• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بادشاہت،جمہوریت اور عہدِ نبوی کا نمونہ(تیسرا،آخری حصّہ)۔۔مرزا مدثر نواز

بادشاہت،جمہوریت اور عہدِ نبوی کا نمونہ(تیسرا،آخری حصّہ)۔۔مرزا مدثر نواز

آپﷺ جو پیغمبر ہونے کے علاوہ ایک امیر کی حیثیت بھی رکھتے تھے‘ لوگوں نے اس حیثیت سے آپ پر جو سخت سے سخت اعتراض کیا‘ آپ نے اس کو کس حلم اور عفو سے سنا اور معاملہ کا فیصلہ کیا یا واقعہ کی تفصیل فرما کر لوگوں کی تسلی کر دی‘ ذرا اسلام کے امیر کو زمانہ کے سلاطین اور امراء کے غرور و تبختر سے ملائیے جو رعایا کی ذرا ذرا سی بے ادبی اور گستاخی پر ان کو سخت سے سخت عبرتناک سزائیں دیتے ہیں اور ان کا قانون اس کو جائز قرار دیتا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ ان کے قانون کی سب سے پہلی دفعہ یہی ہے کہ ذات شاہانہ ہر مواخذہ سے بری اور ہر داروگیر سے برتر ہے اس سے بھلا بُرا جو کچھ ہو وہ قانون کی گرفت سے باہر ہے۔ لیکن اسلام کے قانون کی نظر میں امیر و مامور حاکم و محکوم اور راعی و رعیت قانون کی داروگیر اور سزا اور مواخذہ میں بالکل یکساں ہیں۔

عہد نبوت میں جو متمدن سلطنتیں تھیں ان میں ایران نے کبھی ذات شاہانہ پر اس رودررو سوال و جواب استفسار اور اعتراض کا خواب بھی نہیں دیکھا تھا‘ ان کا تعلق عوام سے نہ تھااور نہ ان کو امراء کے مقابلے میں یہ حق سوال و مواخذہ حاصل تھا اور نہ ان کے امراء و حکام میں اس تواضع‘ اس خاکساری‘ اس عفو و حلم‘ اس انصاف اور اخلاق کی بلندی کا یہ منظر نظر آیا اور نہ آسکتا تھا‘ وہ اخلاص قلب و صداقت اور پاکیزگی اخلاق کے اس بلند نصب العین کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے تھے‘ زیادہ سے زیادہ یہ کہ وطن ان کا دیوتاتھا اور وہ اس کے پجاری تھے اور وہ اس دیوتا کے لئے سب کچھ کر سکتے تھے اور ان کا وطن چار دیواری میں محدود تھا‘ جس کے باہر گویاانسان نہیں بستے تھے۔

اسلام پہلا مذہب ہے جس نے امیر کی قانونی حیثیت کی یکسانی کی وہ نظیر پیش کی جس سے دنیا ہنوز نا آشنا تھی‘ اس حقیقت پر ایک اور پہلو سے بھی غور کیجئے کہ یہ نفس امیر سے سوال و استفسار کی صورت نہیں ہے بلکہ اس ذات اقدس سے ہے جس کی خاک عقیدت مسلمانوں کی چشم ادب کا سرمہ تھی اور جس کی حیثیت محض ایک امیر اور حاکم کی نہ تھی بلکہ اس سے بدرجہا بڑھ کر ایک معصوم رسول اور ایک پاک نبی کی تھی۔اس کے بعد سلطنت و امارت اور حکومت کے کاروبار میں اہل رائے مسلمانوں سے مشورہ لینے کا معاملہ ہے۔ ظاہر ہے کہ آپ کے باب میں مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ وحی سے قطع نظر کر کے بھی آپ عقل و دانش اور علم و فہم میں تمام لوگوں سے اعلیٰ اور برتر تھے اور ظاہر ہے کہ جو شخص عقل و فہم اور علم و دانش کے اس رتبہ پر ہو‘ اس کو اپنے سے کم تر لوگوں سے معاملات میں مشورہ لینے کی ضرورت نہ تھی لیکن آپ مشورہ کرتے تھے‘ ایک تو اس لئے کہ ان سے رائے لینے میں ان کا دل بڑھے اور دوسرے اس لئے کہ چونکہ آپﷺ کا ہر فعل اسلام کی شریعت کا قانون بن جاتا ہے‘ اس لئے آپ کا یہ فعل یعنی مشورہ کرنابعد کے آنے والے خلفاء و امراء کے لئے مثال و نظیر کا کام دے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عہد نبوی میں نظام حکومت کا نمونہ ایک بہترین جمہوری نظام کا عکس ہے جس کے نفاذ اور امت کو ملوکیت سے بچانے کی خاطر امام حسینؓ نے ایک عظیم قربانی دی۔ افسوس امت اپنے رہبر کامل کے بتائے ہوئے اور خلفائے راشدین کے اس عملی نمونے والے نظام کو اپنی سیاسی زندگیوں کا حصہ نہ بنا سکی اور اس فانی دنیا کی رنگینیوں کے رنگ میں رنگی گئی۔ کاش مملکت خدادا پاکستان میں بھی حقیقی جمہوری نظام نافذ ہو جائے جہاں سیاسی جماعتیں کسی شخصی‘ گھرانے یا خاندانی تسلط یا جاگیریں بننے کی بجائے ایک ادارے کی صورت اختیار کر لیں۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ مینجر۔ ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply