• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اتنے بڑے انکشافات اور خاموشی کا سماں۔۔ڈاکٹر ابرار ماجد

اتنے بڑے انکشافات اور خاموشی کا سماں۔۔ڈاکٹر ابرار ماجد

پاکستان کے دستور اور سول بالادستی کو لاحق خطرات اور نقصان کے بارے انکشافات پر خاموشی کا سماں کسی بہت بڑے سانحہ کو دعوت دینے کے مترادف ہوا کرتا ہے۔ پاکستان کی سیاست کے معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سیاستدان کتنے وثوق سے روزانہ کی بنیاد پر الزامات اور انکشافات کے ڈھنڈورے پیٹ رہے ہوتے ہیں اور اگر یہ سب حقیقتیں ہیں تو پھر ان سیاستدانوں سے بڑا اس ملک کا کوئی مجرم نہیں۔

اور اگر یہ جھوٹ ثابت ہو جائیں تو پھر ان سیاستدانوں سے بڑا کوئی فاسق نہیں اور اگر غلط فہمی کی بنیاد پر بیان بازی ہو تب بھی غیر ذمہ داری اور ناپختگی کی کوئی حد نہیں۔ اس کا نقصان ہر اس شخص کو ہوتا ہے جو خدمت اور عبادت کی غرض سے اس شعبہ سے منسلک ہے۔ نتیجتاً سیاست اور سیاستدانوں سے عوام کا اعتماد ختم ہو رہا ہے اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ لوگ سیاست کو شریف اور نیک آدمی کا کام ہی نہیں سمجھتے جس کا حاصل محض شرمندگی اور ملامت ہے۔

کسی بھی شعبہ کی عزت و تکریم اس شعبہ کے اندر کام کرنے والے لوگوں کے رویوں، کردار اور کارکردگی سے ہوتی ہے۔ اب اگر اس اصول کے تحت دیکھا جائے تو پھر سیاست کی عزت و تکریم کا حال آپ کے سامنے ہی ہے اور اس ساری صورتحال کا ذمہ دار کوئی اور نہیں خود سیاستدان ہے۔ اور جب کسی شعبے کے لوگ اس کی عزت و تکریم کی حفاظت میں نا کام ہو جائیں تو پھر ان کو کسی اور پر الزام نہیں لگانا چاہیے بلکہ پورا سچ بولنے کی جرات پیدا کرتے ہوئے عوام کو اس سے آگا ہ کرنا چاہیے اور اپنے کئے پر شرمندہ ہو کر قوم سے معافی مانگنا چاہیے۔

جب انکشافات پر تردید نہ آئے تو عوام کو سمجھ جانا چاہیے کہ اس میں پورا نہیں بھی تو پچاس فیصد سچ ضرور ہے اور اگر ملک میں کوئی حکومت شے کی چیز ہو تو پھر اس کو اس طرح کے انکشافات اور الزامات کی انکوائری بھی تو کروانی چاہیے۔ جیسا کہ کل حامد میر نے خرم دستگیر کے بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ان کو پورا سچ بولنا چاہیے جو یہ ہے کہ عمران خان۔

“نیا آرمی چیف لا کر جلد الیکشن کروانا چاہتے تھے جن میں انہیں دو تہائی اکثریت دلوائی جاتی اور ان کے مخالفین، خصوصاً مسلم لیگ نواز کے خلاف ایک محاذ کھڑا کیا جا رہا تھا جس کے لئے آصف علی زرداری سے بھی رابطہ کیا گیا تھا مگر انہوں نے انکار کر دیا”۔

پھر ایک اور پروگرام میں حامد میر نے یہ بھی کہہ دیا کہ اس منصوبہ بندی کو کئی سیاستدانوں اور صحافیوں سے بھی شئیر کیا گیا تھا اور ان کو وہم دردیاں بدلنے کی تجاویز دی گئی تھیں۔ یوں تو عمران خان نے خرم دستگیر کو شاباش دیتے ہوئے ایک قسم کا اعتراف کر ہی لیا ہے کہ ان کی حکومت کن خدشات کے تحت گرائی گئی اور مہنگائی، بیروزگاری اور غربت محض ایک بہانہ تھا اور اصل میں خود کو بچانا تھا۔

لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر آئے روز اس طرح کے الزامات اور انکشافات کا جو اظہار ہوتا ہے جس کے نتائج انتہائی سنگین اور غداری کے ضمرے میں آتے ہیں، کیوں ان کی انکوائری کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی؟ اور اگر یہی رویہ رہا تو پھر اس طرح کی سوچوں کا عمل دخل کوئی تعجب کی بات نہیں۔ اور جن کو ان سوچوں سے فائدہ پہنچنے والا تھا وہ ان سہانے خوابوں کو یوں یکدم کیسے بھلا سکتے ہیں؟ ان کے اندر سے ابھی بھی اس طاقت اور اختیارات کا گھمنڈ کب گیا ہو گا؟

وہ سخت لہجوں اور الفاظ کا چناؤ کیوں نہ کریں۔ ہو سکتا ہے ان کی ابھی بھی امیدیں قائم ہوں اور وہ کسی ممکنہ مدد کی امید لگائے بیٹھے ہوں۔ بہرحال ایسی سوچوں کو ماضی کے ریفرنس سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ انہوں نے کیا حاصل کیا اور اس کے بدلے قوم و ملک نے کیا کچھ کھویا؟ آج ہمارا ہمسایہ ملک ساتھ آزاد ہونے والا اتنی مشکلات کے باوجود جمہوری اور معاشی طور پر کہاں کھڑا ہے اور ہم کہاں؟

اتنے سنگیں انکشافات اور خاموشی کا سماں انتہائی بُرے حالات کے خدشات کو جنم دے رہا ہے اور یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا یہ ملک شریف، ایماندار، اچھی سوچ، اور ریاست کے وسائل اور اختیارات تک رسائی سے محروم شہریوں کے رہنے کے قابل رہ گیا ہے؟ اس طرح کے ماحول کی وجوہات میں اخلاقی تنزلی، جوابدہی کے عمل کا مفقود ہونا اور اس پر ذمہ داران کی طرف سے بے توجہی ہیں۔ جن کا سد باب اچھی سوچ سے ہی ممکن ہے اور یہ ہمارا امتحان ہے کہ ہم اس طرح کے انکشافات کو کتنا سنجیدہ لیتے ہیں؟

ایک خوف کا سماں ہے جو خاموشی کا اشارہ دے رہا ہے مگر ملک و قوم سے محبت کا جذبہ اس بات پر اکسانے پر مجبور کر رہا ہے کہ عوام کی سوچ کو بدلنے کی کوشش کو کسی صورت بھی نہ چھوڑا جائے اور اچھے حالات کی امید کو کبھی بھی معدوم نہ ہونے دیا جائے اور اس طرح کے انکشافات کا ظاہر ہونا اور ان کا بر وقت انضباط، اور ایسی سوچوں کا پے در پے ناکام ہونا اچھی امید کی کرن ہے۔ اور اس سے امید کی جا سکتی ہے کہ دستور پاکستان کی پاسداری کا نظام پہلے سے مضبوط ہوتا جا رہا ہے جو ایک خوش آئند بات ہے۔

ایسے میں حکومت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس پر اچھی شہرت کے حامل ریٹائرڈ ججز کا کمیشن بنائے اور اس کی رپورٹ کو پبلک کرنے کی بھی جرات کرے تاکہ سلگتی چنگاریوں پر بھی پانی کا چھڑکاؤ ہو اور جہاں سے یہ آگ لگانے کی کوشش کی جاتی ہے وہاں بھی کچھ سکوں لا حق ہو، وگرنہ پھر نہ تو سیاسی عدم استحکام کے راستے بند ہونگے اور نہ ہی ووٹ کو عزت دو کی حکمت عملی چل سکے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

حکومت میں موجود جماعتوں کو کابینہ کی سطح پر فیصلے کر کے ایسے اقدامات اٹھانے چاہییں جو آئین کی پاسداری کے ضامن بنیں اور اس طرح کی سوچوں اور کوششوں کو شکست ہو اور مستقبل میں ان کی راہ بند کرنے کا سبب بنیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply