کرشن چندر کا ناول ’’ایک عورت ہزار دیوانے‘‘ :ایک فکری نظر(حصّہ اوّل)-محمد یحییٰ

ناول انسانی زندگی کا ایک ایسا مرقع ہوتا ہے جس میں ہر باشعور کو اپنی زندگی کا کوئی نہ کوئی گوشہ نظر آتا ہے۔ ناول میں اگرچہ واقعات اور کردار فرضی پیش کیے جاتے ہیں لیکن یہ زندگی کے اتنے قریب ہوتے ہیں کہ بالکل حقیقی معلوم ہوتے ہیں۔ایک ناول کسی دور میں پائے جانے والے تمام رجحانات چاہے وہ سماجی ہوں، معاشی، عمرانی، جمالیاتی، مذہبی، طبیعیاتی یا مابعد الطبیعیاتی ہوں ، اپنے اندر سمونے کی طاقت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناول کا کینوس دوسرے اصنافِ ادب کے مقابلے میں بہت وسیع ہوتا ہے۔ ناول نے ہر دور میں اپنے عہد کی تاریخ اور نفسیات کا بھرپور احاطہ کیا ہے۔ چوں کہ ناول کا موضوع زندگی ہے اس لیے ایک زندگی میں پیش آنے والے واقعات اور اتارچڑھاؤ کی مکمل اور صاف تصویر یہاں دیکھی جاسکتی ہے۔یہاں جو کردار پیش کیے جاتے ہیں وہ بھی حقیقی زندگی سے اتنے مماثل ہوتے ہیں کہ ہر فرد کو اس میں اپنا آپ نظر آتا ہے۔ناول کے کرداروں کے حوالے سے ابوالاعجاز حفیظ صدیقی کہتے ہیں کہ:
’’ناول کے کردار اپنی تمام تر انفرادیت کے باوجود ہمارے گرد و پیش کی دنیا میں بسنے والے لوگوں میں سے ہوتے ہیں نہ خیرِ مجسم نہ شرِ مجسم، نہ فرشتے نہ شیطان، بلکہ عام آدمی جو خوبیاں بھی رکھتے ہیں اور خامیاں بھی، عزائیم بھی اور مجبوریاں بھی۔ وہ مختلف صفات کا مرکب ہوتےہیں۔‘‘(۱)
اردو کے افسانوی ادب کی دنیا میں کرشن چندر کا نام انفرادیت کا حامل ہے۔ جس طرح انھوں نے افسانے کے میدان میں نام کمایا اسی طرح بہترین ناول انھوں نے اردو ادب کو دیے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی، ناول ’’ایک عورت ہزار دیوانے‘‘ ہے۔یہ ایک خانہ بدوش خوب صورت و خوب سیرت اور بہادر لڑکی “لاچی” کی کہانی ہے۔ لاچی اس خانہ بدوش قبیلے کی لڑکی ہوتی ہے جس کے خیمے اسٹیشن یارڈ کے قریب نصب ہوتے ہیں۔خانہ بدوشوں کی زندگی غیر مربوط اور بے منزل ہوتی ہے۔ ان کا کوئی گھر، وطن، عقیدہ نہیں ہوتا۔ لاچی کا باپ”رگی”ایک شراب خور آوارہ گردبندہ ہوتا ہے جو اپنی بیوی یعنی لاچی کی ماں کو جوئے میں ہار دیتا ہے۔ اس لیے اب لاچی کی ماں مع لاچی “چاچا مامن” کے ہاں بطور بیوی، بیٹی رہتے ہیں۔ مامن لاچی کی موجودگی سے خوش ہوتا ہے کیوں کہ خانہ بدوشوں میں عورت، مرد سے زیادہ کماتی ہے۔ خانہ بدوش دوسرے لوگوں کی نسبت محض اس لیےبیٹی کی پیدائش پر آفسردہ نہیں ہوتے کیوں کہ یہ اس کی دولت کمانے کا اصل ذریعہ ہے۔ یہاں عورت کی کمائی مرد ہنسی خوشی کھاتے ہیں۔ خانہ بدوشوں کی بیویاں، بیٹیاں سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی بستروں کی زینت بنتی ہیں۔ یہ عورتیں اپنا فرض نبھانے کے بعد اپنی جسمانی کمائی اپنے شوہروں کے ہاتھ میں رکھ دیتی ہے۔ اس صورت حال کا بیان کرشن چندر یوں کرتے ہیں :
’’جب رات آتی ہے تو ہر خانہ بدوش قبیلے کے ڈیرے پر تہذیب ٹپکتی ہوئی کاریں لے کر آتی ہے۔اورکھلی ہوا میں پھلے ہوئے شاداب جنگلی پھولوں کو چُن کر لے جاتی ہے۔۔۔اور جب رات گزر جاتی ہے تو کاریں اپنے آفس چلی جاتی ہیں اور غریب خانہ بدوش لڑکیاں فٹ پاتھ پر مجمع لگاکر عینکیں بیچتی ہیں۔ ہے کوئی جو عینک لگا کر دیکھے!۔‘‘(۲)
گویا یہ جسم فروشی ان خانہ بدوش عورتوں کی زندگی کا لازمی امر ہے جسے ہر عورت اپنی جبلّی ذمہ داری سمجھتی ہے۔ لیکن لاچی ایسی لڑکی نہیں ہے۔وہ خانہ بدوشوں میں سب سے مختلف و منفرد ہے۔ کرشن چندر نے ایک بہادر اور دلیر لڑکی کے روپ میں لاچی کو پیش کیا ہے۔ یہ خانہ بدوشوں کی رسم و رواج اور طور طریقے سے یک سر مخالف اور باغی ہے۔ اپنی عصمت و عزت کو اپنا سب کچھ سمجھتی ہے۔ اس درندہ صفت معاشرے میں بہت جتن سے اپنی عزت کی حفاظت کرتی ہے۔ کسی سے ڈرتی نہیں ہے۔ بہت سے لوگ اس کے حسن کے دیوانے ہوتے ہیں اور لاچی کو حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن ہوس کی پجاری اس کے سامنے بے بس ہوتے ہیں۔یہ سب نکمے لاچی کو نچوڑنا چاہتے ہیں مگر کچھ نہیں کرپاتے۔حمیدا جو کہ ٹیکسی ڈرائیوروں کا سرغنہ ہوتا ہے، جس سے سب لوگ ڈرتے ہیں وہ بھی لاچی کے سامنے بے بس ہوتا ہے۔اس حوالے سے کرشن چندر کہتے ہیں :
“لاچی عام شہری یا دیہاتی عورتوں کی طرح نہیں تھی جو مرد کا ایک گھونسہ کھاتی ہی چٹائی کی طرح بچھ جاتی ہیں۔ حمیدا لاچی کو چھیڑنے کا عملی تجربہ کرچکا تھا۔اس لیے اب تھوکنے پر بھی کِھسیا کے ہنس دیا تھا اور منہ پھیر کر اپنی ٹیکسی کی طرف چلا گیا تھا۔‘‘ (۳)
دمارو جو کہ قبیلے کا سردار ہوتا ہے۔ یہ بھی ہوس کا شکار ہے۔ ایک دن لاچی کی ماں اور مامن ساڑھے تین سو روپے کے عوض لاچی کو دمارو کے ہاتھوں فروخت کرتے ہیں۔ ان خانہ بدوش قبائل کی روایت کے مطابق دمارو اسے گود میں اٹھا کر اپنے خیمے میں لے جانے کی کوشش کرتا ہے ،لاچی شدید مخالفت کرتی ہے۔ بوڑھا دمارو لاچی کو بار بار اٹھاتا ہے لیکن وہ ایک طاقت ور اور دبلی پتلی لڑکی خود کو زبردستی چھڑاتی رہتی ہے۔ یوں دمارو تھک جاتا ہے اور لاچی کسی بھی حال خود کو دمارو کے سپرد کرنے کےلیے رضا مند نہیں ہوتی۔ آخرکار دمارو ہار مان کر اپنے پیسے واپس کرنے کی فرمائش کرتا ہے لیکن مامن پیسے واپس کرنے سے انکار کرتا ہے۔ دمارو بھگدڑ مچاتا ہے اس لیے لاچی دمارو سے یہ سودا طے کرتی ہے کہ بہار کی آمد پر میں پیسے لوٹا دوں گی اگر نہ لوٹا سکی تو تمھاری لونڈی بن کر رہوں گی۔ وہ شرط قبول کرتاہے۔
لاچی اپنی عزت بچانے کے واسطے سماج میں موجود ہر کام کو ہاتھ لگاتی ہے سوائے جسم فروشی کے۔ اسٹیشن یارڈ سے کوئلہ چُرانا، بیچ سڑکوں اور چوراہوں پر بھیک مانگنا، صفائی ستھرائی وغیرہ ہر قسم کے کام کرتی ہے۔ ویسے تو اس سماج کا ہر بندہ چاہے وہ دکان دار ہو، چوکیدار ہو، ڈاکٹر ہو، سیاسی لیڈر یا کارکن ہو، گلی کوچوں کے آوارہ گردہوں، لاچی کے جسم کی پجاری ہوتے ہیں لیکن ایک شخص “گل” جو پٹھان ہوتا ہے لاچی سے سچی اور شفاف محبت کرتا ہے۔ وہ خیموں کی دوسری طرف ایک بوسیدہ پُل پر رات کے وقت آتا ہے اور دور سے لاچی کے خیمے کو دیکھتا رہتا ہے۔ ایک روز لاچی کے پاس آکر اسے کچھ کہنے کے واسطے پُل پر لے جاتا ہے۔ لاچی ابتدا میں اس پر یقین نہیں کرتی کیوں کہ اس مادہ پرست سماج میں آج تک کسی نے بھی لاچی کو محبت بھری نگاہ سے نہیں دیکھا بل کہ سب ہوس کی نگاہ سے دیکھنے والے ان کو ملے۔ لاچی ایک گھر اور سچی محبت کرنے والے کی منتظر ہوتی ہے۔ بعد میں یہ خاصیت وہ گل میں دیکھ لیتی ہے۔ وہ بھی گل سے شدید محبت کرنے لگتی ہے۔ گل اسے کہتا ہے کہ میں بہار کے آمد تک ان ساڑھے تین سو روپے کا انتظام کرلوں گا۔دونوں خوب محنت کرتے ہیں۔ لیکن مقررہ وقت تک وہ پیسوں کی بندوبست نہیں کرپاتے۔ اس لیے اسٹیشن یارڈ کا غریب طبقہ اشتراک سے روپے پیسے اکٹھے کرتا ہے اور اسے لاچی کے حوالے کرتے ہیں۔ دراصل یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو عزت و ناموس کی معنویت کو پہچانتے ہیں۔ ہوتے تو غریب ہیں لیکن دل کے بڑے امیر۔ گِدھوں کے اس سماج میں انسانوں کو دیکھ کر لاچی بہت خوش ہوجاتی ہے۔ان لوگوں میں کوئی اسٹیشن کا قلی ہوتا ہے، کوئی پانی پلانے والا، کوٹی مستری، کوئی گھنٹی بجانے والا تو کوئی صفائی کرنے والا۔ ان لوگوں کے متعلق کرشن چندر لکھتے ہیں :
’’کیسے مسکراتیں چہرے تھے۔ کیسے روشن نگاہیں تھیں۔گل حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگا۔ان میں سے کوئی فرشتہ نہیں تھا۔ سب ہی انسان تھے، خطاؤں کے پتلے، خامیوں سے بھرپور۔ لیکن یہ کیسا نور تھا جو اس وقت ان کے بدن کے ذرے ذرے سے پھوٹ رہا تھا۔ کون کہتا ہے کہ آسمان تاریک ہے، زمین بنجر ہے۔ بہارو! آج آجاؤ۔ آج انسان نے اپنا قرض چکا دیا ہے۔‘‘(۴)
آج لاچی نے وہ لڑائی جیت لی جو انھوں نے پورے سماج کے خلاف شروع کی تھی۔ کیوں کہ سب لوگ مع والدین چاہتے تھے کہ لاچی مقررہ وقت تک پیسوں کا انتظام نہ کر پائیں۔ لاچی نے ہنسی خوشی اپنے خیمے کے اندر زمین کھود کر پیسے وہاں چھپا دیے۔ جب وہ صبح اٹھی اور سردار دمارو کے سامنے آئی تو دمارو نے اسے طعنہ دے کر کہا کہ آج سے تو میری لونڈی بن کر رہی گی۔جب لاچی فخریہ انداز میں خیمے کے اندر پیسے لانے کےلیے جاتی ہے تو پیسے غائب ہوتے ہیں۔ لاچی باہر آکر چیخنا چلانا شروع کرتی ہے کہ میرے پیسے کس نے چوری کیے ہیں۔ سب اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ دمارو اسکو پکڑ لیتا ہے عین موقع پر لاچی اس کے پیٹ میں خنجر نصب کردیتی ہے۔ دمارو کے قتل کے الزام میں وہ جیل جاتی ہے۔ جیل میں وہ خوش ہوتی ہے کیوں کہ سماج کے طعنوں اور ہوس ناکیوں کی نسبت جیل اسے گویا اپنا گھر لگنے لگتا ہے۔ جیل کا سپرنٹنڈنٹ خوب چند ایک مصور ہوتا ہے وہ لاچی کے حسن کو دیکھ کر متاثر ہوجاتا ہے۔ وہ کسی ایسی عورت کی تلاش میں ہوتا ہے جو حسن کا ایک کامل نمونہ ہو۔ یہ حسن وہ لاچی میں دیکھتا ہے۔ وہ لاچی سے بڑا مانوس ہوجاتا ہے اور لاچی کی تصویر بنانا شروع کردیتا ہے۔ لاچی بھی اس سے بہت خوش ہوجاتی ہے۔ جیل میں اسی طرح دن گزرتے رہتے ہیں۔ گل بھی ملاقاتوں کےلیے آتا رہتا ہے۔ خوب چند دونوں کو اپنی ذاتی کمرے میں ملاتا ہے۔ لیکن ایک روز خوب چند بھی اس کے سامنےشادی کی شرط رکھ دیتا ہے۔ لاچی اس پر غصہ ہوجاتی ہے کیوں کہ وہ گل سے محبت کرتی ہے۔بعد میں یہ بھی کہہ دیتی ہے کہ اگر میری زندگی میں گل نہ ہوتا تو ضرور تم سے شادی کرلیتی کیوں کہ خوب چند بھی اسے ’’انسان‘‘ ہی نظر آتا ہے۔
جیل میں طرح طرح کے لوگوں سے لاچی کی ملاقات ہوتی ہے۔ ایک مشہور فلم اسٹار دل آرا سے سے بھی ملتی ہے۔ لاچی بھی اس کے سامنے فلموں میں کام کرنے کی خواہش ظاہر کرتی ہے۔ دل آرا فلموں میں کام دلوانے کے بہانے کچھ نکموں سے مل کر لاچی کو طوائفوں کے ہاں بیچنا چاہتی ہے لیکن وہ سب کو سبق سکھا دیتی ہے۔ یہاں ان کو ایک طاقت ور کردار کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ جو تن ِتنہا کئی مردوں اور عورتوں کو مار مار کر خود کو بچاتی ہے۔ اس منظر کا بیان کرشن چندر یوں کرتے ہیں :
’’تھوڑی دیر میں بھگدڑ مچ گئی۔ لاچی اور وارڈن اور گاہک اور طبلچی اور سارنگی والے، مہرسوں والے اور خوشبو دار عطر والے ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہورہے تھے اور سب کے بیچ میں لاچی ایک جھلائی ہوئی شیرنی کی طرح وار کررہی تھی۔ اس کو مار، اس کو پٹخ، اس کو گرا،اس کے بال کھسوٹ، اُس کا منھ نوچ کر ایک وحشیانہ خوشی سے چیخ رہی تھی اور ناچ رہی تھی۔ ‘‘(۵)
لاچی کی کوشلیا سے بھی جیل میں ملاقات ہوتی ہے۔ یہ ایک گریجویٹ لڑکی ہے جو انگریزی کے علاوہ اردو، ہندی، پنجابی، مراٹی، ملیالم، فرنچ اور تامل زبانیں جانتی ہیں۔ کوشلیا اس لیے جیل میں ہے کیوں کہ وہ بے کار نوجوانوں کو نوکری کا کہہ کر ان سے پیسے اینٹھتی تھی۔ کوشلیا اگرچہ اعلا تعلیم یافتہ ہونے کے باعث ملازمت سے کافی روپے کما سکتی ہے لیکن ان کی خواہشات اور خیالات اونچے ہوتے ہیں۔ بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومنا پھرنا پسند کرتی ہے اس لیے زیادہ سے زیادہ پیسے کمانا چاہتی ہے۔ کوشلیا کی نظر میں شریف آدمی وہ ہے جس کی ماہانہ آمدنی کم از کم ایک ہزار روپے ہو۔ دوسری طرف لاچی ہے جو ساڑھے تین سو روپوں کے عوض دنیا کی بازار میں بِک گئی اور در در کے ٹھوکریں کھا کر جیل کی سلاخوں کے سپرد ہوگئی۔ لاچی زیادہ روپے پیسوں کا ہوس نہیں رکھتی۔ اس کی خواہش ایک چھوٹا سا گھر اور کھری محبت کرنے والا شوہر ہوتا ہے۔
ملک کی تقسیم کے بعد گل پاکستان کا شہری بن جاتا ہے وہ لاچی سے ملنے کےلیے آتا ہے اور اسے تقسیم ہند کے بارے میں آگاہ کرتا ہے۔ لاچی اسے کہتی ہے محبت کرنے والوں کو کوئی الگ نہیں کرسکتا اور خانہ بدوشوں کو کوئی ملک نہیں ہوتا یہ ساری دھرتی اس کی ہے۔ اس پر گل کہتا ہے :
’’مگر اس دنیا کے انسانوں کےلیے ایک نہیں ہے۔. انھوں نے، جو اپنے آپ کو انسان، مہذب اور ترقی یافتہ کہتے ہیں اس دھرتی کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے ہیں۔اور مختلف خانوں میں بانٹ دیا ہے۔ یہ تیرا، وہ میرا، وہ اس کا۔‘‘ (۶)
اس کے بعد گل، لاچی کو روتا ہوا چھوڑ دیتا ہے اور وہ چلا جاتا ہے۔ کافی عرصہ گزر جانے کے بعد لاچی گل کے فراق میں بیمار ہوجاتی ہے۔اسے چیچک کی بیماری لگ جاتی ہے۔ لاچی کو ہسپتال منتقل کیا جاتا ہے۔ چیچک اس کے حسن کو بھیانک روپ میں تبدیل کرلیتا ہے۔ لاچی جتنی خوب صورت ہوتی ہے اب وہ اتنی بد صورت اور بھیانک ہوجاتی ہے۔ بالآخر اس کی بینائی چلی جاتی ہے۔ زمانے اور حالات کے تھپیڑے حسن بے پرواہ کو کبھی معاف نہیں کرتے۔لاچی کی کایا کلپ قدرت نے نہیں اس سماج نے کی جس کی بنیاد مادہ پرستی اور ہوس پر پڑی ہے۔ لاچی کی طرح ہزاروں عورتیں درندہ صفت انسانوں کے بیمار جنسیت کا شکار ہوکر اپنی زندگی گنوا بیٹھتی ہے۔
لاچی ہسپتال سے واپس جیل بھیج دی جاتی ہے۔ خوب چند اور دوسرے لوگوں کو حسن کے اس مسخ شدہ صورت حال پر یقین نہیں آتا۔ کچھ کاغذی کاروائی کے بعد اس زندہ لاش کو جیل سے رہائی مل جاتی ہے۔ ایک مرتبہ بھیک مانگتے ہوئے اپنے پرانی جگہ پہنچ جاتی ہے جہاں وہ آخری دفعہ رہ رہی تھی۔ وہاں پر لوگ اسے نہیں پہچانتے اور ایک ڈائن تسلیم کرکے اس پر پتھر برسانے لگتے ہیں۔ اسی اثنا گل نمودار ہوتا ہے جنھوں نے بڑی کوششوں سے خود کو بھارت کا شہری بنایا ہوتا ہے۔ وہ اگرچہ لاچی کو نہیں پہچانتا لیکن اسے بچا کر ہسپتال پہنچاتا ہے۔ اس کا علاج کرتا ہے۔ بالآخرلاچی اسے اپنی شناخت بتا دیتی ہے۔ گل حیران و پریشان ہوجاتا ہے۔ لاچی کو اپنے گھر لے آتا ہے۔ پھر اس سے کہتا ہے کہ میں شہر میں جاکر گھر ڈھونڈتا ہوں پھر ہم وہاں جائیں گے۔ گل شہر جاکر گویا لاچی کو بھول جاتا ہے۔ لاچی بھی اس کا خیال دل سے نکال لیتی ہے۔ کافی عرصہ بعد گل کی طرف سے ایک منی آرڈر آتا ہے۔ اس میں نہ کوئی محبت کا خط ہوتا، نہ گل کا پتہ بس اتنا لکھا ہوتا ہے کہ ابھی مکان نہیں ملا جب ملے گا آکر لے جاؤں گا۔ لاچی کو بڑا صدمہ پہنچتا ہے وہ ڈاکیہ سے کہتا ہے سبحان! یہ منی آرڈر میرے لیے نہیں ایک اندھی بھکارن کےلیے ہے اسے واپس کردو۔لاچی فاقہ مستی کو قبول کرتی ہے لیکن ان حالات میں بھی کسی کا احسان قبول نہیں کرنا چاہتی۔گل جو کہ اس کو دل سے چاہتا تھا وہ بھی اسے چھوڑ دیتا ہے۔ اس کی محبت ہمدردی میں بدل جاتی ہے جو لاچی جیسی خود دار لڑکی کو ہر گز قبول نہیں۔لاچی فوراً اپنی چھڑی اٹھاتی ہے اور سڑک کے کنارے بھیک مانگنے کےلئے چلی جاتی ہے۔لاچی کی زندگی اور کردار پر یہ شعر صادق آتا ہے کہ:
؎ میرے نصیب میں لکّھا گیا سفر پیہم
چُنا گیا مجھے ہر ایک امتحاں کےلیے
(ثاقب تبسّم ثاقؔب)

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply