جغرافیہ کے قیدی (6) ۔ روس ۔ پڑوسی/وہاراامباکر

جب سوویت یونین ٹوٹا تو اس سے پندرہ ممالک برآمد ہوئے۔ جغرافیہ نے اپنا انتقام لیا اور نقشے پر زیادہ منطقی تصویر ابھری۔ پہاڑ، جھیل، دریا، سمندر ان ممالک کو الگ کرتے تھے۔ الگ جغرافیہ، کلچر اور زبان رکھنے والی قومیں الگ ہو گئیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر آپ تاریخ کا طویل نظارہ دیکھیں (جیسا کہ ملٹری سٹریٹجی بنانے والے یا سفارتکار کرتے ہیں) تو روس ان تمام سابقہ ریاستوں سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔
وارسا اتحاد کے ممالک اب تین طرح کے ہیں۔ ازبکستان، آذربائیجان، ترکمانستان کی طرح نیوٹرل۔ ان کے پاس اپنی انرجی ہے۔ تجارت یا سیکورٹی کے لئے کسی پر انحصار نہیں۔
روس کے حامی، جیسا کہ قازقستان، کرغستان، بیلاروس، تاجکستان اور آرمینیا۔ ان کی معیشت روس کے ساتھ بندھی ہوئی ہے اور روس کے ساتھ عسکری اتحاد CSTO کا حصہ ہیں۔
اور پھر مغرب کے حامی جیسا کہ اسٹونیا، لتھونیا، پولینڈ، چیک ری پبلک، بلغاریہ، ہنگری، البانیہ، سلواکیہ، رومانیہ۔ ان میں وہ ریاستیں ہیں جو سوویت جبر کا زیادہ شکار ہوئی تھیں۔
اور پھر تین ریاستیں جو مشکل پوزیشن میں ہیں۔ یوکرین، جارجیا اور مولڈووا۔ ان کی طرف سے ناٹو میں شمولیت میں دلچسپی دکھانا بھی اقدامِ جنگ سمجھا جائے گا۔
جب تک یوکرین میں روس کی حامی حکومت رہی تھی، یہ بفر زون رہا تھا۔ نیوٹرل کو برداشت کیا جا سکتا ہے لیکن اس مغرب کی طرف جھکنا قابلِ قبول نہیں ہو گا۔ روس کے لئے یہ سرخ لکیر ہے۔ جرمنی اور امریکہ یوکرین میں مغرب پسند حکومت لانے کے لئے مداخلت کرتے رہے ہیں۔
فروری 2014 میں بدامنی پھیل جانے کے بعد پیوٹن کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا تھی۔ اور انہوں نے کریمیا کو قبضے میں لے لیا۔ یہاں پر سیواسٹوپول کی بندرگاہ روسی معیشت کے لئے انتہائی اہم ہے۔
اور بات صرف یہی تک نہیں۔ بلکہ یہاں سے نکلنے والے بحری جہازوں کو بحیرہ روم تک پہنچنے کے لئے باسفورس سے اور پھر ایجین سمندر سے گزرنا ہوتا ہے جو کہ 1936 کے معاہدے کے بعد ترکی کے پاس ہے۔ یہ ناٹو کا ملک ہے اور ان دونوں ممالک کے پیچیدہ تعلقات کی وجہ بھی۔ اور بحیرہ روم کے راستے کو کھلا رکھنے کے لئے روسی بحریہ سیریا کے ساحل پر ٹارٹس کے مقام پر ہے۔ اگرچہ محدود تعداد میں ہے لیکن شام کی خانہ جنگی میں روسی کردار کی یہ وجہ رہی ہے۔
روس کا ایک اور مسئلہ ڈنمارک اور ناروے کے قبضے میں آبنائے سکاریگاک کا ہے جو اسے نارتھ سمندر سے ملاتا ہے۔
اور یہ وجہ ہے کہ کریمیا کو ضم کرنے کے بعد روس نے وقت ضائع نہیں کیا۔ فوری طور پر بحری بیڑہ تیار کرنا شروع کیا۔ نئی بحری بندرگاہ تعمیر کی۔ 80 نئے بحری جنگی جہازوں اور متعدد آبدوزوں سے اسے لیس کیا۔ جولائی 2015 میں نئی ڈاکٹرائن جاری کی۔ اور اس میں اول نمبر کا خطرہ NATO کو قرار دیا۔ اس میں ناٹو کی افواج اور جنگی ساز و سامان کی روس کے قریب موجودگی کو ناقابلِ قبول قرار دیا گیا جو جنگ کا سبب بن سکتی ہے۔
امریکہ کی جواب میں ترکی اور رومانیہ کو دی جانے والی بحری امداد کی وجہ روس کا جواب دینا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کریمیا دو سو سال تک روس کا حصہ رہا تھا۔ سوویت صدر خروشیف نے 1954 میں اس کو یوکرین کو دے دیا گیا تھا۔ اس وقت خیال تھا کہ سوویت یونین ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔ تو اس سے فرق کیا پڑتا ہے۔ سفارت کاری کی ابتدائی کتابیں بھی بتائیں گی کہ اگر کوئی عظیم طاقت خود کو خطرے میں محسوس کرے گی تو اپنی طاقت استعمال کرے گی۔ کریمیا اور یوکرین میں مغربی طاقتوں کی مداخلت اس سبق اور روسی تاریخ کو نظرانداز کرنے کا نتیجہ تھی۔
مغربی طاقتوں کا خیال تھا کہ یوکرین کو لبھا لیا جائے تو روس کچھ نہیں کر سکے گا۔ لیکن عالمی سیاست کے اصول اکیسویں صدی میں بھی تبدیل نہیں ہوتے۔
یوکرین کی طرف سے کئی ایسے اقدامات لئے گئے جو کہ روس کی نظر میں اشتعال انگیز تھے۔ روسی کو سرکاری زبان کے طور پر ختم کرنا ان میں سے ایک تھا۔ اگرچہ یہاں پر روسیوں کی اچھی تعداد موجود تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کریملن میں ایک قانون ہے جو کہتا ہے کہ “نسلی طور پر روسیوں کی حفاظت روس کی ریاست کرے گی، خواہ وہ کہیں پر بھی ہوں”۔ کریمیا کی ساٹھ فیصد آبادی روسی تھی تو روس نے اس قانون کو استعمال کیا۔ یوکرین کی فوج دستبردار ہو گئی اور کریمیا روس کا ڈی فیکٹو حصہ بن گیا۔
جغرافیہ کے حقائق کے سبب روس کے لئے یہ قبضہ کرنا اس کی سیکورٹی کے لئے لازم تھا۔ اس بندرگاہ تک رسائی کھونا افورڈ نہیں کر سکتا تھا۔
اس پر یورپی یونین نے محدود پاپندیاں لگائیں۔ چونکہ جرمنی سمیت کئی یورپی ممالک کی توانائی کا منبع روس میں ہے تو ان ممالک کی طرف سے ردِعمل بھی محدود رہا۔
یوکرین کا علاقہ روس نے کیتھرین اعظم کے دور میں اٹھارہویں صدی میں عثمانی سلطنت سے حاصل کیا تھا۔ یہاں پر روسی بسائے تھے اور روسی کو پہلی زبان کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ یہاں پر بسنے والے کئی ملین روسی سوویت شہری تھے۔ اور روس نے یوکرین میں ان کی مدد سے کارروائیاں کی ہیں کیونکہ مقامی آبادی کو اکسانا جنگ کرنے کا آسان اور سستا ترین طریقہ ہوتا ہے۔
کریمیا کو ضم کر لینے کا فیصلہ روس کے حق میں رہا۔ مغربی طاقتوں کی طرف سے زبانی مذمت سے بات آگے نہیں بڑھی۔
لیکن یہ ختم نہیں ہوا۔ بالٹک ریاستوں کو اپنا زیرِنگیں رکھنا روسی قومی مفاد کے لئے اہم رہے گا۔
جارجیا میں 2008 میں اور یوکرین میں 2014 میں عسکری کارروائی ایک پیغام تھا کہ ناٹو زیادہ آگے نہ آئے۔ پولینڈ میں جنگی مشقیں یا ناٹو کے جنگی طیاروں کی بالٹک میں پروازیں روس کے لئے نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply