چہرہ فروغ مے سے گلستاں(قسط2)۔۔فاخرہ نورین

صبح سویرے کسی کھلے پیمپر سے میرا یہ تعارف پہلا تھا نہ آخری ۔یہ سلسلہ جنوں سے زیادہ دراز تھا کہ میرے علاوہ ہر عورت زرخیز زمین تھی اور بے نیاز بھی ۔ اگر وہ بھی میری طرح پیمپر اور پجامے دیکھ دیکھ الٹیاں کرتیں تو پھر یہ پیمپر کہاں سے آتے۔ میرے مصائب آسمانی کم اور زمینی زیادہ تھے۔ زندگی میں ملتے سرپرائزز خوشگوار بھی ہو سکتے ہیں اس کا مجھے کسی زمانے میں گمان تھا لیکن اب تو میں جانتی ہوں کہ وقت کی تقویم اور خاندان کی تقسیم میں میرے حصے میں صرف شاک ہیں، سرپرائز نہیں ۔میں ان کے لئے ہر دم ہمہ دم تیار رہنے کے باوجود کسی اناڑی کی طرح نہتی، حیران پریشان اور مشتعل رہ جاتی ہوں ۔
گاؤں میں تقریباً ہر گھر میں نظر آتے اس منظر میں کم و بیش ایک ہی تصویر کو کبھی بڑے اور کبھی چھوٹے فریم میں دیکھا جا سکتا ہے ۔استاد اللہ بخش کی پینٹنگ اور پی ٹی وی پر نشر ہونے والے ڈرامے بدقسمتی سے ان مناظر کو یاد ماضی سمجھ کر فراموش کر دیتے ہیں لیکن یہ حقیقت جتنی تلخ اور بدبو دار ہے اتنی ہی پختہ اور مستقل مزاج بھی ۔
چلھانی کے پاس پڑے گندے پجامے، برتن دھونے کے لئے بنے کھرے پر رفع حاجت کے بعد دھلائی کے مراحل سے گزرتے بچے، سیڑھیوں کے پاس یا گلی کی نالی پر شلوار اتارے اور قمیض کا آگا پیچھا سائیڈ پر باندھے بچے، قمیض کا پچھلا حصہ گلے میں اڑس کر پچھواڑے ننگے کیے نالی پر ادھ لٹکے خشک روٹی کا ٹکڑا بہتی ناک سے نمکین بنائے رنگین وارداتوں میں مصروف گندے سندے بچے، کھلے صحن میں پانی کے ترونکے مار کر بٹھائی بھوبھل پر بچھی چارپائیوں پر بیٹھے پسینے میں شرابور مہمانوں کے قریب ہی فراغت کے لئے زور لگاتے بچے اور محو گفتگو عورتیں، روٹی پکاتے ٹانگوں کے بیچوں بیچ خارش کرتی اور حاصل حصول سگندھ کو پیڑے میں لپیٹتی خاندان بھر کی روٹیاں پکاتی عورتیں بچے کو شوں شوں کروا کر شہادت کی انگلی اور انگوٹھے پر لگ جاتی رطوبت کو ماہرانہ انداز میں چولھے کی سائیڈ پھینک کر مہمانوں کے لئے بسکٹ نکال کر پلیٹ میں سجاتی عورتیں ، خواک خواک تھو کر کے بلغم یہاں وہاں تھوکتے مرد، اپنی پرائی عورتوں اور بہنوں بیٹیوں کی موجودگی میں معلق باغات کو کھجلاتے اور محفل میں بیٹھ کر کیژوئلی تھوکتے مرد، بغلانِ گنجان آباد کی بدبو سے معمور اپنے آنے اور جانے کی فضائی نشانیاں چھوڑتے مرد (جو اگر ایک قسم کی مچھلی ہوتے تو نرمچھلیاں ہمہ وقت ان کے تعاقب میں جفتی کے لئے بے تاب تیرتی بھاگتی پھرتیں) یہ تمام عناصر دیہاتی زندگی میں اس کثرت سے موجود ہیں کہ وحدت کا گمان ہوتا ہے ۔
پریم چند کے افسانے ہوں کہ قاسمی صاحب کی کہانیاں، دیہاتیوں کے جھگڑوں اور ملاکھڑوں سے بھری پڑی ہیں ۔مقدمہ بازی میں زندگی گزارتے کسان، معمولی معاملات پر ایک دوسرے سے سالوں ناراض رہنے اور دشمنیاں پالنے میں عمر گزار دیتے دیہاتی جابجا نظر آتے ہیں ۔ اردو ادب میں دیہاتوں کی پیشکش میں اہل دیہہ کا عمومی مسئلہ باہمی دشمنیاں اور قتل در قتل کرنے کی رسم حاوی دکھائی جاتی ہے ۔ اس کا عمومی تاثر یہی ہے کہ اہل دیہہ اگر باہم متفق اور متحد ہو جائیں تو ان کی حالت بہتر ہو کر امن و آشتی کو فروغ ملے گا ۔ ایسا نہیں ہے کہ دیہاتی کسی بات پر متفق نہیں ہوتے ۔ گندگی اور پھوہڑ پنے کو ایک معاشرتی قدر کے طور پر قبول کیا جاتا ہے ۔ پھوہڑ پن کے لیے ہزار گھڑے گھڑائے جواز موجود ہیں لیکن گندگی کے لئے تو جواز بھی نہیں کیونکہ اس پر اعتراض ہی نہیں اٹھایا جاتا ۔باتھ رومز چونکہ اب بھی کم کم یا مقابلتا دیر سے بنتے ہیں لہذا ان کی صفائی ستھرائی کا تصور رائج نہیں ہو سکا۔ کھیتوں میں ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا جوڑے ناک دوپٹے سے ڈھکے اپنی اپنی حاجات رفع دفع کرتی عورتیں باتھ روم کو بھی ایک پختہ کھیت ہی سمجھتی ہیں جس میں فراغت کے بعد پانی ڈالنا اضافی بلکہ غیر ضروری کارروائی سمجھا جاتا ہے ۔ کوئی باتھ روم کا گندہ فرش اور غلاظت بھرے کموڈ مائنڈ نہیں کرتا باتھ روم گندگی کے لئے ہے سو گندہ تو ہو گا ۔خس کم جہاں پاک۔ میں چار سالوں میں دو چار گھروں ہی کو گنوا سکتی ہوں جن کے باتھ روم میں جاتے کراہت آمیز احساس نہیں ہوا۔ورنہ ہر گھر میں داخل ہوتے ہی منٹو کا افسانہ موتری یاد آنے لگتا ہے اور آپ کے دماغ میں تیزابی بدبو محو رقص رہتی ہے ۔
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔