دورِ حاضر میں لفظ “معجزہ ” کے استعمال کی بحث

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ “معجزہ” تو اسلام میں پیغمبروں سے نسبت رکھتا ہے، یہ جو لوگ آج کل کسی عجیب و غریب یا ناقابلِ یقین واقعے کو معجزہ کَہ دیتے ہیں، غلط ہے، کیوں کہ آج کل کے ایسے واقعات کا معجزے کے تصور سے کچھ لینا دینا نہیں۔

ان حضرات کو شاید غور کا موقع نہیں ملا، کہ الفاظ بہت دفعہ اپنے استعمال کے تناظر میں مختلف مفہوم پہنتے رہتے ہیں۔ ایک لفظ ایک پس منظر،ایک ماحول یا ایک شعبۂ علم میں ایک معنی دیتا ہے اور دوسرے میں اس سے مختلف۔ تناظر ، کلچر ،ماحول وغیرہ کے بدلنے سے مفہوم کے مختلف ہونے کی ہزاروں مثالیں ہیں۔ فی الواقع آج کے احوال میں جب کسی حیرت انگیز یا غیر متوقع واقعے کے لیے کہا جاتا ہے کہ :معجزہ ہو گیا، تو وہ کسی اصطلاحی مفہوم میں نہیں ہوتا، بلکہ اس سے مراد کبھی تو اللہ کی قدرت کے عجائب اور ان کے وقوع کے تسلسل کا اظہار ہوتا ہے اور کبھی کسی انہونی اور غیر متوقع واقعے پر تعجب کا اظہار۔ مثلاً: “فلاں کا الیکش جیت جانا معجزہ ہی ہے۔” کے الفاظ میں معجزے سے کوئی ان پڑھ بھی وہ معجزہ مراد نہیں لے رہا ہوتا، جس کا تعلق انبیا سے ہے۔ اس کو ایک اور مثال سے سمجھیے: ہم بعض اوقات کسی سخت غیر متوقع واقعے وغیرہ کے حوالے سے کہتے ہیں : یار یہ تو قیامت کی نشانی ہے!، اب ظاہر ہے کہ یہاں قیامت کی نشانی سے کوئی اصطلاحی علامتِ قیامت مراد نہیں ہوتی،بلکہ ایک عجیب بات پرحیرت کا اظہار کیا جا رہا ہوتا ہے۔مختلف پس منظر میں مفہوم مختلف ہوتا ہے، لیکن حیرت و استعجاب اور غیر معمولی پن کا مفہوم ہر جگہ موجود ہوتا ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ الفاظ کے مختلف مواقع کے لیے استعمال سے مفہوم بدلنے کے باوجود لغوی مفہوم کسی نہ کسی شکل میں ان کے اندر عموماً ملفوف ہوتا ہے۔

بعض احباب کا خیال ہے کہ کثرتِ استعمال سے اس لفظ کا اصل مفہوم گم ہو جانے کا اندیشہ ہے، اس لیے اس سے گریز کرنا چاہیے۔لیکن یہ بھی ایک سطحی خیال ہے۔استعمال کا تناظر اس کا مفہوم واضح کر دیتا ہے، مزید برآں ایسے مواقع پر بھی معجزے کا اصل مفہوم اس میں داخل ہوتا ہے ، یعنی عام متبادر اسباب کے برعکس ہوجانے والا واقعہ۔ اس سے بجائے اصلی مفہوم کے متاثر ہونے کے اس کی تایید ہوتی ہے۔پھر اس کے استعمال کے جوازپر اس استدلا ل کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اٹھتے بیٹھتے یہ لفظ استعمال کیے جانے کی ترغیب دی جا رہی ہے، نہ ایسا کوئی عام طور پر کرتاہی ہے،یہ کسی حیرت انگیز یا مافوق الاسباب واقعے کے لیے ہی عام طور پر استعما ل ہوتا ہے۔ ہاں اگر کوئی اس تناظر کے بغیر استعمال کرتا ہو، تو غلط ہو گا ، لیکن میرے علم میں نہیں کہ کم ازکم ہماری سوسائٹی میں کچھ لوگ اس سے ہٹ کر استعمال کرتے ہیں ، اس لیے کہ ہمارے یہاں یہ لفظ مستعمل ہی اس تناظر میں ہوا ہے، جو مافوق الاسباب اور معمول سے ہٹ کر وقوع پذیرواقعے کی تعبیر کا مذہبی پس منظر ہے۔

یہاں یہ وضاحت بھی دلچسپ رہے گی کہ لفظ معجزہ ہم اسلامی تناظر میں جس طرح بطورِ اصطلاح استعمال کرتے ہیں، اس کا وجود کتاب وسنت یا اولین اسلامی لٹریچر میں نہیں ملتا۔ یہ بعد کے زمانے میں پیغمبروں وغیرہ سے متعلق قرآن کی آیات ، بینات اور برہان وغیرہ کے مفہوم کو ظاہر کرنے کے لیے وضع کی جانے والی اصطلاح ہے۔
بعض مغربی سکالرز نے معجزے کی تردید کرتے ہوئے اسلام میں اس کی موجودگی کی نفی کرنے کے لیے لکھا کہ یہ اصطلاح کتاب وسنت اور ابتدائی اسلامی لٹریچر میں نہیں پائی جاتی، یہ بعد کے زمانوں میں اسلامی لٹریچر میں درآئی۔ معجزات سے انکاری بعض تجدد پسند مسلم اہل تفسیر نے بھی یہ نقطۂ نظر اختیار کیا ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ معجزے کا لفظ قرآن میں کہیں نہیں آیا۔بعض جگہوں پر آیات وغیرہ کے الفاظ کوغلط طور پر معجزے سے تعبیر کیا گیا ہے ، اس سے فی الواقع آیاتِ قرآنی مراد ہیں ۔اس استدلال سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اسلام میں معجزات بعد کا تداخل ہے، اصلاً قرآن میں معجزات کو کوئی ذکر نہیں،قرآن جدید علم کے اس استدلال کے موافق ہے کہ معجز ےوعجزےبس توہمات اور افسانے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمارے نزدیک بعض مستشرقین اور تجدد پسند مسلم اہلِ تفسیرکا مذکورہ استدلال کا یہ جزو تو ٹھیک ہے کہ اولین اسلامی لٹریچر میں لفظ معجزہ بہ طور اصطلاح استعمال نہیں ہوا( لغوی معانی یا مشتقات کی شکل میں اس میں یہ لفظ موجود ہے، لیکن فی الوقت اس کا اس بحث سے تعلق نہیں)، مگر اس کی بنیاد پر یہ کہنا کہ قرآن یا اسلامی لٹریچر کے لیے معجزہ بہ طورِ نظریہ اور تصور ہی اجنبی ہے، بالکل غلط دعوی ہے، اس لیے کہ معجزے کا مفہوم قرآن کے الفاظ آیات اور برہان وغیرہ پر مبنی ہے، اور یہ جس نوع کا مفہوم دیتا ہے وہ ان الفاظ کی نہایت اہم اور درست تعبیر ہے۔بہت سے مقامات پر آیات سے آیاتِ قرآنی کسی طرح مراد نہیں لی جا سکتیں ،عجائبات ِ قدرتِ الہیہ مراد لینے کے سوا چارہ نہیں رہتا۔ اس پر تفصیلی بحث ایک الگ مضمون میں کی جائے گی۔ان شاء اللہ ۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شہباز منج
استاذ (شعبۂ علومِ اسلامیہ) یونی ورسٹی آف سرگودھا،سرگودھا، پاکستان۔ دل چسپی کے موضوعات: اسلام ، استشراق، ادبیات ، فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور اس سے متعلق مسائل،سماجی حرکیات اور ان کا اسلامی تناظر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply