نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔
ماں جی کے ساتھ یہ ایک بار ہوتا تو  شائد برداشت کر لیتیں لیکن جس کی کوکھ کے پانچ لعل کسی نہ کسی وجہ سے اس دنیا سے رخصت ہو جائیں۔ اس ماں پر کیا گزرتی ہو گی۔ ؟میرا نمبر بہن ، بھائیوں میں تیسرا تھا۔پہلا جو ایک رات کا مہمان بنا ۔ دوسرا ندیم جو تین سال ماں جی کی آنکھوں کا تارا بنا رہا ۔اور ایک رات وہ بھی اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اس طرح ماں جی کا دوسرا لعل بھی ان کو اک نہ ختم ہونے والا غم دے گیا۔۔۔میں اس وقت چھ ماہ کی تھی۔۔۔میں نے بھیا کو تصویروں میں دیکھا۔ میرے بعد ماں جی کو اللہ نے ایک اور بیٹی سے نوازا اور اس کے بعد تین بھائی آئے اورمہمان بن کر ٹھہرے اور واپس جہاں سے آئے تھے وہیں چلے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ماں جی جب جب وہ وقت یاد کرتیں تو زبان سے کوئی شکوہ نہیں کرتی لیکن آنکھیں برسنا شروع کر دیتیں اور صرف اتنا کہتی میرے بیٹے کاش زندہ ہوتے تو اس آنگن میں بھی چہل پہل ہوتی اس پر والد صاحب بڑے پیار سے سمجھاتے اوہ اللہ کی بندی۔، سچ میں ماں جی اللہ کی بندی ہی تھیں۔ پانچ بیٹوں کی جدائی کا دکھ ایک ماں کے لئے کسی ملال سے کم نہ تھا۔۔ ایسا ملال جو تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کیا اور اف تک نہ کی۔
“مجھے وہ وقت نہیں بھولتا کبھی جب والد صاحب دو بار معصوم فرشتوں کی ڈیڈ باڈی ہسپتال سے گھر لائے تھے اور ماں جی ہسپتال میں تڑپ رہی تھیں۔ والد صاحب تدفین کرکے واپس ہسپتال لوٹ گئے ۔۔۔ہمارے پاس کون تھا اس کا ہوش نہیں تھا۔نہ ہی یاد لیکن نماز جنازہ اور وہ خوفناک اور منحوس رات آج بھی لاشعور کے کسی کونے میں ایک بھیانک ملال کی طرح موجود ہے۔”
کہتے ہیں ماں بیٹیوں کے غم سانجھے ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہ ملال صرف ماں جی کے نہیں تھے۔ ہم دو بیٹیوں کے بھی تھے۔۔۔ اپنی ماں کے غم کی آنچ کوہم اس کم عمری میں بھی محسوس کر سکتی تھیں۔۔۔ ایک معصوم فرشتے کو چھ ماہ تک ہم دونوں بہنیں ایسے پالتی رہیں جیسے ہم ہی اس کی ماں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔میں اس وقت چھ سال کی تھی اور چھوٹی بہنا چار سال کی۔۔ اس کے باوجود دونوں اس کے آگے پیچھے گھومتیں جیسے یہی ہماری گڑیا ہے۔۔۔ ماں جی اس کی صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھتی تھیں۔۔۔ ایک ایک قدم پھونک پھونک کر چلتیں ۔چار بیٹوں کی جدائی نے ماں جی کو جسمانی طور پر ہی نہیں بلکہ ذہنی لحاظ سے بھی کھوکھلا کر دیا تھا چار سیزیرین آپریشن نے جسم کو کافی نقصان پہنچایا تھا۔۔۔۔۔۔۔ماں جی کبھی کبھی ہماری فرمائش پر اپنے جسم پر لگے وہ چیڑ پھاڑ کے زخم دکھاتیں  تو ہم بھی ماں جی کے ساتھ رونے لگتیں.
ماں جی کے پیٹ پر موجود وہ نشان آج بھی جب آنکھوں کے سامنے گھومتے ہیں تو بڑی اذیت دیتے ہیں اور جب جب وہ زخم رستے تو ان میں سے خون نکلتا تھا۔۔۔۔۔۔
“ماں جی یہ سب تکلیف برداشت کرتیں اور گھر کی سب ذمہ داریاں بھی بخوبی نبھاتی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔لاہور شہر میں صرف ہمارا گھر ہونے کی وجہ سے جس کو بھی لاہور گھومنا ہوتا یا یونی ورسٹی میں داخلے لینے اور جاب کی غرض سے بھی دور کے رشتے دار اکثر ہمارے گھر موجود ہوتے تھے ۔ماں جی مہمانوں کو اللہ کی رحمت مانتی تھیں اس لئے ان کی خدمت بھی جی جان سے کرتی تھیں۔ا ن کے کپڑے اپنے ہاتھوں سے دھوتی تھیں۔۔۔۔۔گھر کے سب کام لال مرچ ، نمک خود ہاتھ سے پیستی تھیں۔ گندم صاف کرتی اور اپنے سامنے چکی سے پسواتی تھیں ۔ خالص زمانہ خالص لوگ نہ کوئی فریب نہ کوئی غرض اتنے غم کے ہوتے بھی ماں جی نے کسی بھی ذمہ داری سے منہ نہیں موڑا اور نہ والد صاحب سے کبھی روائیتی بیویوں والی فرمائشیں کیں ۔کبھی کبھی کام کی زیادتی سے زخم رسنے لگتے تب بھی ماں جی والد صاحب سے اس کا شکوہ نہ کرتیں۔ ”
سچ میں ماں جی درویش تھیں۔۔۔۔۔۔عثمان بھیا چھ ماہ کی عمر میں ہم سے دور چلے گئے۔ مجھے آج بھی وہ رات یاد ہے جب ہم ایک شادی سے واپس آئے توعثمان بھیا کوگوجرانوالہ میں ڈبے کے دودھ کی عدم دستیابی کی وجہ سے بھینس کا دودھ پلایا گیا جو اس ننھے فرشتے کے معدے کو راس نہیں آیا اوراس طرح بھینس کا دودھ بہانہ بنا جبکہ موت تو برحق ہے ۔۔۔۔۔۔ہم شادی سے واپس اپنی نانی کے گھر  میں صرف ایک رات ہی گزار سکے صبح چار بچے بھیا دست اور قے کی زیادتی کی وجہ سے ہم سے ہمیشہ کے لئے دور چلے گئے۔۔۔۔ماں جی نے رشتے داروں کی بڑی بڑی باتیں برداشت کی اور کبھی اف تک نہ کیا۔۔۔۔۔۔ شادی بیاہ اور بچے کی پیدائش جیسے اہم موقع پر بھی ماں جی لوگوں کی باتوں کی وجہ سے قریب نہ جاتی تھیں کہ کوئی کچھ کہہ نہ دے ۔۔۔۔ما ں جی کو عثمان بھیا کے بعد اللہ نے دو بیٹوں سے نوازا جن کی لمبی عمر کے لئے ماں جی سجدوں میں دعائیں کرتیں ۔۔۔۔۔ اکثر ہائی بلڈ پریشر رہنے کی وجہ سے ماں جی کو دل کے عارضے نے لے لیا۔
“ماں جی کو پہلا دل کا اٹیک بھی میرے ایک فیصلے کی وجہ سے ہی آیا ۔ وہ ملال بھی آج تک زندگی کے ساتھ جونک کی طرح چمٹا ہوا ہے۔اس اہم فیصلے پر تو کبھی ملال نہیں ہوا لیکن ماں جی کے پہلے اٹیک کی وجہ میں بنی یہ ملال ساری زندگی رہے گا۔۔۔۔۔۔کیونکہ اس میرے ایک فیصلے سے میں تو سکون میں آگئی لیکن بہت سارے چاہنے والوں کے لئے ملال کا سبب بن گئی۔”
سچ میں ملال انسان کو جینے نہیں دیتا۔ آگے بڑھنے نہیں دیتا ماضی میں دھکیلتا ہے پل پل تڑپاتا ہے۔
“ماں جی کو جب پہلا فالج کا اٹیک ہوا اس وقت میں یوکے میں تھی۔اک رات خواب دیکھتی ہوں کہ ماں جی آگ میں لپٹی ہوئی ہیں اور بے چین ہیں لیکن پھر اس آگ سے بچ جاتی ہیں ۔ اس خواب نے مجھے ڈرا دیا اور میں رات کے اسی پہر پاکستان فون کرتی ہوں کہ مجھے ماں جی سے بات کرنی ہے ۔  مجھے کہا جاتا ہے ماں جی ٹھیک ہیں بس سو رہی ہیں۔ اور دل کہتا ہے نہیں ماں جی تکلیف میں ہیں۔۔۔۔۔۔۔ادھر میں تڑپتی ہوں ادھر ماں جی کو انہیں لمحوں میں ہسپتال لے جایا جاتا ہے ۔ ماں جی آئی سی یو میں زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں جس کی تکلیف دل محسوس کرتا ہے لیکن جب جب فون کرتی ہوں سب سےبات کروا دیتے تھے ایک ماں جی کو چھوڑ کر اور جب میں پوچھتی تو کبھی کوئی بہانہ بنا دیتے تو کبھی کوئی، ان کے لاکھ مطمن کرنے پر بھی دل مطمن نہیں ہوتا تھا ۔
تیسرے دن مجھے ماموں سے خبر ملتی ہے کہ ماں جی کو اسی رات فالج کا اٹیک ہوا تھا وہ سب مجھے پردیس میں پریشان نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس لئے چھپا رہے  تھے۔”
یہ ملال کہ ماں جی کے پاس نہیں ہوں۔ کسی اذیت سے کم نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔چاہ کر بھی پردیس کی مجبوریوں نے، ماں جی سے بروقت ملنے نہ دیا۔۔۔۔۔ماں جی مکمل بستر کی ہو گئیں۔بھائی، بہن اور والد صاحب نے ماں جی کی دن رات خدمت کی اور ان کو دوبارہ چلنے پھرنے کے قابل بنایا اور جب میں ماں جی سے ملی وہ چھڑی پکڑ کر چلنے کے قابل ہو چکی تھیں۔۔۔۔۔۔۔ مجھے یہ ملال میں اس تکلیف دہ وقت میں ۔ماں جی کی خدمت نہ کر سکی۔ وقت پر ان کے پاس نہ پہنچ سکی۔۔۔جب ماں جی کو دوسرا فالج کا اٹیک ہوا تو میں ایمرجنسی میں ان کے پاس پہنچ توگئی لیکن میرے جانے کے بعد وہ چند دن زندہ رہیں ۔ وہ بھی ہسپتال میں، میرے جانے سے وہ ایک رات اورآدھے دن کے لئے گھر آئیں لیکن شائد وہ صرف میرے لئے دی گئی ماں جی کو اللہ کی طرف سے اس خواہش کی مہلت تھی ۔جو وہ اکثر مانگتی تھیں کہ بس ایک بار مجھے دیکھ لیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرا یہ ملال کے اس بار بر وقت پہنچ کر بھی،ماں جی کے ساتھ صرف پانچ دن نصیب ہوئے۔۔۔۔ ان میں سے بھی صرف ایک رات اور آدھا دن، باقی وقت ہسپتال میں ملاقات کے وہ چند گھنٹے تھے۔
آخر وہ تکلیف بھری گھڑی بھی آن پہنچی۔جب ایک صبح ہسپتال سے بھائی نے فون پر بتایا کہ ماں جی ہمیں چھوڑ گئیں ہیں، ہمیشہ کے لئے۔
تکلیف دہ لمحات کیسے گزرتے ہیں؟ یہ صرف وہی جانتا ہے جس پر گزر رہی ہوتی ہے۔۔
یہ ملال بھی ساری زندگی نہیں جائے گا کہ ماں کے لئے اس بار زیادہ وقت کے لئے وطن گئی اور صرف دو دن اوروہ چند گھنٹے نصیب ہو سکے۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے ملال ہیں لکھنے بیٹھ جائیں تو ختم ہی نہ ہوں لیکن ماں سے جڑے ملال ناسور کی طرح اندر گھر کر چکے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔جب جب رستے ہیں بہت تکلیف دیتے ہیں اللہ میری ماں کے درجات بلند فرمائے آمین اور اس رمضان کے بابرکت مہینے میں ان کی مغفرت فرمائے آمین۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply