بلاول بھٹو آج کل نئی نوجوان سیاسی قیادت کے بیانیے کو لے کر چل رہے ہیں۔ یہی بیانیہ انہوں نے ایوان میں بحیثیت وزیر خارجہ بھی دیا تھا جو خوش آئند ہے۔
اس کے لئے روائتی سیاست کو چھوڑ کر نئی طرز سیاست کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے پرانے بابوں کو بند کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ عوام کو نئی جدید سوچ سے مرغوب کرکے اپنی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جدید جمہوری ریاستوں کا انداز سیاست اپنانا ہوگا جس میں سیاسی جماعتوں کی قیادتیں اپنے منشور اور کارکردگی کے ساتھ میڈیا پر براہ راست عوام کے سامنے پیش ہوتے ہیں اور ان کے درمیان مکالمہ بھی ہوتا ہے جسے پوری قوم سن رہی ہوتی ہے۔
اس کے لئے بلاول بھٹو صاحب کو اپنے عمل سے اپنی جماعت کے اندر وہ ماحول بنانا پڑے گا جس سے نوجوان قیادت کی جھلک ملے۔ ان کو اپنی جماعت میں سے تمام پگوں والے سیاست دانوں کو اٹھا کر نوجوان نسل کو جگہ دینی ہوگی۔ بلکہ موروثی سیاست کو بھی خیر باد کہہ کر پہلے جماعتوں کے اندر جمہوریت کو فروغ دینا ہوگا جس میں نوجوان قیادت کی روایت کو جمہوری اقدار اور اصولی سیاست کے ذریعے سے جماعت میں ڈال کر مثال قائم کرنا ہوگی تاکہ دوسری جماعتیں ان کے نقش قدم پر چلنے کے لئے مجبور ہوں۔ مگر اس کے برعکس انکے لئے اب بڑا چیلنج تو ان کے گھر سے ہی عدم اعتماد اور ان کی جماعت کی سنیئر قیادت کے اندر تشویش سے شروع ہوچکا ہے۔ آصف زرداری نے انکو زیر تربیت کہہ کر ان کی قیادت پر شکوک و شبہات پیدا کرکے ان پر سوالیہ نشان کھڑے کردیے ہیں جس پر اب ان کو پہلے اپنی جماعت کا اعتماد حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
اور اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان تمام پگوں والوں (الیکٹ ایبلز) کی قیادت ان کے ہاتھ میں دے کر ایک نوجوان قیادت کے بیانیے کو تسلیم کر لیا جائے تو ایسا کسی طرح سے بھی مناسب نہیں اور اگر وہ محض بابوں کی سیاسی غلطیوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ کر موروثی سیاست والے تمام مفادات کے ساتھ سیاست کرنا چاہتے ہیں تو یہ وہ پہلے بھی سر انجام دے رہے ہیں۔ جس کی ایک مثال ان کے ماضی قریب میں کراچی کے بلدیاتی انتخابات اور اس کے نتائج میں بننے والی مئیرشپ ہے جس میں تمام تر روائتی بندوبست کے ذریعے سے نوجوان قیادت کو متعارف کروایا گیا۔
ایسا ہی نعرہ عمران خان نے بھی لگایا تھا مگر فرق یہ تھا کہ وہ اپنی بزرگی کی قیادت میں نوجوان نسل کا بیانیہ لے کر آئے تھے اور جیسے ہی انتخابات کا وقت آیا تو انہوں نے نوجوانوں کو سٹیج سے اٹھا کر کہا کہ ان بزرگ پگوں (الیکٹ ایبلز) والوں کو جگہ دی جائے اور پھر ان کی سیاست کے نتائج آج سب کے سامنے ہیں۔
اگر وہ محض اس نوجوان سیاسی قیادت کے بیانیے سے تحریک انصاف کے نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرنا چاہتے ہیں تو ایسا بھی ممکن نظر نہیں آرہا کیونکہ تحریک انصاف کے نوجوانوں کی توجہ حاصل کرنے کی شرط عمر نہیں بلکہ ان کا مطلوبہ مزاج ہے جس کی وہ خود پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر مذمت کرتے رہے ہیں۔ اور اس مزاج کے لوگ ان کی جماعت پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر پی ٹی آئی میں گئے تھے اور اب وہ ان کی طرف واپس لوٹنے کی بجائے اپنا شیلٹر آئی پی پی اور دوسری جماعتوں کو بنا چکے ہیں۔
ایسی صورتحال میں انکو ملک کی باگ ڈور ملنے کی انکی آزمائش کی خواہش پر کیسے غور ہوسکتا ہے ویسے بھی انکی جماعت 2013 میں یہ موقع حاصل کر بھی چکی ہے۔ اور سندھ میں تسلسل کے ساتھ ان کو یہ موقع فراہم رہا ہے لہذا اب اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوام کو اپنی طرف مرغوب کرنا ہوگا۔ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کمزور معیشت کا ہے اگر ان کے پاس کوئی ایسی معاشی حکمت عملی ہے جس سے ملک کی تقدیر کو بدلا جاسکتا ہو تو اس کو عوام کے سامنے پیش کریں۔ یہ آزمائش کا نعرہ 2018 کے انتخابات میں بھی لگایا گیا تھا کہ تحریک انصاف کو آزمایا جائے اور سادہ لوح لوگوں نے اس پر کان دھر لئے اور یوں نئے چہرے آزمانے کی سیاست کی گئی لیکن اب پاکستان کی معیشت اس کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
اب ہمیں کسی تجربہ کار اور ماضی میں اچھی کارکردگی کی حامل شخصیت یا جماعت کو اقتدار سونپ کر ملک و قوم کی تقدیر کو بدلنے کی راہ پر گامزن ہونا ہوگا۔
اگر کوئی اس راستے پر چلتے ہوئے سیاست کرنا چاہتا ہے تو اسے سیاست کو اقتدار کے حصول کا ذریعہ نہیں بلکہ ملک و قوم کی خدمت کا حصول بناتے ہوئے سیاست کرنا ہوگی۔ سیاست اور ریاست کو چلانے کا کام عمروں سے نہیں بلکہ تجربوں سے تعلق رکھتا ہے۔ اب ملکی سیاست اور معیشت کا تقاضا ہے کہ ہر کسی کو اپنے عوامی مینڈیٹ کے مطابق جہاں بھی جگہ ملے ملک و قوم کی خدمت کرکے پہلے اپنے پلڑے میں اچھی کارکردگی کو ڈالیں تاکہ وہ عوام کو کچھ دکھانے کی پوزیشن میں ہوں۔ ملک و قوم کی خدمت محض اقتدار میں ہی نہیں بلکہ اپوزیشن میں رہ کر تعمیری تنقید اور مثبت حلیف کے طور پر بھی کی جاسکتی ہے جس کا ایک اچھا ثبوت پچھلے سالوں میں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی نے دیا بھی ہے۔
اسی کو آگے بڑھاتے ہوئے جمہوری اقدار اور اصولی سیاست کی روائت کو لے کر تمام سیاسی جماعتوں کو آگے بڑھنا ہوگا اور عوام کو سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کے قول و فعل اور کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اپنے قیمتی ووٹ کے حق کو استعمال کرنا ہوگا اب جھوٹے وعدوں اور سبز باغ دکھانے کی سیاست کی نفی کرتے ہوئے سنجیدہ سیاست کی روایت ڈالنی پڑے گی جس کی بنیاد اعلیٰ اخلاقیات اور سیاسی شعور ہوں نہ کہ دھوکہ دہی اور مفاداتی سیاست۔ عوام کو مخلص سیاسی قیادت کا ساتھ دے کر ایک نئے سیاست کے باب کا آغاز کرنا ہوگا۔
اس کے لئے سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کو اپنی مستقبل کی سیاست کا منشور اور اپنی سابقہ کارکردگی کو عوام کے سامنے رکھنا ہوگا تاکہ عوام ان کے اندر ایک تقابلی جائزہ لیتے ہوئے اپنے ووٹ کو دینے کا فیصلہ کر سکیں۔
اب بے بنیاد الزامات کی سیاست کرنے کا وقت نہیں اور نہ ہی جھوٹے بیانیوں اور کھوکھلے سیاسی نعروں سے عوام کو بے وقوف بنایا جاسکتا ہے۔ ان کے اپنی اتحادی جماعت مسلم لیگ نون پر الزامات کے حملوں سے اچھے تاثرات نہیں ابھر رہے۔ بلاول بھٹو کو اپنے ایسے بیانیوں پر ردعمل سے کچھ سیکھتے ہوئے مفاہمتی اور مدبرانہ سیاست کی طرف بڑھنا ہوگا
انہوں نے پچھلے سترہ ماہ پی ڈی ایم کے ساتھ حکومت کی ہے اورکئی اہم وزارتوں خارجہ، انڈسٹری، کامرس، موسمیات اور صحت کے قلمدان ان کے پاس تھے اور اُس وقت اگر وہ شہباز شریف کی تعریفیں کرتے رہے ہیں تو پھر آج مہنگائی کا سارا ملبہ ان پر ڈال کر عوام کی آنکھوں میں دھول ڈالتے ہوئے وہ اپنا دامن عوامی قہر سے نہیں بچا سکتے اس کے لئے کسی غیر جانبدار اینکر پرسن کی موجودگی میں شہباز شریف کے ساتھ براہ راست میڈیا پر مکالمہ کرنا پڑے گا تاکہ عوام بھی ان کے سیاسی موقف کو جان سکیں اور شہباز شریف بھی اپنا موقف دے سکیں۔
عوام کی مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کی مشکلات اپنی جگہ موجود ہیں اور ان کا جواب عوام کو چاہیے اور اس کا جواب محض زبانی دعوؤں سے نہیں عملی کارکردگی سے دینا ہوگا۔ اب کوئی بھی سیاسی جماعت ایسی نہیں جو یہ کہہ سکے کہ ان کو خدمت کا موقع نہیں ملا۔ اب بے بنیاد الزامات کی سیاست کا خاتمہ ہونا چاہیے اور صحیح عوامی فلاح وبہبود کا عملی ثبوت دیتے ہوئے عوام کے سوالوں کا جواب دینا ہوگا جو ان کا انتظار کر رہے ہیں۔ اب مواقعوں اور مفادات کی سیاست نہیں بلکہ کارکردگی کی سیاست کرنا ہو گی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں