بھارتی زید حامدوں کے خواب ۔۔۔۔ ژاں سارتر

پاکستانیوں کو اکثر زید حامد کی سوچ کا طعنہ دینے والے دانشوروں کو اطلاع ہو کہ یہاں کا زید حامد تو کسی قسم کا اثر و رسوخ نہیں رکھتا لیکن بھارتی زید حامدوں کو نہ صرف سرکاری سرپرستی حاصل ہے بلکہ انہیں بین الاقوامی میڈیا تک رسائی بھی دی جاتی ہے۔ ایشیا کے معروف سیاسی جریدے “دی ڈپلومیٹ” کی 6 اکتوبر کی اشاعت میں ایک مضمون شائع ہوا ہے Imagining South Asia Without Pakistan.

 مضمون میں اس تصور کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر بحث کی گئی ہے کہ پاکستان کے بغیر جنوبی ایشیا کیسا ہوگا۔ مضمون نگار “اکھلیش پلالمری” نے اکثر انتہا پسند ہندوؤں کی مانند اس بات کا رونا رویا ہے کہ پاکستان اپنی جغرافیائی پوزیشن کی بنیاد پر بھارت اور وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے درمیان سد راہ بنا ہوا ہے اور اس خطے کے ساتھ بھارتی تجارت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ فاضل مضمون نگار سے پوچھا جانا چاہیے کہ اگر آج انہیں پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن کے اس خطرے کا احساس ہوا ہے تو پھر انہیں اس کے لیے پنڈت نہرو، سردار پٹیل اور ان کے ساتھیوں کو کوسنا چاہیے جنہوں نے برصغیر کے مسلم عوام کے ہر مطالبے کو ٹھکراتے ہوئے پاکستان کی راہ ہموار کی۔ اکھلیش صاحب، زیادہ نہیں تو جسونت سنگھ صاحب کی کتاب ہی پڑھ لیجیے۔

اس “مصیبت” کو بیان کرنے کے بعد مضمون نگار نے لکھا ہے کہ پاکستان کے ساتھ کشیدہ حالات اور کشمیر کی ٹینشن کے باعث بھارت کے بعض حلقوں میں ایک تحریک جاری ہے کہ پاکستان کو اس کی تشکیلی اکائیوں میں تقسیم کر دیا جانا چاہیے۔ یہ تحریک اور پاکستان کو توڑنے کا تصور ان کے بقول ٹویٹر کا ایک مقبول ٹرینڈ ہے اور حال ہی میں بھارتی فوج کے ایک ریٹائرڈ میجر جنرل جی ڈی بخشی نے اس موضوع پر آئی آئی ٹی مدراس میں ایک تقریر بھی کی ہے۔ چہ خوب است ۔۔۔۔ گویا جنرل حمید گل وہاں بھی پائے جاتے ہیں۔

آگے چل کر مضمون نگار لکھتے ہیں کہ اس تصور کو عسکری قوت سے عملی جامہ پہنانے میں سب سے بڑا خطرہ ایٹمی جنگ کا ہے جس میں بھارت کو بھی ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ اس لیے اس کا درست راستہ یہ ہے کہ پاکستانی صوبوں کو آپس میں لڑایا جائے اور اندرونی چپقلش کے ذریعے پاکستان کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا جائے اور اسی تصور پر وزیر اعظم مودی اس وقت کام کر رہے ہیں۔ یہاں مضمون نگار نے ایک بار پھر اس امر پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان کی مضبوط فوج کی موجودگی میں کوئی بغاوت کامیاب نہیں ہو سکتی جیسا کہ 1971 میں ہوا تھا۔ البتہ مشرقی پاکستان اور موجودہ پاکستان میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ آج کا پاکستان ایک جغرافیائی وحدت ہے اور پاکستانی فوج جو 1971 کے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط ہے، اس کی حفاظت کر رہی ہے۔ بنگلہ دیش والے معاملے پر بنگالیوں کو بھارتی افواج کی بھرپور مدد حاصل تھی اور اس وقت پاکستان ایٹمی طاقت بھی نہیں تھا۔

عسکری محاذ پر اس منصوبے کو ناقابل عمل تسلیم کر لینے کے بعد مضمون نگار نے ایک بار پھر اس بات پر زور دیا ہے کہ بھارت کو اس سلسلے میں اقدامات ضرور کرنے چاہئیں، بالکل اسی طرح جیسے فرانس نے 1648 سے 1871 کے درمیان جرمن ریاستوں کو غیر متحد رکھنے کے لیے کیے تھے اور اس طرح اپنی مشرقی سرحد پر چھوٹی چھوٹی اور عسکری طور پر کمزور ریاستوں کو قائم رکھتے ہوئے خطے میں اپنی بالادستی قائم رکھی تھی۔ اسی طرح بھارت کو بھی پاکستان کو چھوٹی اور کمزور ریاستوں میں تقسیم کرتے ہوئے اپنے مفادات کا تحفظ کرنا چاہیے۔ مضمون نگار نے ایک بار پھر شمال مغربی ممالک یعنی افغانستان اور وسطی ایشیا کے ساتھ اپنے تاریخی تعلقات کے درمیان حائل پاکستان کا رونا روتے ہوئے یہ فراموش کر دیا ہے کہ انہی شمال مغربی ممالک سے ہی تو وہ حملہ آور آتے تھے جنہیں آپ کی تاریخ میں لٹیرا کہا جاتا ہے اور اگر آپ کے جدید چانکیہ نہرو کو اس بات کا احساس نہیں ہو سکا کہ ایک روز سوویت یونین تحلیل ہو جائے گا اور خطے کی صورت بدل جائے گی تو اس میں ہمارا کیا قصور؟ اب اگر بھارت خطے میں بالادستی کے خواب دیکھ رہا ہے تو اسے یاد رکھنا چاہیے کہ ہر ملک نیپال اور بھوٹان نہیں ہو سکتا۔

پاکستان کی تقسیم میں حائل عوامل کا ذکر کرتے ہوئے مضمون نگار کا کہنا ہے کہ یہ تقسیم اتنی پرامن نہیں ہوگی جتنی کہ سوویت یونین کی تھی بلکہ اس کے نتیجے میں ویسی خانہ جنگی کا امکان زیادہ ہے جیسے یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے کے بعد ہوئی۔ ایسی کسی خانہ جنگی کے اثرات یقینی طور پر بھارت کے اندر بھی سرایت کر جائیں گے اور خطے میں شدید عدم استحکام پیدا ہوگا۔ زیادہ خطرہ اس بات کا ہے کہ آج تو بھارت کو ایک دشمن کا سامنا ہے لیکن معاملات بگڑنے کی صورت میں زیادہ دشمن پیدا ہوجائیں گے۔ اور اس سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ پاکستان کے جنگی وسائل اور سب سے بڑھ کر ایٹمی اثاثے کس کے قبضے میں جائیں گے؟

دوسری بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ کیا عوامی جمہوریہ چین جو خطے کی ایک بڑی طاقت ہے، وہ اپنے پڑوس میں ایسا بڑا جیو پولیٹیکل خلا پیدا ہونے دے گا اور وہ بھی ایسی صورت میں جبکہ چین پاکستان کو خطے میں بھارت کے ساتھ توازن برقرار رکھنے میں استعمال کر رہا ہے۔ یہاں مضمون نگار بھارت کا وہ کردار دانستہ فراموش کر گئے جو وہ امریکی کیمپ میں داخلے کے بعد چین اور امریکا کا توازن برقرار رکھنے کے لیے ادا کرنے کا خواہشمند ہے۔ چین پاکستان تعلقات اور سی پیک منصوبے کا نام لیے بغیر مضمون نگار کا کہنا ہے کہ چین کو سنکیانگ سے بحیرہ عرب تک رسائی صرف پاکستان کی صورت ہی میں دستیاب ہے اور وہ کسی صورت اسے کھونا نہیں چاہے گا۔ تجزیے کی اس کھونٹ بھی ناکامی کا منہ دیکھنے کے بعد ان کا کہنا ہے کہ ایسی صورت میں بھارت کو پاکستان کو قائم رہنے دینا چاہیے تاہم اس کی طاقت کو “مناسب حدود” کے اندر رکھنا چاہیے۔ اگرچہ خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں لیکن جو خواب دیکھتے ہوئے بستر گیلا ہوجائے، اس سے احتراز ہی کرنا چاہیے۔ مضمون نگار کو شاید یاد نہیں رہا کہ  پاکستان کا وجود اور اس کی فوجی طاقت بھارت کی رہین منت نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

آگے بڑھتے ہوئے پاکستان کی تقسیم کو امریکا حتی کہ ایران کے مفادات کے منافی بھی قرار دیتے ہوئے اس سے خطے میں پیدا ہونے والے شدید عدم استحکام اور دہشت گردی کے فروغ کے باعث فاضل مضمون نگار نے تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کی تقسیم ایک خطرناک عمل ثابت ہوگا۔ جبکہ انہیں خطرناک کی بجائے ناممکن عمل کہا چاہیے تھا کیونکہ خود انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ موجودہ پاکستان ایک جغرافیائی وحدت ہے اور اس کے تمام علاقے ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں اور باہم مربوط ہیں۔ البتہ  بیچارے مضمون نگار کی ہمت کی داد ضرور دینی چاہیے کہ اس تجزیے میں، جس کا ہر پہلو وہ خود ہی ناممکن تسلیم کرتے چلے آرہے ہیں، آخر میں بھی وہ امید کا دامن ہاتھ سے چھوڑتے نظر نہیں آتے اور کہتے ہیں کہ بھارت کو چند عشرے مزید انتظار کرنا چاہیے تاکہ پاکستان کی بدانتظامی اس ناممکن کو ممکن کر دکھائے۔ بھائی اگر انتظار ہی کرنا تھا تو یہ تجزیہ ابھی کاہے کو کیا ۔۔۔۔۔ پنجابی کی ایک ضرب المثل کے مطابق کووں کی خواہش پر بیل نہیں مرا کرتے ۔۔۔۔ سو میاں اگر کسی وجہ سے دی ڈپلومیٹ پر لکھنے کا موقع مل ہی گیا ہے تو کوئی کام کی چیز لکھو۔ اس طرح چلتے پھرتے خواب دیکھتے ہوئے بھیانک حادثے بھی ہو جاتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply