• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سکیورٹی سٹیٹ یا قومی جمہوری ریاست؟/حیدر جاوید سیّد

سکیورٹی سٹیٹ یا قومی جمہوری ریاست؟/حیدر جاوید سیّد

ایک پرانے پپلے جو آجکل عمران خان کی امامت میں ریاست مدینہ بنانے کے جذبہ سے سرشار ہیں، کا خیال ہے کہ بھٹو صاحب نے جناح صاحب کی 11 اگست 1947ء والی تقریر کی بجائے 1973ء کے دستور کا سرنامہ قرارداد مقاصد کو بناکر ظلم کیا۔ ہمارے عزیز ضامن علی شیرازی نے گزشتہ روز انکشاف کیا کہ جناح صاحب کی 11 اگست 1947ء والی تقریر کی جگہ قرارداد مقاصد کو آئین کا حصہ بنانے کی تجویز مولانا کوثر نیازی کی تھی۔

چلیے پہلے اس نکتہ پر بات کرلیتے ہیں۔ (یہ فیصلہ درست تھا یا غلط اس بارے اپنی رائے آئندہ سطور میں عرض کرتا ہوں) 1973ء کے آئین کی تدوین کے لئے قومی اسمبلی میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی مشترکہ دستوری کمیٹی نے قرارداد مقاصد کو آئین کا حصہ بنانے کی سفارش کی جوکہ منظور ہوئی۔ قرارداد مقاصد 1956ء کے آئین کا بھی حصہ تھی جسے منسوخ کرکے ایوب خان نے 1958ء میں مارشل لاء لگایا۔ ان کے صدارتی آئین میں البتہ قرارداد مقاصد شامل نہیں تھی۔

ہمیں بطور خاص یہ سمھنا ہوگا کہ ذوالفقار علی بھٹو سوشلسٹ رہنما تھے نہ ہی ان کی بنائی پاکستان پیپلزپارٹی کا منشور کمیونسٹ مینوفیسٹو سے عبارت تھا۔

بھٹو کی پیپلزپارٹی نے اسلام ہمارا دین ہے کا سلوگن متعارف کرایا۔ خود انہوں نے ہزار سال تک بھارت سے لڑنے کی بات کی۔ اب ان دونوں باتوں کو ملاکر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اسلام ہمارا دین ہے اور بھارت سے ہزار سال تک لڑیں گے۔ پہلا نکتہ دو قومی نظریہ کا جدید ایڈیشن تھا دوسرا نکتہ تقسیم برصغیر سے پھوٹی اس دو طرفہ نفرت کا جس میں”ہندو توا کے حامی پاکستان کو اکھنڈ بھارت پر شب خون سمجھتے تھے اور “مسلم توا” کے حامی بھارت کو ازلی دشمن۔

خود بھٹو صاحب سندھی قوم پرست نہیں سوشل ڈیموکریٹ اور مرکزیت کے حامی تھے یعنی پاکستانی قومیت کے ہم خیال۔ جن حالات میں وہ اقتدار میں آئے ان کی پالیسیوں، فیصلوں، تدوین دستور، ایٹمی پروگرام اور بعض دوسری چیزوں کو ان حالات کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

اس کے بغیر دیانتدارانہ تجزیہ ممکن نہیں۔ ہاں ہر کس و ناکس اپنی فہم کو تجزیہ قرار دینے پر مُصر ہو تو کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

بھٹو (ذوالفقار علی بھٹو) سے محبت اور ان کے احترام کے باوجود مجھ طالب علم کی رائے یہ ہے کہ انہیں جو عوامی مقبولیت حاصل تھی اس کے پیش نظر ضروری تھا کہ وہ تدوین دستور کے عمل میں سوشل ڈیموکریٹ فہم کو ترجیح دے سکتے تھے۔

جناح صاحب کی 11اگست 1947ء والی تقریر تو خود ان کی سیاسی جدوجہد اور خصوصاً بٹوارے کی تحریک کے دوران کے خیالات سے میل نہیں کھاتی۔

اس کے باوجود ہم صرف یہ ہی کہہ سکتے ہیں کہ بٹوارے کے دوران جس درندگی و سفاکیت کا مظاہرہ ہوا جناح صاحب نے اس کے اثرات قبول کئے اور 11اگست 1947ء کو جب وہ دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پچھلے ایک ڈیڑھ عشرے کے اپنے خیالات کے یکسر برعکس اظہار خیال کررہے تھے تو غالباً انہیں احساس نہیں تھا کہ بٹوارے کے زخموں سے چور لوگوں میں سکھوں اور ہندوؤں کی نفرت کا سودا فروخت کرنے والے مسلم قومی شناخت کے علمبردار رہنماؤں (ان میں مُلا اور غیرمُلا دونوں شامل ہیں) کی فہمی گرفت قدرے آزاد خیال لیگی اور دوسرے رہنماؤں کے مقابلے میں زیادہ تھی۔

اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اگر مسلم قومیت کو حرف آخر کے طور پر پیش اور مسلط نہ کیا جاتا تو بٹوارے سے مذہبی سکیورٹی اسٹیٹ تخلیق کرنے کا سارا منصوبہ ہی چوپٹ ہوجاتا۔ اس تلخ تاریخی حقیقت اور 1973ء کے دستور کی تدوین کے درمیانی عرصہ میں جو معروضی حالات تھے ہر دو کے باوجود قرارداد مقاصداور جناح صاحب کی تقریر دونوں میں سے کسی کو بھی طور دستور کا سرنامہ نہیں بنایا جانا چاہیے تھا۔ بٹوارے کے تلخ حقائق اور اس تقریر سے جنم لیتے تضادات سے آنکھیں بند نہیں کی جاسکتی تھیں۔

یہ کہنا کہ عمران خان کا تصور ریاست مدینہ جناح صاحب کی 11 اگست 1947ء والی تقریر سے عبارت ہے اسے سفید یا سیاہ جھوٹ قرار دینے کی بجائے تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھنا ہوگا کہ کیا خود عمران خان کو فکری استحکام حاصل ہے۔ وہ ایک ہی وقت میں مغربی سماج کے عادلانہ نظام، چین کے نظام ہائے حکومت اور ریاست مدینہ کی حاکمیت کے علاوہ ماضی میں قبائلی جرگوں کے نظام کو بھی پاکستان کے لئے ضروری کہتے رہے وہ اور بھی بہت ساری باتیں کہتے رہے ان کا عمل اور جماعت کا عمومی رجحان دریاکے دو کناروں جیسا ہے۔

ماضی میں وہ مسلم خلافتوں کے ادوار کے دو خلفاء کے دور کے نظام کو اپنی سیاسی فکر کی غذا بھی قرار دیتے رہے۔

ہمارا اصل مسئلہ یا المیہ یہ ہے کہ جناح صاحب، بھٹو صاحب، عمران خان یا کوئی اور اصلاح پسندی کا دعویدار ان میں سے کوئی بھی شعوری طور پر یہ تسلیم کرتا دیکھائی نہیں دیتا کہ اس انڈس ویلی میں جہاں پچھتر برسوں سے پاکستان قائم ہے مختلف قومیں بستی ہیں ان کی اپنی ہزاریوں پر مبنی تہذیبی و ثقافتی روایات اور تاریخ و قومی شناخت ہے۔

جناح صاحب کی قیادت میں ہوا بٹوارہ، بھٹو صاحب کا ذاتی طور پر سوشل ڈیموکریٹ ہونا ان کی جماعت کا اسلام ہمارا دین ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں، کے تین بنیادی اصول تجزیہ کے متقاضی ہیں۔

سوشل ڈیموکریسی میری رائے میں سیکولر ازم کے قریب تر ہے۔ یہ اگر نظام کی صورت میں ہو تو سماجی مساوات اور بلاامتیاز انصاف کو دوچند بناتی ہے۔

بہرطور پیپلزپارٹی جس دور میں بنی اس دور کے عمومی عالمی حالات اور خود 14 اگست 1947ء سے اس وقت (پیپلزپارٹی کے قیام) کے درمیانی برسوں میں پاکستان میں در آئی تبدیلیوں اور دیگر معاملات کو بغور دیکھنے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

مثلاً مجھ سے طالب علم پچھلے چار ساڑھے چار عشروں سے اس امر کا اظہار کرتے آرہے ہیں کہ مذہب کے اونٹ کو دستور کے خیمے میں بیٹھانا ایک غلطی تھی۔ ہم میں سے اکثر اس غلطی کا ذمہ دار بھٹو صاحب کو قرار دیتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ برصغیر کا بٹوارہ بنام مذہب ہی ہوا تھا۔

قرارداد مقاصد اصل میں مذہبی بنیادوں پر ہوئے بٹوارے سے تجدید وفا ہے۔

ایسی فضا ماحول اور تاریخی ماضی رکھنے والے ملک میں روایت شکنی بھی ایک حد تک ہی ممکن ہے۔

باردیگر عرض ہے کہ بطور خاص یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ برصغیر کے بٹوارے کے وقت عالمی حالات کیا تھے اور برصغیر کی تقسیم پر مُصر مسلم قیادت عالمی طاقتوں کو کیا یقین دہانیاں کروارہی تھی۔

ہم جب تک ان تمام امور حالات اور رویوں کو سامنے رکھ کر تجزیہ نہیں کریں گے وہ تجزیہ آزاد منشی (خیالی) سے عبارت نہیں ہوگا۔

مذہب کا اونٹ دستور کے خیمے میں تو 1956ء میں بھی احترام کے ساتھ بیٹھادیا گیا تھا۔ پاکستان بنا ہی مذہب کے نام پر تھا۔ جناح صاحب کی 11اگست 1947ء والی تقریر برصغیر کے بٹوارے کے اساسی نظریات اور حالات و نتائج سے یکسر مختلف تھی۔ سکیورٹی اسٹیٹ تو اتنی طاقتور تھی کہ اس نے جناح صاحب اور لیاقت علی خان سے جو سلوک کیا وہ ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔ سکیورٹی اسٹیٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ کیا کیا؟

طالب علم اس امر سے متفق ہے کہ قرارداد مقاصد کو دستور کا حصہ نہیں ہونا چاہیے تھی۔

ایک قدم آگے بڑھ کر یہ عرض کروں کہ پچھلے چالیس پینتالیس برسوں سے یہ عرض کرتا آرہا ہوں کہ محفوظ جغرافیائی وحدت کی ضمانت مقامی قومی شناختوں کے دستوری اعتراف میں ہی ممکن ہے۔

نظام ہائے حکومت سیکولرازم سے عبارت ہونا چاہیے۔ مذہب اور عقیدہ ریاست کا نہیں فرد کا نجی معاملہ ہے۔

کیا ہم اس امر کو فراموش کردیں کہ 2018ء کے انتخابات کے دوران اور تو جو ہوا سو ہوا لیکن تحریک انصاف نے مسلم لیگ (ن) کو ختم نبوتﷺ کے معاملے پر ولن بناکر پیش کیا۔ خود مسلم لیگ (ن) سے ماضی میں بے شمار غلطیاں سرزد ہوئیں۔

غلطیاں کس نے نہیں ہوتیں۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ 25 کروڑ لوگوں کی شعوری طور پر رہنمائی کی جائے کہ وہ رعایا کے خول سے نکل کر عوام بنیں۔

وہی اس ملک کے حقیقی مالک ہوں نظام ہائے حکومت اور دیگر معاملات میں فیصلہ سازی کا حق انہیں حاصل ہے۔ سکیورٹی سٹیٹ کو قومی جمہوری ریاست میں بدلنے کی ضرورت ہے ورنہ تو

Advertisements
julia rana solicitors

“داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply