خطائی حِس کے جلوے /ڈاکٹر مختیار ملغانی

انگریزی زبان میں اس کیلئے معروف لفظ Hallucination ہے، اسے یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ، انسانی ادراک میں کسی شکل، روپ، آواز یا تصویر کا بغیر کسی بیرونی محرک کے جنم لینے کا نام خطائی حِس ہے، یہاں بیرونی محرک بڑا اہم ہے ، اس کی غیر موجودگی اہم ہے، اگر تو محرک موجود ہے، ایسے میں اسے کاذب خطائی حس یا توہمِ کاذب(Pseudo-hallucination) کہیں گے، یعنی کسی شکل یا آواز کی شبیہہ موجود تو ہے لیکن ادراک اسے کسی دوسرے روپ میں قبول کر رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہیلوسینیشن کا لفظی مطلب، بھٹکنا، ہے۔ راہ راست سے بھٹکنا – عربی میں یہ وہی لفظ ہے جو سورۂ فاتحہ کی، ولا الضالین، میں آیا ہے(نہ کہ ان کے راستے پر جو بھٹک گئے)، جو حق سے دور ہوئے ، حقیقت سے دور ہوئے، خطائی حِس اپنی اصل میں ادراک کا غیر حقیقی ہونا ہے ۔
ایک چیز subject ہے جو ادراک رکھتا ہے، دیکھ رہا ہے، سن رہا ہے، سونگھ رہا ہے وغیرہ وغیرہ ،، جسے وہ دیکھ، سن یا سونگھ رہا ہے وہ object ہے۔ اب اگر تو سبجیکٹ اس آبجیکٹ کی صحیح اور درست شکل، آواز، بو وغیرہ کا ادراک کر رہا ہے تو وہ نارمل انسان ہے ، اگر سرے سے آبجیکٹ موجود ہی نہیں اور سبجیکٹ کو لگتا ہے کہ وہ ہے، اسے خطائی حِس کا مریض کہا جائے گا، جو کہ شیزوفرنیا میں دیکھنے کو ملتا ہے، اور اگر آبجیکٹ موجود تو ہے لیکن سبجیکٹ کے ادراک کو اس کی حقیقت بارے مغالطہ ہوتو یہ کاذب خطائی حس ہے۔
اگر صرف نفسیاتی پہلو سے اس مظہر کو بیان کیا جائے تو درج بالا وضاحت قابلِ قبول ہے، لیکن فلسفیانہ پہلو سے یہاں ایک بڑی پیچیدگی ہے، اور وہ یہ کہ سبجیکٹ اور آبجیکٹ بطور وجود اپنی حقیقت میں نہایت پیچیدہ ہیں کہ حقیقت کثیر الجہتی شے ہے۔
صوفیانہ نکتۂ نگاہ سے یہ قدرے مختلف لیکن دلچسپ یوں ہے کہ حس کا مآخذ اور بنیاد نہ تو سبجیکٹ ہے اور نہ ہی آبجیکٹ، یہ خدا ہے جس نے سبجیکٹ اور آبجیکٹ کو وجود بخشنے کے علاوہ ادراک اور قبولیت کی خصوصیات بھی عطا کیں ، اور یہ واردات خدا ہی کی پیداکردہ کائنات کے کسی حصے میں وقوع پزیر ہو رہی ہے، لہذا مآخذ اور بنیاد خدا کی ذات ہے ۔اسی لئے صوفیانہ شعور خطائی حِس کے مریض کو پاگل کی بجائے مجذوب یا پھر فنا فی اللہ کا لقب دیتا ہے، کیونکہ مجذوب گویا کہ خطائی حس میں خدا کی موجودگی دیکھتا ہے، ایسی حِس خطائی نہیں ہو سکتی اور یہ کسی بھی حقیقت سے برتر ہے۔
اسی کی ذیلی شکل، سب مایا ہے، کا تصور ہے، اس کیلئے نفسیات کی اصطلاح illusion یعنی، سراب، بالکل درست ہے، اس کا لفظی ملطب، کسی قسم کے کھیل کی کیفیت میں مبتلا ہونا ہے۔ کھیل، کھیل کود، غیر سنجیدہ فعل۔ اور متاع الغرور اس لئے کہ کھیل میں بظاہر سب کچھ حقیقی چل رہا ہوتا ہے لیکن وہ حقیقی نہیں ہوتا، کسی شکاری جانور کے بچے جیسے شکار کی مشق کرتے ہوئے ایک دوسرے کو دبوچ رہے ہوتے ہیں، وہ حقیقت میں کھیل رہے ہوتے ہیں، کھیل سے زیادہ کچھ نہیں۔ ہندو فلسفے میں اس کائنات کی حقیقت، سب مایا ہے، کا یہی مطلب ہے کہ ہم سب ایک قسم کے کھیل میں مبتلا ہیں، جو بظاہر حقیقی ہے لیکن حقیقی نہیں ہے۔ یہی خطائی حِس ہے اور ہم سب اس “مرض” میں مبتلا ہیں ، ہم اس فریب کے اندر ہیں اور چونکہ فریب خوردہ بھی ہیں، اس لئے فریب کو سمجھ نہیں پا رہے ، البتہ مشکل سوال یہ ہے کہ کون کس کے ساتھ کھیل رہا ہے ؟
خطائی حِس ایسے میں ایک سوال بن کے سامنے آتی ہے کہ جسے ہم خطا سمجھ رہے ہیں، کہیں وہ پوشیدہ حقیقت کا کوئی روپ تو نہیں؟ حقیقت اگر بیکراں اور کثیر الجہتی ہے تو اس کے کسی بھی روپ یا رنگ کی تردید صرف اس بنا پہ نہیں کی جا سکتی کہ لوگوں کی اکثریت کو وہ دکھائی یا سنائی نہیں دیتی، کیونکہ انسانوں کی اکثریت حقیقت کے صرف ظاہری روپ سے واقف ہوتی ہے، باطنی روپ تک کم ہی لوگ پہنچتے ہیں، لیکن مذید پیچیدگی یہاں یہ ہے کہ حقیقت کے ظاہری اور باطنی روپ والے یہ دونوں گروہ حالت خواب میں ہیں،
“ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں ”
اب خطائی حِس کی اس دو دھاری تلوار سے بچنے کا واحد راستہ اس تلوار کے وسط میں قدم جمانا ہے، یعنی خواب اور بیداری کی درمیانی حالت پہ خود کو لانا ہے، تانترا اسی علم کا نام ہے، اور اس علم کو سب سے زیادہ سیاسی قائدین مشق کرتے آئے ہیں، سیاسی قائد کامل خواب یعنی ،فریب، میں رہے گا تو فریب سے نمٹ نہ پائے گا، اور بیدار اسے اس لئے نہیں ہونا کہ خواب کی کیفیات اور مشکلات سے نمٹنا تو دور کی بات، وہ ان معاملات کو سمجھنے سے بھی قاصر رہے گا، حقیقی قائد کیلئے ضروری ہے کہ وہ فریب کو سمجھتا اور جانتا ہو، لیکن خود بھی فریب خوردہ رہے ، خطائی حِس کی چالاکیاں سمجھتا ہو لیکن خود خطائی حِس کا مریض ہو، کیونکہ ایک بچہ ہی کسی کھیل کو پوری دلجمعی کے ساتھ کھیل سکتا ہے، بڑا ذہن معمولی مشکلات کو نہایت سنجیدہ لیتا ہے، غیر ضروری سنجیدگی مسئلے پر قابو پانے میں روڑے اٹکاتی ہے، بچگانہ ذہن خدا کا منتخب بیٹا ہے جو اپنے ساتھ زرخیزی لاتا ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply