مجلس ترقی ادب۔۔آغرؔ ندیم سحر

مجلس ترقی ادب میں نئی تقرری کا معاملہ اس قدر سنگین ہے کہ ادبی اور صحافتی حلقوں کی طرف سے تاحال تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

راقم نے بھی گزشتہ کالم میں ذکر کیا تھا کہ سنجیدہ لکھاریوں کو اس معاملے سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں کہ مجلس کا ناظم کون بن گیا اور کسے بننا چاہیے تھا بلکہ دکھ کی بات یہ ہے کہ سابق ناظم کو جس بھونڈے اندازمیں عہدے سے ہٹایا گیا اور جس طرح منصور آفاق کی طرف سے سابق ناظم ڈاکٹر تحسین فراقی پر بہتان لگائے جا رہے ہیں‘یہ امر قابل ِافسوس اور قابل ِاحتجاج ہے۔ منصور آفاق کے گزشتہ کالم میں لگائے جانے والے الزامات کا تفصیلی جواب (ڈاکٹر تحسین فراقی کے خط کی صورت میں) محترم حسن نثار نے اپنے گزشتہ کالم میں دے دیا۔محترم عطاء الحق قاسمی نے بھی اپنے کالم میں راقم کی بات کی تصدیق کی کہ ڈاکٹر تحسین فراقی کے ساتھ جو ہوا‘وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔کیونکہ یہ ادارہ اور یہ سیٹ اگر سیاسی بن گئی تو مستقبل میں اس عظیم ادارے کا نام ”مجلس ترقی ادب“ کی بجائے”مجلس ترقی حکومت“ رکھنا پڑے گا۔مزید یہ کہ مجلس کی سیٹ کو اگر سیاسی بنانا اور من پسند صحافیوں کو نوازنا ہی تھا تو طریقہ واردات بدلا جا سکتا تھا،اس بھونڈی حرکت کا ذمہ دار کوئی بھی ہو،ناقابلِ معافی ہے۔

منصور آفاق کے کالم کے بعد راقم نے استادِ مکرم ڈاکٹر تحسین فراقی سے اس معاملے کی تصدیق کرنے کے لیے تفصیلی رابطہ کیا۔ نومنتخب ناظم نے اپنے کالم میں یوں تو کئی بلنڈر مارے مگریہ کہنا کہ مجلس میں کئی ایسے لوگ کام کر رہے تھے‘جو کبھی دفتر نہیں آئے‘مگر تنخواہیں کھا رہے تھے‘تشویش ناک ہے۔بقول ڈاکٹر تحسین فراقی کہ اس شخص کا نام احمد رضا ہے اور وہ امتیاز علی تاج کے دور سے مجلس کے ساتھ بطور مدون کے کام کر رہا ہے۔شہزاد احمد کے زمانے میں اس کا کنٹریکٹ ری نیو نہ ہوسکا‘ہم نے اپنے دور میں جب محسوس کیا کہ ہمیں ایک مدون کی ضرورت ہے جو منجھا ہوا بھی ہو اور تحقیق و تدوین کے کام سے گہری واقفیت رکھتا ہو تو احمد رضا کا نام ذہن میں آیا۔مختصر یہ کہ اسے واپس لایا گیا‘اس شخص کو ابھی ڈیوٹی جوائن کیے ایک ماہ بھی نہیں ہوا تھا کہ اس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا جس سے اس کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی۔اس نے استعفیٰ بھجوا دیا‘ انسانی ہمدردی اور مجلس سے پرانی وابستگی ہونے کی وجہ سے ہم نے اسے کہا کہ تدوین کا کام گھر پر بھی ہوسکتا ہے‘آپ چونکہ ہمارے پرانے دوست ہیں لہٰذا جب تک آپ صحت یاب نہیں ہوتے‘کام آپ کے گھر بھجوا دیں گے‘آپ کام جاری رکھیں۔یوں اس شخص کا استعفیٰ واپس کر دیا گیا۔اس کے علاوہ کوئی ایک بندہ بھی ایسا نہیں جو دفتر نہ آتا ہو اور اسے تنخواہ دی جا رہی ہو۔دوسرا الزام لگایا گیاکہ مجلس بھوت بنگلہ تھا اور صفائی نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔یہ بات بھی ماننے میں نہیں آتی کیونکہ فراقی صاحب صفائی کی نگرانی تک خود کیا کرتے تھے۔ کالم میں یہ بھی کہا گیا کہ مجلس کی لائبریری عرصہ دراز سے بند پڑی ہے‘یہ بھی سفید جھوٹ ہے کیونکہ راقم درجنوں بار مجلس کے دفتر گیا‘مجلس کی لائبریری سے استفادہ کیا۔اورینٹل کالج اور گورنمنٹ کالج سے سینکڑوں ایم فل اور پی ایچ ڈی اسکالرز مجلس کی لائبریری جاتے تھے‘لائبریری میں موجودکلاسیکی ادب سے مستفید ہوتے تھے۔کالم میں موصوف نے یہ بھی کہا کہ کتب خانے میں موجود درجنوں قلمی نسخے چوہے کھا گئے‘حالانکہ وہاں کوئی قلمی نسخہ ایسا نہیں ہے جو شائع نہ کیا گیا ہو یا جس کے شائع کرنے کے انتظامات نہ کیے گئے ہوں۔نو منتخب سیاسی ناظم نے یہاں تک کہا کہ مجلس نے ادب عالیہ کے تراجم نہیں کیے‘اب خدا جانے ان کے نزدیک ادبِ عالیہ کسے کہتے ہیں مگر مجلس کے مقاصد میں معیاری تراجم کا کہا گیا‘ادب عالیہ کا ذکر نہیں ہے۔یہ بھی کہا گیا کہ کلاسیکی کتب کے دیباچے سینکڑوں صفحات پر ہیں‘یہ بھی جھوٹ ہے۔

محبانِ منصور آفاق کی طرف سے یہاں تک کہا گیا کہ مجلس کی زیر اہتما م شائع ہونے والا تحقیق مجلہ بھی اپنی انفرادیت اور اہمیت گنوا چکا‘اس میں چونکہ شاعروں کو جگہ نہیں دی گئی لہٰذا مجلس کے سابقہ رسالے کسی کام کے نہیں۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ جب مقصدر مجلس کی نظامت تھا‘وہ تو مل گئی۔اب سابقہ ناظمین جو ادبی قد کاٹھ میں منصور آفاق سے ہزار درجے بلند مرتبے پر فائز ہیں‘ان پر الزام لگانا‘ان کے کام کو فضول اور بے مقصد کہنا کہاں کی نا انصافی ہے۔منصور آفاق اساتذہ کو نااہل اور بے کار ثابت کر کے وہ حکومت کو کیا جتانا چاہتے ہیں؟یا تو موصوف، بزدار حکومت سے کسی اور بڑی تقرری کے خواہش مند ہیں یاپھروہ جھوٹ بول کر اپنے تقرری کو سو فیصد درست ثابت کرنا چاہتے ہیں،اس کے علاوہ مجھے اور کچھ نہیں سمجھ آتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں اب بھی ان ادیبوں اور دانش وروں کی خاموشی پر حیران ہوں جو فراقی صاحب کے زمانے بھی ان کے دفتر کے چکر کاٹتے تھے اور اب منصور آفاق کے زمانے میں محض اس لیے خاموش ہیں کہ کہیں مجلے سے ہماری غزل نہ نکال دی جائے یا مجلس کی کسی کانفرنس یا سیمینارمیں ہم باہر نہ ہو جائیں۔میرے گزشتہ کالم کے  بارے کہا  گیا کہ چونکہ میں فراقی صاحب کا شاگرد ہوں‘لہٰذا شاگردی کی وجہ سے کالم لکھا۔ میں یہاں واضح کر دوں کہ میں نے فراقی صاحب سے کلاس روم میں بیٹھ کر ایک دن بھی نہیں پڑھا(جس کا افسوس ہے)۔مگر ان کی کتب‘تحقیقی مقالہ جات اور کانفرنسوں میں دیے گئے خطبوں سے بہت کچھ سیکھا‘لہٰذا میں ان کا (باقاعدہ نہ سہی)شاگرد ہونے پر فخر محسوس کرتا ہوں۔میں ابھی بھی کئی ایسے ناقدین اور دانش وروں کے احتجاجی مضامین اور کالموں کا انتظار کر رہا ہوں جنہیں اس ناانصافی اور ظلم پر آواز اٹھانی چاہیے تھی مگر نہیں اٹھائی گئی۔کم از کم پاکستان کے نامور ادیبوں اور لکھاریوں کو احتجاج ریکارڈ کروانا چاہیے،یہ احتجاج اس لیے نہیں کہ ہمیں کوئی منصور آفاق سے دشمنی ہے بلکہ اس لیے کہ جس بھونڈے طریقے سے ایک استاد اور محقق کو بے عزت کر کے عہدے سے ہٹایا گیا اور اب ان پرمسلسل بہتان لگائے جا رہے ہیں‘یہ قابلِ افسوس اور ناقابل برداشت ہے‘یہ سلسلہ رکنا چاہیے۔پاکستان بھر کی جامعات سے شعبہ اردو کے صدور اور ادبی اداروں کے سربراہان کوچاہیے کہ وہ حکومت کوخط لکھیں اور معاملے کی سنگینی سے آگاہ کریں۔کیونکہ اگر فراقی صاحب کے حق میں صدائے احتجاج بلند نہ کی گئی تو یاد رکھیے گا ایک دن آئے گا جب اکادمی ادبیات پاکستان‘اردو سائنس بورڈ‘ادارہ فروغ زبان اردو‘نیشنل بک فاؤنڈیشن سمیت دیگر ادبی اداروں کے سربراہان بھی صحافی‘کالم نویس اور حکومتی چاپلوس ہوں گے۔خدارا اس دن سے ڈریں اور حکومت کو کم از کم ایک خط لکھ کر معاملے کی سنگینی سے آگاہ کریں۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply