• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • دین کا نام بدنام کرنے والے ہوس پرست۔۔منور حیات سرگانہ

دین کا نام بدنام کرنے والے ہوس پرست۔۔منور حیات سرگانہ

کیسا شرم کا مقام ہے،کہ جس بد طینت اور ہوس پرست کا بس چلتا ہے،وہ اسلام کا نام لے کر اپنے مذموم مقاصد کو پورا کر لیتا ہے۔اس سے بڑی توہین مذہب اور توہین رسالت کیا ہو سکتی ہے،کہ رحمت اللعالمین کا مقدس نام استعمال کر کے،کسی دوسرے کی عبادت گاہ پر حملہ کر دیا جائے،انہیں ننگی گالیاں دی جائیں،اور ان کو ہراساں کیا جائے۔
اور پھر یہ عمل اگر کسی اقلیتی گروہ یا برادری کے خلاف سر انجام دیا جا رہا ہو،تو اس کی سنگینی اور بڑھ جاتی ہے
یہ وقت حکومت اور سول سوسائٹی کے جاگنے کا ہے۔

جو لعن طعن ساری دنیا کی طرف سےانڈیا میں انتہا پسند ہندوؤں اور ان کی حمایتی مودی سرکار کی مسلم کش پالیسیوں،اور اقلیتوں کے خلاف برپا کیے جانے والے مظالم پر ہو رہی تھی،ایسے میں دوسروں کی عزتوں کو تر نوالہ سمجھنے والےایک ناہنجار اور خبیث فطرت انسان کی وجہ سے اس سارے دشنام کا رُخ اب پاکستان کی جانب ہو چکا ہے۔

اس بے شرم خاندان کے پانچ افراد پہلے گوردوارہ جنم استھان میں ملازم تھے۔یہاں پر ان میں سے ایک بدمعاش نے پہلے یہاں کے گرنتھی کی کم سن لڑکی کو ورغلایا،اور اس کے بعد اسے بھگا کر لے گیا،اس کے بعد وہی کلمہ پڑھوانے کا مقبول عام نسخہ استعمال کر کے اس واردات پر اسلام کا ملمع  چڑھا دیا گیا۔سکھ کمیونٹی نے پوری دنیا میں اس پر احتجاج کیا۔لیکن حکومت لڑکی کو واپس کروانے میں ناکام رہی۔وجہ یہ بتائی گئی کہ لڑکی نے مجسٹریٹ کے آگے،اس کو بھگانے والے کے حق میں بیان دے دیا تھا۔اس وقت بھی بھارتی میڈیا نے اس واقعے کو پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے خوب اچھالا۔
اس کے بعد گورنر چوہدری سرور نے کیمرے کے سامنے پتا نہیں کس طرح دونوں خاندانوں کی جپھیاں ڈلوا کر اپنی طرف سے یہ معاملہ حل کروا دیا۔
اس کے بعد یہ ستو نوش سرکار دوبارہ ٹن ہو کر سو گئی ۔

اس طرح کےکئی واقعات پہلے صوبہ سندھ میں بھی پیش آ چکے ہیں ،سوال یہ ہے کہ ،
یہ صرف نوجوان ہندو اور سکھ لڑکیاں ہی کیوں اسلام کی آغوش میں آ رہی ہیں؟

سکھ اور ہندو مرد کیوں اسلام سے متاثر نہیں ہو رہے۔
اور پھر نو مسلم لڑکیاں ہمیشہ کسی مومن کی زوجیت میں ہی کیوں آنے کے لئے برقرار رہتی ہیں،کسی کی بہن یا بیٹی بن کر کیوں نہیں  رہنا چاہتیں؟

اور آخری سوال اگر کوئی ہندو یا سکھ نوجوان اسلام قبول کر رہے ہیں،تو کتنے مسلمان انہیں اپنی فرزندی میں قبول کر رہے ہیں؟
یا کتنے معاملوں میں مسلمان دوشیزائیں ہندو اور سکھ نوجوانوں کے ہاتھ پکڑ کر مولوی صاحبان کے قدموں میں بیٹھ کر التجاء فرما رہی ہیں کہ مولانا ،ان کو کلمہ پڑھائیے اور ہمیں ان کے نکاح میں دے دیجیے؟

اگر ایسا صرف یکطرفہ طور پر ہو رہا ہے،تو یقیناً کہیں نا  کہیں تو گڑبڑ ہے۔

شاید ان سوالوں کا جواب دینا کوئی بھی پسند نہ کرے۔بلکہ ایسے سوال اٹھانے والوں کو اپنی جان کے لالے بھی پڑ سکتے ہیں۔لیکن جب ہم سرحد پار رہنے والی اقلیتوں کے لئے آواز اٹھاتے ہیں،تو اپنے ہم وطنوں کے لئے آواز کیوں نہ اٹھائیں ؟۔

خیر واپس زیر ِ بحث واقعہ کی طرف آتے ہیں۔
اب کسی ذاتی لڑائی کے نتیجے میں، اسی بدطینت خاندان کے کچھ افراد کو پولیس اٹھا کر لے گئی،جس کے بعد اس خاندان کے افراد،ایک ہجوم لے کر سکھوں کے لئے’مثل مکہ’گوردوارہ جنم استھان کے دروازے پر پہنچ گئے۔

سوال یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں ،جب صرف دو دن کے بعد گوردوارے کے اندر سکھوں کے دسویں گرو ‘گرو گوبند سنگھ’ کے حوالے سے بہت اہم تقریبات شروع ہونے والی ہیں۔اس انتہائی مقدس اور اہم مقام کی سکیورٹی کی یہ صورتحال ہے،کہ کوئی بھی بدمعاش اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے،گوردوارے کا گھیراؤ  کر سکتا ہے۔اس کے اندر داخل ہونے کی کوشش کر سکتا ہے۔گوردوارے کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دے سکتا ہے۔سکھوں کو جان سے مارنے ،ان کی ماؤں بہنوں کو ننگی گالیاں دینے اور شہر کا نام بدلنے کی دھمکی دے سکتا ہے؟

اتنےحساس اور اہم مقام کے تو قریب کے سارے علاقے کو ہائی سکیورٹی زون قرار دے دیا جانا چاہیے تھا،اور اگر کوئی ایسا فسادی گروہ گوردوارے کے قریب پہنچ بھی گیا تھا ،تو پولیس کو فوری کارروائی کرتے ہوئے،ان شرپسندوں کو گرفتار کر لینا چاہیے تھا۔

ان بدمعاشوں نے پورے چار گھنٹے تک گوردوارے کا گھیراؤ  کیے رکھا،اشتعال انگیز نعرے لگائے،اور ویڈیوز بناتے رہے۔اس عرصے میں کئی سکھ عورتیں،بچے اور مرد گوردوارے کے اندر محصور رہے۔
تو اتنے عرصے تک شہر کی انتظامیہ کہاں تھی؟وہ پولیس جو بڑی بے دردی سے ماڈل ٹاؤن میں کئی معصوم مظاہرین کو گولیوں سے بھون چکی ہے۔ان فسادیوں پر قابو پانے میں ناکام کیوں رہی۔
ان میں سے کئی افراد نے گوردوارے کے دروازے کو نقصان بھی پہنچایا،اکثر افراد ویڈیوز میں صاف نظر بھی آ رہے ہیں،تو کیا ان پر بھی توہین مذہب کے قانون کے تحت کوئی کارروائی ہو گی ؟

اب جب کہ یہ معاملہ بین الاقوامی اور بھارتی میڈیا میں پوری شدت سے منظر عام پر آگیا ہے،تو ہمارے ملکی میڈیا کو بھی اپنے مظلوم اقلیتی پاکستانی بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہو جانا چاہیے،اور حکومت اور انتظامیہ کو بھی چاہیے کہ،ان شرپسندوں کو گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دی  دے ۔

اس ایک واقعے نے جہاں حکومتی رٹ کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے،وہیں پر بھارتی میڈیا،اور بھارتی حکومت کی تو کئی مشکلیں آسان کر دی ہیں۔ان کو پاکستان کو مطعون کرنے کا اس سے شاندار موقع بھلا پھر کب ہاتھ آئے گا۔سو وہ اپنا پورا زور لگا کر پاکستان کی مٹی پلید کر رہے ہیں۔

جناب وزیراعظم سے التماس ہے،کہ صرف کرتار پور راہداری کھولنے والے کارنامے پر اترانے کا وقت گزر چکا۔خدارا مذہب کا نام استعمال کر کے اپنی ہوس کاری کو پورا کرنے والوں پر قابو پائیےان واقعات کے سدباب کے لئے بھی کچھ کیجیے ،جو آپ کے ان سارے کارناموں کو مٹی میں ملا رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

منور حیات
ملتان میں رہائش ہے،مختلف سماجی اور دیگر موضوعات پر بلاگ لکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply