• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں وزیر اعظم کے بھانجے حسان نیازی کو پولیس تحفظ۔۔ غیور شاہ ترمذی

پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں وزیر اعظم کے بھانجے حسان نیازی کو پولیس تحفظ۔۔ غیور شاہ ترمذی

تصور کریں کہ آپ کا کوئی قریبی عزیز دل کی بیماری کا شکار ہو کر پنجاب کے واحد جدید اور معیاری سرکاری ہسپتال پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں زیر علاج ہو- ڈاکٹروں نے آپ کو ڈسپنسری سے ادویات لانے کے لئے بھیجا ہو اور آپ ڈسپنسری کے باہر لگی طویل قطار میں اپنی باری کا انتظار کر رہے ہوں- عین اسی دوران کوئی شخص دندناتا ہوئے آئے اور تمام قطار کو نظر انداز کرتے ہوئے ڈسپنسری کے دروازے کو لات مار کے کھولے اور ڈسپنسری کے ملازمین کو حکم دے کہ تمام مریضوں اور ان کے لواحقین کو دفع کرے اور اس کے مریض کی ادویات اور دوسرا طبی سامان فوری طور پر مہیا کیا جائے- آج سے ایک مہینہ پہلے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی جیل روڈ لاہور میں یہی ہوا کہ کالا کوٹ پہنے کچھ غنڈے، جو خود کو وکیل کہتے تھے، ڈسپنسری میں داخل ہوئے اور انہوں نے خود کو سب سے پہلے ترجیح دینے کا مطالبہ کیا- وکیلوں کی اس غنڈہ گردی کے خلاف ڈسپنسری عملہ اور مریضوں کے لواحقین نے احتجاج کیا تو وکیلوں نے انہیں دھمکیاں بھی دیں اور گالیاں بھی دیں- بات بڑھ گئی اور ڈسپنسری ملازمین، مریضوں کے لواحقین اور ہسپتال کے درجہ چہارم کے ملازمین نے ان غنڈے وکیلوں کی دھلائی کر دی۔ پولیس آئی اور ان وکیلوں کو لے کر چلی گئی-

اس معاملہ کو بظاہر یہیں ختم ہو جانا چاہیے تھا مگر وکیلوں نے اس کے خلاف احتجاج شروع کر دیا- واضح رہے کہ یہ لڑائی وکیلوں اور ڈاکٹروں کے مابین نہیں ہوئی تھی بلکہ یہ لڑائی وکیلوں اور ہسپتال کے درجہ چہارم کے ملازمین کے درمیان تھی جس میں ڈسپنسری ملازمین کے علاؤہ ہسپتال کے خاکروب بھی شامل تھے- پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں تمام ملازمین بشمول ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کے گرینڈ ہیلتھ الائنس بنا ہوا یے جس کے چئیرمین ایک ڈاکٹر ہیں جو ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے رکن بھی ہیں- اس واقعہ کے بعد گرینڈ ہیلتھ الائنس والوں نے اس واقعہ کے خلاف بعد میں بھی احتجاج جاری رکھا کیونکہ وکیلوں نے ان کے خلاف ایف آئی آر کٹوا دی تھی جس کے تحت درجہ چہارم کے 2 ملازمین کو پولیس نے گرفتار بھی کر لیا تھا۔ مقدمہ میں وکیلوں نے دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کروا دی تھیں۔ گرینڈ ہیلتھ الائنس کے اس احتجاج کے بعد حکومتی انتظامیہ نے دونوں گروپوں میں صلح کروا دی- اس موقع پر گرینڈ ہیلتھ الائنس کے چیئرمین نے وکیلوں سے معافی بھی مانگی اور یہ بھی وعدہ کیا گیا کہ وکیلوں کو وی۔آئی۔پی تسلیم کرتے ہوئے ان کے لئے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں الگ کاؤنٹر بنایا جائے گا جس کے لئے وکیلوں کے نمائندگان اور گرینڈ ہیلتھ الائنس والے مل کر کوشش کریں گے-

لاہور بار ایسوسی ایشن کے انتخابات جنوری کے وسط میں ہونے ہیں- ویسے تو لاہور بار ایسوسی ایشن جنوبی ایشیاء کی سب بڑی بار ہے لیکن اس کے 25 ہزار رجسٹرڈ ممبران میں سے رجسٹرڈ ووٹرز پچھلے سال صرف 8 ہزار ہی تھے کیونکہ وکیلوں کی اکثریت نے لاہور بار ایسوسی ایشن میں اپنی بائیو میٹرک رجسٹریشن نہیں کروائی تھی- امسال کے دوران بار ایسوسی ایشن نے مہم چلا کر وکیلوں کی بائیو میٹرک رجسٹریشن کروائی جس کی وجہ سے رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا جس میں نوجوان جونئیر وکیلوں کی تعداد بہت زیادہ ہو چکی ہے- لاہور بار ایسوسی ایشن میں اب پرانے گرہوں کی بجائے نئے گروپ تشکیل پا رہے ہیں جس میں اپنا حصہ بڑھانے کے لئے تحریک انصاف بہت کوششیں کر رہی ہے- تحریک انصاف کی اس منصوبہ بندی میں حسان نیازی ایڈووکیٹ اہم ذمہ داری انجام دے رہے ہیں جو وزیر اعظم عمران خاں کے بھانجے ہیں۔ ایڈووکیٹ حسان نیازی کے والد حفیظ نیازی ہیں جو جیو نیوز کے سینئر تجزیہ کار ہیں اور جنگ اخبار کے لئے کالم لکھتے ہیں-

حکومتی عہدے داران کی مداخلت پر ہونے والی اس صلح کی زندگی صرف 2 دن ہی رہ سکی کیونکہ کسی نے سوشل میڈیا پر ایک پرانی ویڈیو وائرل کر دی- اس ویڈیو میں گرینڈ ہیلتھ الائنس کے اراکین کی طرف سے وکیلوں پر تشدد کرتے دکھایا گیا تھا- یہ ویڈیو لاہور بار ایسوسی ایشن کے انتخابات میں فعال کچھ وکیلوں تک بھی پہنچ گئی جن میں حسان نیازی ایڈووکیٹ بھی شامل تھے- تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کی طاقت سے پاکستان کیا دنیا بھر کے لوگ متاثرین ہیں تو وکیل کیسے بچ پاتے- حسان نیازی ایڈووکیٹ کے طاقتور سوشل میڈیا کی مدد سے پھیلنے والی اس ویڈیو کو وکیلوں نے اپنی توہین سمجھا- بار ایسوسی ایشن کے انتخابات کی گہما گہمی میں جونئیر وکیلوں کی طاقت سب کے سامنے ہے جو ان انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔ اس ویڈیو کے ردعمل میں جونئیر وکیلوں نے اعلان کروائے کہ ڈاکٹروں نے وکیلوں کی توہین کی ہے، اس لئے جسے وکیلوں کے ووٹ چاہئیں وہ ڈاکٹروں کو سبق سکھانے کے لئے جلوس کی شکل میں ان کے ساتھ چلے-

لاہور ہائی کورٹ میں یہ جلوس اکٹھا ہوا اور وکیلوں نے اعلانات کئے کہ وہ ڈاکٹروں کی سرجری کریں گے، ان کے بائی پاس کریں گے اور گھس کر انہیں سبق سکھائیں گے- حسان نیازی اس نعرہ بازی اور تقریروں میں پیش پیش رہے- لاہور ہائی کورٹ سے پنجاب  انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے 7 کلومیٹر طویل فاصلہ کے دوران وکیلوں کے جلوس کے جارحانہ پن سے راہ گیر تک خدشات ظاہر کر رہے تھے کہ وکیل کسی جنگ پر جا رہے ہیں- شاڈمان چوک پر پولیس افسران نے اس جلوس کو روکنے کی کوشش کی مگر حسان نیازی ایڈووکیٹ نے پولیس کو کہا کہ وہ لوگ صرف احتجاج کریں گے اس لئے پولیس مداخلت نہ کرے- وزیر اعظم کا بھانجا جب پولیس افسران سے بات کر رہا ہو تو کس کی جرات ہو گی کہ وہ حکم عدولی کرے کیونکہ سب جانتے ہیں کہ ایسا کرنے سے معطلی اور تبادلہ ہتھیلی پر پڑا ہو گا-

حسان نیازی ایڈووکیٹ اور دوسرے وکیل راہنماؤں کی قیادت میں جلوس پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پہنچا اور وہاں نعرہ بازی کرتے ہوئے سیدھے میں گیٹ پر پہنچے، دھکے مار کر اسے کھلوایا اور اندر گھس کر ہسپتال کو تباہ و برباد کر دیا- ایک اندازہ کے مطابق وکیلوں کے اس حملہ میں 7 کروڑ سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے جس میں وینٹی لیٹرز اور دوسری مشینیں شامل ہیں- اس موقع پر پولیس جب حرکت میں آئی تو بہت دیر ہو چکی تھی- دو گھنٹوں تک ہسپتال کو یرغمال بنے رہنے کے بعد وکیلوں کو بمشکل باہر نکالا گیا- باہر نکلنے تک وکیل ہسپتال کے او۔پی۔ڈی وارڈ، ایمرجنسی وارڈ اور آئی۔سی۔یو وارڈ کو مکمل تباہ کر چکے تھے جس میں وینٹی لیٹرز اور دوسری مشینیں بھی تھیں- وکیل باہر نکلے اور انہوں نے گاڑیوں، فرنیچر وغیرہ کو توڑنا پھوڑنا شروع کر دیا- اس موقع پر پولیس کی گاڑیاں بھی محفوظ مقام پر پولیس کے پاس ہی تھیں- حسان نیازی ایڈووکیٹ اور ایک پولیس افسر کے درمیان کچھ بات ہوئی جس کے بعد ایک پولیس گاڑی کو عین اس جگہ خالی چھوڑ دیا گیا جو وکیلوں کے ہجوم کے درمیان تھی- کہیں سے پٹرول بھی مہیا کر دیا گیا اور وکیلوں نے اسے گاڑی پر چھڑک کر اسے نذر آتش کر دیا- پولیس وین جلتی رہی، وکیل اس پر چڑھ کے بھنگڑے ڈالتے رہے مگر پولیس وہاں گاڑی بچانے میں ذرہ برابر دلچسپی نہیں لے رہی تھی- کیوں؟۔ اس کی انکوائری ہونا بہت ضروری ہے-

حسان نیازی ایڈووکیٹ کو ہر ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے- اس کے علاوہ درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں اور ہزاروں لوگوں نے حسان نیازی کو نعرہ بازی کرتے، تقریریں کرتے، پولیس والوں سے بات کرتے اور پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں پتھراؤ کرتے دیکھا ہے- جادو اور حیران کر دینے والی خبر یہ ہے کہ کسی بھی حکومتی ایف۔آئی۔آر اور خفیہ والوں کی رپورٹوں میں حسان خان نیازی ایڈووکیٹ کا ذکر نہیں ہے- حتیٰ کہ صحافیوں نے جب اس طرف وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کی توجہ دلوائی تو انہوں نے وضاحتی یقین دہانی والا بیان دینے کی بجائے صرف یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ ویڈیوز میں جو بھی سامنے آئے گا اس کے خلاف کاروائی کریں گے چاہے وہ کسی کا بھی بھانجا ہو- محسوس تو یہی ہو رہا ہے کہ پولیس اور انتظامیہ حسان نیازی ایڈووکیٹ کو بچانے کی سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں- تحریک انصاف سوشل میڈیا والوں کے پاس اور کچھ تو نہیں آیا مگر انہوں نے ادھورا سچ پھیلانا شروع کر دیا کہ حسان نیازی ایڈووکیٹ تو مسلم لیگ نون کے حمایتی حفیظ اللہ نیازی کے بیٹے ہیں مگر وہ یہ نہیں بتاتے کہ حفیظ نیازی کی اپنی بیگم عظمی نیازی سے اس وقت طلاق ہو گئی تھی جب حسان نیازی سکول طالب علم تھے۔ ان کا بچپن اور پڑھائی اپنی ماں عظمی نیازی کے پاس رہی اور ان کا آئیڈیل اس کے ماموں وزیر اعظم عمران خان نیازی رہے ہیں-

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پولیس نے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر حملہ کرنے والے حسان نیازی ایڈووکیٹ وغیرہ کی بجائے راہ چلتے، یہاں وہاں سے وکیلوں کی پکڑ دھکڑ کر رہی ہے جس میں 7 وکیلوں کو آج 6 دن کے جسمانی ریمانڈ پر عدالت نے پولیس کے حوالہ کر دیا ہے جنہیں مختلف تھانوں میں رکھا گیا ہے- اس کے علاؤہ 39 وکیلوں کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا گیا ہے- وکیلوں نے اپنے ساتھیوں کی گرفتاری کے خلاف شدید احتجاج کرتے ہوئے پنجاب بھر میں ہڑتال کر رکھی ہے- اس ہڑتال کی وجہ سے ہزاروں سائلین پنجاب بھر میں دل گئے ہیں- وکیل مسلسل ڈاکٹروں، میڈیا اور حکومت کے خلاف نعرہ بازی کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے- وکیلوں نے عدالت عالیہ میں ایک رٹ بھی داخل کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اوپر بیان کئے گئے وکیلوں کے علاوہ پولیس نے 3 ایسے وکیلوں کو بھی گرفتار کیا ہے جو پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ہونے والے واقعہ میں موجود ہی نہیں تھے بلکہ پولیس نے انہیں ان کے دفاتر اور گھروں سے گرفتار کیا ہے-

وکیلوں کے جارحانہ پن میں ابھی تک کوئی کمی نہیں آ سکی- اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری عمیر بلوچ نے تو میڈیا کو بھی دھمکی دے ڈالی اور کہا ہے کہ اگر میڈیا نے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر وکیلوں کے حملہ کے خلاف خبریں دینا بند کر کے وکیلوں کو سچا کہنا نہ شروع کیا تو وہ میڈیا کا داخلہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی عدالتوں میں بند کر دیں گے- حیرانگی کی بات ہے کہ عدالتوں کی زمہ دار تو حکومت ہوا کرتی ہے، یہ وکیل کب سے اس اختیار کے مالک بن گئے ہیں کہ وہ کس کو عدالتوں میں آنے دیں گے اور کس کا داخلہ بند کریں گے- شاید اسی غنڈہ گردی اور جارحانہ پن کو غیر قانونی گردانتے ہوئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان موصوف کا وکالت لائسنس منسوخ کر دیا ہے- ان غنڈہ گرد وکیلوں کے علاوہ اچھے وکیل ابھی تک کھل کھلا کر سامنے نہیں آ سکے- صرف سندھ بار ایسوسی ایشن نے اس جارحیت کی مذمت کی یے- سندھ بار ایسوسی ایشن والوں نے سندھ ہائی کورٹ کے باہر جمع ہو کے صحافیوں کو مٹھائی تقسیم کی اور اعلان کیا کہ وہ ڈاکٹروں اور وکیلوں کے درمیان امن قائم کرنے کے لئے ہسپتالوں میں بھی مٹھائی تقسیم کریں گے- سپرہم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ، ماہر قانون چوہدری اعتزاز احسن وغیرہ نے بھی وکیلوں کی طرف سے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر حملہ کی مذمت کی ہے- سینئر  وکیل راہنماؤں نے وکیلوں اور ڈاکٹروں کے درمیان جلد از جلد امن قائم کروانے کی ضرورت پر زور دیا ہے-

Advertisements
julia rana solicitors london

معاملات جتنے الجھ گئے ہیں، انہیں حل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اور بار کونسلز کو ایک میز پہ مل بیٹھیں تاکہ معاملات افہام و تفہیم سے حل کئے جا سکیں- دونوں ادارے باہمی مشاورت سے ایک غیر جانبدار انکوائری کمیشن تشکیل دیں جو شروع سے لے کے آخر تک تمام معاملات کی انکوائری کرے اور ذمہ داروں کا تعین کرے- جو بھی ان معاملات میں شروع سے لے کے آخر تک کسی بھی سٹیج میں م ملوث رہا ہو انہیں اس سانحہ کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے اور انہیں سخت سزا دی جائے- اس انکوئری کمیشن میں دونوں اطراف کے لوگ بیٹھنے چاہئیں اور تاکہ سارے معاملے کی حدت اور شدت کو Defuse کیا جائے۔ وکلاء اور ڈاکٹر اس معاشرے کے دو ستون ہیں- دونوں کے بغیر معاشرہ نہیں چل سکتا۔ اس ساری صورتحال میں پاکستان کا چہرہ خراب ہو رہا ہے۔ بہت سمجھداری اور مدبرانہ طریقے سے اس سارے مسٌلے کو حل کرنا بہت ضروری ہے۔ حکومت اور میڈیا سے گزارش ہے کہ اپنا غیر جانبدار رول نبھائیں۔ اس سارے پرابلم سے یا تو مریض suffer ہو رہی ہیں یا سائلین۔ دونوں شعبے انتہائی اہم ہیں۔ اس لئے اس الجھاؤ کو جلد از جلد حل کیا جائے تاکہ ہسپتالوں میں بھی کام شروع ہو اور عدالتوں میں بھی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply