سب سے بنیادی شئے جس پہ جنتا نے غور نہیں کیا وہ یہ تھی کہ وہ تحریر صرف اور صرف فیک یا فراڈ ورک پرمٹ کو لے کے ان لوگوں کےلئے لکھی گئی تھی جو ستر اسّی لاکھ یا کروڑ لگا کے بچوں کو لے کے یہاں پہنچتے ہیں۔اس تحریر کا جوان آدمی یا سٹوڈنٹس سے کوئی تعلق نہ تھا۔جوان آدمی چار سال مار کھا سکتا ہے،دھکے دھوڑے برداشت کر جاتا ہے،اوکھا سوکھا وقت نکال لیتا ہے۔جوانوں کے لیے میرا پچھلے کئی سالوں سے ایک ہی مشورہ ہے،صاحب نکل لو،جہاں تک پہنچ ہو پہنچ جاؤ۔دبئی جا سکتے ہو،بحرین یا سعودیہ ؟یورپ میں کوئی آپکو ویزہ دے رہا ہے؟کوئی گورا انگریز ملک ویزہ دے رہا ہے؟جہاں آپشن ملتا ہے نکل لو۔آپکی جوانی کی آپکے پنڈ کی ٹہلیوں کو کوئی ضرورت نہیں، نہ ہی آپ کے جانے سے محلے کے تھڑے کا کوئی خسارہ ہوگا۔آپ نے جوانی کسی سٹیبل معاشرے کو دی تو وہ چند سال بعد آپکو،بلکہ آپکی نسلوں کو سنوار دیں گے۔
برطانیہ کو لے کے پہلا سوال معاشی حالات اور نوکریوں کا ہوتا ہے، تو یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اس وقت پوری دنیا پہ ایک طرز کا معاشی بحران چل رہا ہے۔ولایت کے معاشی حالات پوری دنیا کے ساتھ ہی ہیں،ملے جلے۔مہنگائی ہے اور رہائش کے مسائل بھی۔مگر اس سب کے باوجود اگر کوئی ملک آپکو ویزہ نہیں دے رہا اور یوکے آپ پہ احسان کر رہا ہے تو پہنچ جاؤ۔آپ دنیا کے جس کونے میں جائیں گے چند ماہ یا شاید سال آپکے لیے اوکھے ہونگے۔اس کا انحصار اس بات پہ ہے کہ آپ پاکستان کتنے بڑے ہڈ حرام تھے۔اگر آپ کو بازار سے دہی لاتے بھی موت محسوس ہوتی ہے،یا آپ نے پانچ سو کی ٹی شرٹ بھی ماما سے پوچھ کے لینی ہے تو پھر آپکے پردیس کا پروبیشن کافی مشکل ہوسکتا ہے۔اگر آپکو خوش قسمتی سے ہاتھ پاؤں مارنے کی عادت ہے،پنگے لینے کی عادت ہے،یا آپکے اندر کی “پھرکی” سہی کام کر رہی ہے، تو پردیس آپکے لیے ہی ہے۔
پردیس کی شروعات عموماً خوفناک ہوتی ہے،انتہائی بھیانک۔یہ آپکو نفسیاتی ،جسمانی اور معاشی طور پہ توڑ دیتی ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ آپ فیصلہ سوچ سمجھ کے کریں۔آپ یونیورسٹی کی تین یا چار سالہ ڈگری میں آنے سے اجتناب برتیں۔آپ لگاتار تین سال پندرہ ہزار سالانہ فیس نہیں ادا کر سکیں گے۔یہ کسی طور ممکن ہی نہیں۔اگر آپ ایک سالہ ماسٹرز میں آ رہے ہیں تو پہلی کوشش کریں کہ کہیں سے کوئی سکالرشپ کا جُگاڑ ہو جائے۔سرکاری،غیر سرکاری اور یونیورسٹیز کی اپنی سکالرشپس اپلائی کریں۔اگر کوئی آپشن نہ بن پائے تو ایسی جامعہ دیکھیں جس کی سالانہ فیس زیادہ سے زیادہ بارہ ہزار ہو۔ہاں آپکے پاپا کی فیکٹریاں ہیں یا جاگیریں ہیں جہاں سے سالانہ دس پندرہ کروڑ آ رہا ہے تو دوسری بات ہے۔پھر آپ بیس ہزار کیا تیس ہزار پاؤنڈ لگا کے سیدھا کیمبرج ہی آئیں۔
یہاں آکے آپکو طرح طرح کی کہانیاں ملیں گی کہ آپ کی پی آر نہیں ہو سکتی،یہاں مستقبل نہیں ہے۔ایسے کہانی باز سے پوچھیے حضور آپ کب سے ادھر ہیں؟جی بارہ سال ہو گئے ہیں،پندرہ سال ہو گئے ہیں؟تو کیا آپ غیر قانونی ہیں؟نہیں میرے پاس پاسپورٹ ہے۔تو اگر آپ کے پاس پاسپورٹ ہے تو ہمیں یہ کہانیاں سنانے کی لوجک کیا ہے؟چلو ان کی مان لیتے ہیں،یہاں پی آر نہیں ملے گی۔یورپ آپکے دروازے پہ ہے،ڈگری پوری کریں،پی ایس ڈبلیو پہ چار پیسے بنائیں اور یورپ کٹ لیں۔آپکو میپل لیف والا،رتے جھنڈے والا ملک پسند ہے تو ادھر کو نکل لیں۔جب آپ نے یوکے سے ڈگری مکمل کر لی اور پی ایس ڈبلیو پہ ہوں تو کوئی مائی کا لعل آپکا ویزہ ریجکٹ نہیں کر سکتا۔ ساری دنیا آپ کے لیے کھل جاتی ہے۔
کمائی اور فیس کی بابت مناسب اپروچ تو یہ ہے کہ آپ پاکستان بیٹھ کے ضرب تقسیم نہ کریں۔لیکن اس کے باوجود اور تھنکنگ کے سامان کے طور پہ آپکو بتا دیتا ہوں کہ سٹوڈنٹ ہوتے آپ کیش پہ کام کر کے پندرہ سو سے پچیس سو تک بنا سکتے ہیں۔اور پی ایس ڈبلیو پہ تین ہزار کراس ہو سکتا ہے۔اس کا انحصار اس بات پہ ہے کہ آپ کا سکل کیا ہے،ڈگری کیا ہے،یونیورسٹی کو فیس ہی دی ہے یا کُچھ سیکھا بھی ہے۔یا آپ کہیں کسی دیسی حرام خور کے پاس کام تو نہیں کر رہے۔اگر آپکا ایمپلائر کوئی دیسی ہوٹل ریستوراں ہے تو پھر پندرہ سو بھی بھول جائیں۔
دیسی ریستوران جو بدقسمتی سے ہمارے نئے سٹوڈنٹس کی پہلی نوکری ہوتے ہیں اُن سے بڑا حرام خور،بدتمیز اور غلیظ سوچ کا آپکو پاکستان میں بھی نہں ملے گا۔ان لوگوں کی پاکستان سے پانچ ہزار میل دور آ کے بھی ہڈیوں میں رچی پسماندگی نہیں جاتی۔دُعا اور دوا کریں کہ ان سے بچ جائیں۔کوشش کر لیں کہ کوئی ہاتھ کا ہنر،جدید آئی ٹی، ای کامرس یا ٹیلی کام ریپیئر کا ہنر سیکھ کے آئیں۔اگر سیکھنے سکھانے سے پرہیز ہے تو کم از کم ڈرائیونگ سیکھ کے آئیں اور یہاں آتے سکیورٹی کا لائسنس بنوائیں۔سکیورٹی کی شفٹوں کے علاوہ باقی آپشن آپکو آپکی فیس نکال کے نہیں دے سکتے۔
رب پہ یقین رکھیے۔ماں پیو سے دعا لیں،اور نکل آئیں۔بیس سال بعد کے پچھتاوے سے آج کا رسک بہتر ہے۔رب بھلی کرے گا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں