بدن (67) ۔ سانس/وہاراامباکر

خاموشی سے اور ایک ردھم کے ساتھ، سوتے ہوئے اور جاگتے ہوئے، ہر روز آپ بیس ہزار سانس اندر اور باہر کرتے ہیں۔ اس میں تقریبا پندرہ ہزار لٹر ہوا کو پراسس کرتے ہیں۔ (ٹھیک عدد کا انحصار اس پر ہے کہ آپ کتنے بڑے ہیں اور کتنے ایکٹو ہیں)۔ ایک سال میں تہتر لاکھ اور شاید عمر بھر میں پچپن کروڑ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

زندگی کی کسی بھی اور شے کی طرح، سانس میں بھی اعداد و شمار دماغ کو چکرا دینے والے ہیں۔ ہر سانس کے ساتھ آپ آکسیجن کے 25000000000000000000000 مالیکیول لے جاتے ہیں۔ یہ اتنے زیادہ ہیں کہ ایک روز میں آپ کی لی گئی سانسوں میں دنیا کے ہر انسان کی لی گئی سانس سے آنے والا کم از کم ایک مالیکیول ضرور مشترک ہو گا۔ ہر اس شخص سے جو زمین پر رہ چکا اور ہر اس شخص کا جس نے ابھی زمین پر آنا ہے۔ ایٹموں کی سطح پر ایک لحاظ سے ہم سب لافانی ہیں۔
یہ مالیکیول ہمارے نتھنوں سے جسم میں داخل ہوتے ہیں اور ہوا سر میں پائی جانے والے ایک پرسرار کیویٹی سے گزرتی ہے۔ یہ sinus cavity ہے۔ سر کے تناسب سے یہ بہت زیادہ جگہ لیتی ہے۔ اور کسی کو معلوم نہیں کہ ایسا کیوں ہے.۔
بین اولیور کا کہنا ہے کہ “sinus ہمارے سر میں بنے ہوئے غار ہیں۔ “اگر سر کو ان کے لئے اتنی جگہ نہ مختص کرنا پڑتی تو زیادہ بڑا دماغ فِٹ ہو سکتا تھا”۔
یہ مکمل طور پر خلا نہیں۔ اس میں ہڈیوں کے پیچیدہ نیٹورک بنے ہوئے ہیں۔ خیال ہے کہ یہ سانس لینے کو زیادہ ایفی شنٹ بناتے ہیں لیکن کیسے؟ اس کا پتا نہیں۔ ان کا کوئی کام ہے یا نہیں، لیکن کئی بار یہ ہمیں تکلیف دیتے ہیں۔ ہر سال اینٹی بائیوٹک لینے والے بیس فیصد لوگ یہاں کی بیماریوں کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ sinus کی زیادہ بیماریوں کی وجہ وائرس ہیں اور اینٹی بائیوٹک ان پر کچھ اثر نہیں کرتیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھیپھڑے صفائی رکھنے میں بہت مہارت رکھتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق، ایک اوسط شہری دن میں بیس ارب ذرات سانس سے اندر لے جاتا ہے۔ مٹی، صنعتی آلودگی، پولن، فنگس اور ہوا میں معلق دوسری اشیا۔ ان میں سے بہت سی چیزیں ہماری طبیعت خاصی ناساز کر سکتی ہیں لیکن ہمارا بدن بڑی حد تک ان کا مقابلہ کرنے کا فن رکھتا ہے۔ اگر باہر سے آنے والے ذرات بڑے ہوں تو ان کا دفاع چھینک یا کھانسی ہے۔ جس سے یہ باہر نکل جائیں گے (اور کئی بار کسی اور کا مسئلہ بن جائیں گے)۔ اگر یہ چھوٹے ذرات ہیں تو سانس کی نالی کی بلغم میں پھنسا لئے جائیں گے۔ یا پھر پھیپھڑوں کے bronchi یا tubule انہیں پکڑ لیں گے۔ اس نالی کے راستے میں کروڑوں سیلا ہیں جو بال کے جیسے ہیں۔ یہ چپو کی طرح کام کرتے ہیں اور ایک سیکنڈ میں سولہ بار حرکت کرتے ہیں۔ یہ باہر سے آنے والوں کو چپیڑ مار کر واپس گلے میں پہنچا دیں گے۔ گلے سے یہ معدے میں پہنچ جائین گے اور یہاں کے تیزاب میں حل ہو جائین گے۔ اور اگر یہ بیرونی حملہ آور ان سے بچ جائیں تو انہیں تباہ کر دینے والی مشینوں کا سامنا ہو گا۔ یہ alveolar macrophage ہیں جو انہیں ہڑپ کر جائیں گی۔
اس سب کے باوجود بھی کچھ پیتھوجن کبھی کبھار بچ جاتے ہیں اور آپ کو بیمار کر دیتے ہیں۔ بس، زندگی ایسی ہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھیپھڑوں کا وزن 1.1 کلوگرام ہے اور یہ سینے میں اس سے زیادہ جگہ لیتے ہیں جتنا عام طور پر خیال کیا جاتا ہے۔ یہ گردن کے قریب سے شروع ہوتے ہیں اور چھاتی کی ہڈی کے آخر تک جاتے ہیں۔
ان کا ابھرنا خود آزادانہ طور پر نہیں ہوتا۔ انہیں ایک اہم پٹھے سے اس کے لئے مدد ملتی ہے۔ یہ ڈایافرام ہے۔ ڈایافرام صرف ممالیہ کے پاس ہے اور بڑی مفید چیز ہے۔ یہ پھیپھڑوں کو نیچے سے کھینچتا ہے اور انہیں طاقتور طریقے سے کام کرنے میں مددگار ہے۔ اس سے تنفس کی ایفی شنسی بہتر ہوتی ہے اور ممالیہ اپنے عضلات تک زیادہ آکسیجن لے جا سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ مضبوط ہو سکتے ہیں اور اپنے دماغ کا زیادہ استعمال کر سکتے ہیں۔
سانس کی ایفی شنسی کو مزید مدد اس بات سے ملتی ہے کہ باہر کی دنیا میں ہوا کا پریشر میں پھیپھڑوں کے قریب کی جگہ (pleural cavity) کے پریشر سے کچھ فرق ہے۔ سینے میں ہوا کا پریشر فضا سے کچھ کم ہے جس وجہ سے پھیپھڑے پھولے رہتے ہیں۔ اگر سینے میں ہوا گھس آئے، جیسا کہ پنکچر زخم سے، تو پھیپھڑے پچک کر اپنے سائز سے صرف ایک تہائی رہ جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سانس لینا ان چند خودکار کاموں میں سے ہے جسے ہم کسی حد تک خود مرضی سے کنٹرول بھی کر سکتے ہیں۔ آپ اپنی مرضی سے اپنی آنکھ جتنی دیر بند رکھنا چاہیں، رکھ سکتے ہیں لیکن سانس کو نہیں۔ آپ کا خودکار سسٹم کنٹرول لینے لگے گا اور سانس لینے پر مجبور کر دے گا۔ سانس کو زیادہ دیر تک روکنے سے جو بے آرامی ہوتی ہے، وہ آکسیجن کی کمی سے نہیں، بلکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ بڑھ جانے سے ہوتی ہے۔ اسی لئے اگر آپ زیادہ دیر تک سانس روکے رکھیں تو پھر جو پہلا کام جسم کرتا ہے، وہ سانس کو زور سے باہر نکالنا ہے۔ جسم کو تازہ ہوا اندر لے جانے سے زیادہ اندر کی ہوا باہر نکالنے کی فوری ضرورت پڑتی ہے۔ جسم کو کاربن ڈائی آکسائیڈ کا بڑھ جانا بالکل پسند نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سانس روکنے کے معاملے میں انسان پھسڈی ہیں۔ اور مجموعی طور پر سانس کے بارے میں بھی۔ ہمارے پھیپڑے تقریباً چھ لٹر ہوا سنبھال سکتے ہیں لیکن ہم ایک وقت میں صرف آدھ لتر اندر لے جاتے ہیں۔
سب سے زیادہ دیر تک سانس روکنے کا ریکارڈ سپین کے الیکس وینڈریل کے پاس ہے جنہوں نے فروری 2016 میں 24 منٹ اور 3 سیکنڈ تک سانس روکا۔ اس سے پہلے انہوں نے کچھ دیر تک آکسیجن بڑی مقدار تک سونگھی تھی اور بہت دیر تک پانی میں ساکن پڑے رہے تھے تا کہ جسم کی توانائی کی مانگ کم سے کم سطح پر لائی جا سکے۔ آبی جانوروں کے مقابلے میں یہ بہت قلیل وقت ہے۔
کئی اودبلاو دو گھنٹے تک پانی کے اندر رہ سکتے ہیں جبکہ ہم میں سے زیادہ تر کیلئے ایک منٹ بھی دشوار ہے۔ جاپان میں موتی تلاش کرنے والے مشہور غوطہ خور لوگ ama بھی ایک وقت میں دو منٹ سے زیادہ کا غوطہ نہیں لگاتے۔ (یہ دن میں البتہ ایک سو سے زیادہ غوطے لگاتے ہیں)۔
۔۔۔۔۔۔۔
مجموعی طور پر ہمیں چلائے رکھنے میں پھیپھڑوں کا بڑا کام ہے۔ ایک اوسط سائز کے بالغ شخص کی کھال بیس مربع فٹ ہے۔ جبکہ پھیپھڑوں کے ٹشو کا رقبہ ایک ہزار مربع فٹ ہے۔ سانس کی نالیوں کو اگر سیدھا کر دیا جائے تو یہ ڈیڑھ ہزار میل ہو گی۔ اور سینے جتنی چھوٹی سے جگہ پر ان سب آلات کو بڑی صفائی سے فِٹ کرنا اس بات کو ممکن کرتا ہے کہ ہم بہت سی آکسیجن اندر لے جا سکیں اور اربوں خلیات تک اسے پہنچا سکیں۔ اس نفیس پیکنگ کے بغیر ہمیں بحری کائی کی طرح ہونا پڑتا۔ سینکڑوں فٹ تک پھیلا ہوا تا کہ خلیات سطح کے قریب ہوں اور آکسیجن کا تبادلہ کر سکیں۔
اور سانس لینا جتنا پیچیدہ کام ہے، اس میں کچھ حیرت کی بات نہیں کہ اس میں بہت سے مسائل بھی ہوتے ہیں۔ حیرت کی بات شاید یہ ہے کہ ہم کئی بار ان مسائل کی وجہ کے بارے میں کتنی کم جانکاری رکھتے ہیں۔ اور ایسا ایک عارضہ دمہ ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply