خاموش اکثریت کی الجھن /ڈاکٹر مختیار ملغانی

دنیا کی بھاری اکثریت خاموش و غیر فعال ہے ، اور یہی اکثریت انسانی سماج کے تاریخی و تمدنی ارتقاء کا آئینہ بھی ہے، یہ خاموش اکثریت دیہاتوں کی نسبت شہروں میں کہیں زیادہ ہے ۔
ان کے برعکس قلیل اقلیت فعال ہے، بلند آواز بھی رکھتی ہے ۔ اقلیت کی اس بلند آواز کا مقصد خاموش اکثریت کو اپنے ساتھ جوڑنا ہے تاکہ وہ ان کی آواز میں اپنی آواز شامل کرتے ہوئے ان کے نظریات کو تقویت دے۔ فعال اقلیت مختلف گروہوں کی شکل میں موجود ہے، ان میں سے ہر ایک کی اپنی آئیڈیالوجی ہے۔
طاقت کا اصل مآخذ مگر پھر بھی یہ خاموش اکثریت ہے، وہ اس لئے کہ اقلیتی گروہوں کی تمام توانائی انہی کی توجہ حاصل کرنے پہ صرف ہو رہی ہے، ایک محاورے کے مطابق، گھر کا اہم ترین فرد وہ نہیں جو پیسے کما رہا ہے، بلکہ وہ ہے جس پہ پیسے خرچ کئے جا رہے ہیں ۔

یہ اقلیتی گروہ تین قسم کے ہیں، روایت پسند، لبرل اور بنیاد پرست ۔ ان میں سے ہر گروہ اپنے نظریات کو کسی نعرے کی مدد سے سامنے لاتا ہے اور سماجی وروحانی مشکلات کا حل پیش کرتا ہے۔
روایت پسند کا شعار، خیر، ہے، وہ خیر کو مقدم جانتا ہے اور اسی کی تبلیغ کرتا ہے، اسے لگتا ہے کہ خیروامن نہ صرف تمام انفرادی و اجتماعی مسائل کا حل ہیں بلکہ انسان کے فکری ارتقاء کا چشمہ بھی یہیں سے پھوٹتا ہے، اور اس کے نزدیک خیر کا مقام پیدائش مقامیت ہے، اپنی زمین، اپنے پہاڑ، اپنے دریا ، اپنی تہذیب اور اپنا رہن سہن۔ یہ فطرت ہے جو فرد کو ماحول میں موجود نقصان دہ عناصر سے حفاظت کی ضمانت دیتی ہے۔ بیسویں صدی کی جنگوں اور صنعتی انقلاب نے اس گروہ کو پچھلے قدموں پہ ضرور دھکیلا ہے لیکن یہ گروہ موجود ہے اور فعال ہے ۔

لبرل گروہ کا معاملہ مختلف ہے، ان کے نزدیک مقدم خیر نہیں بلکہ خوشی ہے، انسان چونکہ ہمیشہ خوشی کا متلاشی اور آرزومند رہا ہے، لہذا اس مختصر زندگی میں زیادہ سے زیادہ خوشی کشید کر لینی چاہئے، انفرادیت اور انسانی حقوق کا پرچار بھی فرد کی خوشی کے پیشِ نظر کیا گیا کہ خوشی ہی فرد کی ذات کو استحکام دیتی ہے، سرمایہ دارانہ نظام نے اس فکر کو تقویت دی ہے، اسی لئے خوشی کو ڈھونڈھنے کی جستجو اگر کی جائے تو اس کیلئے لبرل گروہ ہمیں مارکیٹ کا پتہ بتاتا ہے، جہاں ہر چیز تیار ملتی ہے اور آپ اپنی استطاعت کے مطابق خوشی کا مخصوص حجم خرید سکتے ہیں، چاہیں تو بھینس کو بھی گھر رکھنے سے معذرت کر سکتے ہیں جب دودھ مارکیٹ میں دستیاب ہے۔، اور اس انتخاب پر کسی کی مداخلت کو ذاتی زندگی پر حملہ تصور کیا جائے گا۔

تیسرا گروہ بنیاد پرست ہے، اس گروہ کا کہنا ہے کہ خیر اور خوشی ثانوی چیزیں ہیں، اصل چیز عدل ہے، عدل ہی وہ خاصیت ہے جس کی مدد سے فرد دنیوی و اخروی زندگی میں کامیاب ہو سکتا ہے، عدل کی غیر موجودگی میں کوئی دوسرا وصف سماج میں نہیں پنپ سکتا، لہذا عدل کو ام الاوصاف ہونے کی وجہ سے باقی تمام پر ترجیح دی جانی چاہیے، اور عدل کی جستجو کیلئے آسمانی طاقتوں سے رجوع کرنا چاہیے ، آفاقی پیغام پر عمل پیرا ہونے سے ہی عدل قائم کیا جا سکتا ہے۔

خاموش اکثریت کو مگر یہ تینوں نعمتیں (خیر، خوشی اور عدل) مطلوب ہیں، بدقسمتی دیکھیے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی اسے بیک وقت میسر نہیں، وہ گھٹن میں ہے، بولنا چاہتا ہے لیکن جانتا ہے کہ اس کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ بلند نہیں، لہذا وہ خاموشی کو ترجیح دیتا ہے، اس کی یہی خاموشی اندرونی کشمکش کا باعث بنتے ہوئے اضطراب کو جنم دیتی ہے۔ کیونکہ یہ تینوں گروہ جن نعروں سے خاموش اکثریت کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کی تعریف میں تضاد ہے، روایت پسند جس مقامیت کی بنیاد پہ خیر کا پرچار کر رہا ہے، خاموش اکثریت کے نزدیک وہ مقامیت کی بجائے دقیانوسیت ہے، لبرل خوشی کی پیشکش کرتے ہوئے مارکیٹ کا راستہ دکھاتا ہے، خاموش اکثریت کو لگتا ہے کہ لبرل خوشی اور لطف میں فرق کرنا بھول گیا ہے، بنیاد پرست جس عدل کے قائم کرنے کیلئے آسمان کی طرف انگلی اٹھاتا ہے، یہ خاموش اکثریت اسے مذہب کی آڑ میں سیاسی و سماجی اقتدار پر قبضے کی خواہش سے تعبیر کرتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس بے زبان فرد کی آنکھوں پہ سہہ تہی سراب چڑھا دیا گیا ہے، وہ جدوجہد کرتا ہے لیکن منظر دھندلا ہے، ہاتھ پاؤں مارنے کے باوجود بھی دھند نہیں چھٹ رہی، بے چینی بڑھتی جا رہی ہے، لیکن چونکہ طاقت کا منبع یہی بے زبان ہے اس لئے ریاستی سرپرستی میں ،منظم جرائم پیشہ گروہوں کی مدد سے اس کی نبض بھی وقتاً فوقتاً ٹٹولی جاتی ہے کہ کہیں یہ آپے سے باہر ہی نہ ہوجائے کیونکہ پوری کی پوری اشرافیہ انہی تین گروہوں کا مرکب ہے، جو بظاہر تین لیکن ایک ہیں ۔
ان تینوں گروہوں میں سے اگر کوئی واقعی خاموش اکثریت کا خیرخواہ ہے اور اس کی سوئی ہوئی طاقت کو اپنے ساتھ ملانا چاہتا ہے تو اسے اپنے شعار میں سے تمام ابہام دور کرنا ہوں گے، تعصب اور ذاتی مفاد سے بلند ہوکر شفاف فکر کے ساتھ کوشش کرنا ہوگی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply