ناول کی دنیا میں ایک اصطلاح “ماحولیاتی مطالعہ” Environmental Literature بھی ہے، اس ماحولیاتی مطالعے کا مآخذ ایک اور حیاتیاتی اصطلاح “ایکولوجی” Ecology ہے، جو انیسویں صدی کے آخر میں حیاتیات کی ایک سائنسی شاخ کے طور پر نمودار ہوئی، جہاں “ایکولوجی” کا تصور حیاتیات اور ماحول کے درمیان تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی تک “ماحولیاتی” تنقید ادبی اور ثقافتی علوم میں ایک اہم رجحان بن گئی۔ اصطلاح کی جدیدیت کی وجہ سے، ناقدین ماحولیاتی تنقید کے حتمی اور غیر حتمی تصور پر متفق نہیں تھے، لیکن اس کے مواد میں اس سے مراد ادب، فطرت، زمین، جگہ اور ماحول کے درمیان تبدیلی اور بیاناتی تعلق کو مختلف پڑھنے والوں کے لئے سمجھایا گیا ہے۔ جو کہ ثقافتی، تخریبی، تشریحی، نفسیاتی، سماجی، تاریخی، جمالیاتی، یا تخیلاتی ہو سکتا ہے۔ “ماحولیاتی تنقید” سے مراد وہ تنقید ہے جو ماحولیات کے ادبی متن پر توجہ مرکوز کرتی ہے، جو فطرت کو اپنی حرکیات میں پیش کرتی ہے اور اس کے مثبت یا منفی انسانوں پر نفسیاتی اثرات، فطرت کی طرف سے بنائے گئے “قدرتی” ماحولیاتی عناصر، جیسے سمندر، سورج، رات، چاند، صحرا وغیرہ، یا انسانوں کے بنائے ہوئے “مقامی” ماحولیاتی عناصر، یا مکانات اور مختلف مقامات پر توجہ دلائی جاتی ہے۔
انگریزی کے علاوہ اردو میں بھی بہرحال ماحولیاتی تنقیدی مطالعہ ملتا ہے اور عربی زبان میں بھی ماحولیاتی تنقیدی ادب میں کافی کام ہوچکا ہے، اس موضوع پر عرب محقق ڈاکٹر محمد عبداللہ سرحان نے اپنی کتاب “الرواية العربية – دراسة نقدية إيكولوجية” یعنی “عربی ناول- ایک ماحولیاتی تنقیدی مطالعہ” ابھی حال ہی میں لکھا ہے, جس میں انہوں نے عربی ادب میں ماحولیاتی ادبی ناولوں میں فطرت کے مظاہر اور ماحول کے بیان پر بحث کی ہے۔ جن میں مصری مصنف یوسف السیبائی کا ناول “أرض النفاق” یعنی “منافقت کی سرزمین” ہے، جس کے عنوان میں بنیادی قدرتی ماحول کا ایک جزو شامل ہے، یہ وہ سرزمین ہے جہاں سے انسان ہمیشہ امید رکھتا ہے۔ اور وہ اس سے نیکی پیدا کرے گا، جس کی نمائندگی فصلوں، پھلوں، میٹھے پانی، اور معدنیات اور قیمتی چیزیں جو اس کے پیٹ میں ہوتی ہیں۔ لیکن مصنف ناول میں زمین کو اس کے برعکس بدل کر دکھاتا ہے کہ جہاں سے صرف منافقت ہی نکلتی ہے جو انسانی رویے کی ہر خامی کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ ناول یہ بتاتا ہے کہ اخلاقی بحران جس کی نمائندگی ایمانداری کی عدم موجودگی اور منافقت اور جھوٹ کے غلبے سے ہوتی ہے، اس نے ایک شدید ماحولیاتی بحران کو جنم دیا ہے جو دریائے نیل کے پانیوں کی آلودگی سے جنم لے رہا ہے، جہاں منافقت فطرت کے لیے خطرہ بن گئی ہے، اور یہاں انسان صرف زندگیوں کو آلودہ کررہا ہے۔
اس مطالعاتی جائزے میں ایک اور سوڈانی مصنف طیب صالح کے ناول «موسم الهجرة إلى الشمال” یعنی “شمال کی طرف ہجرت کا موسم” میں مصنف نے فطرت کو ماحولیاتی اور نفسیاتی سطح پر ایک غالب کردار ادا کرتے دکھانے کی کوشش کی ہے, ناول کا کردار یورپ میں سات برس گزارنے کے بعد اپنے گاؤں لوٹتا ہے، جو دریائے نیل کے موڑ پر واقع ہے۔ یورپی زندگی اور اس کی مادی سہولیات سے مستفید ہونے کے باوجود اس کا مرکزی کردار ہمیشہ اپنے چھوٹے سے گاؤں کے لیے ترستا رہتا ہے، وہ اپنے گاؤں میں ملنے والے لوگوں کے جذبات کی گرمجوشی کے تاثرات کو بیان کرتا ہے۔ وہ اپنے اردگرد کی برف کو پگھلا رہا ہے، جو اس کے اندر یورپ میں مادی سہولیات کی زندگی سے پیدا ہوتی ہے، وہ اپنے لوگوں کے جذبات کی گرمی سے پگھلتی محسوس ہوتی ہے۔ وہ دریا کے کنارے ببول کے درخت کے پاس اپنی پسندیدہ جگہ پر لوٹتا ہے، جہاں اس نے اپنے بچپن کا طویل عرصہ گزارا تھا۔ وہ اس کے سائے میں بیٹھتا ہے اور نرمی اور سکون سے اپنے سامنے سے گزرتے دریا کو دیکھتا ہے، وہ چھوٹے چھوٹے پتھروں کے ٹکڑوں کو پکڑ کر دریا میں پھینکتا ہے، اور اس کا تصور اسے سامنے دور دراز، افق کی طرف لے جاتا ہے۔
اسی جائزے میں ایک اور ناول شامی مصنف غدہ السمان کا ناول “بیروت 75” جو ایک قدرتی عناصر میں سورج کی داستان پیش کرتا ہے، کہ زندگی کیسے سورج کے کے ساتھ ماحولیاتی آغاز سے شروع ہوتی ہے۔ مصنف سورج کو ایک ہولناک شعلہ بتاتا ہے، اس ناول کا کردار ایک فرح نامی نوجوان ہے جو خود پر سورج کی گرم شعاعیں ڈالتا ہے، وہ اپنے وطن شام سے لبنان کی طرف روانہ ہو رہا ہے، جہاں وہ روزگار کے لئے ایک نئے خواب، شہرت اور دولت کے لئے جارہا ہے، جو اپنے اندر کے دبائے ہوئے رجحانات اور خواہشات کی خود کلامی کرتا ہے، یہ ناول عورت، محبت، خوبصورتی کے گرد گھ۔ری ہے، جس کا کردار فرح ایک یاسمینہ نامی لڑکی سے محبت کرتا ہے، وہ اسے سورج کی طرح محسوس کرتا ہے، وہ ڈرتا ہے کہ وہ اس کی گہرائیوں میں داخل ہونے کی کوشش کرے گا یا اسے اپنے ہدف سے دور کسی مقصد کی طرف متوجہ کرے گا۔ لیکن “یاسمینہ” اپنی بے ساختگی، زندگی سے محبت، کی وجہ سے اس کے سورج کے بارے میں اپنے رویے میں اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے: اس سورج کی گرمی اور تپش مزہ دیتی ہے۔ وہ دمشق سے بیروت جانے والی سڑک کو دیکھتا ہے، جب گاڑی شہر سے نکلتی ہے اور ربوہ اور الحامہ کے راستے پر چلتی ہے، اس سے پہلے کہ دمشق کے داخلی دروازے پر بلند چٹان کو پیچھے چھوڑ دیا جائے۔ وہ چٹان کو سربلندی اور اعلیٰ مرتبے کے طور پر دیکھتا ہے، جو زمین میں ثابت قدمی اور مضبوطی کو ظاہر کرتی ہے، اسے لگتا ہے کہ جیسے چٹان اپنی جگہ زمین پر قائم ہے اسے بھی صرف روزگار اور اپنے خوابوں کے لیےاپنی جگہ نہیں چھوڑنی چاہیے تھی، ان شاندار اقدار کو جو وہ اپنے پیچھے چھوڑ رہا ہے جن سے وہ محروم ہو جائے گا، تب کل اسے ان کی اہمیت کا احساس ہو گا جب بہت دیر ہو جائے گی، اور جب کوئی فائدہ نہیں ہو گا تو وہ پچھتائے گا۔ اس کتاب میں جنگل کی حیاتیات کا احساس ہے جنگل میں چلنے والی ہوا کا احساس ہے، اسے ایسا لگتا ہے کہ جب جنگل میں ہوا چلتی ہے تو ہوا جنگل میں الفاظ پیدا کر کے اسے بلاتی ہے، اس میں موسیقی ہے، جب موسیقی ہوا نیں پھیلتی ہے، تو جںگل کے درختوں اور شاخوں کو ہلاتی ہے، اس کے پرندے چیختے ہیں اور اپنے سانپوں کو جگاتے ہیں۔ وہاں اس سے محسوس ہوتا ہے کہ اس کا دل ایک پرندے میں تبدیل ہو گیا تھا جو وسیع افق پر اڑنے کے لیے بھوکا تھا۔ ایک پرندہ جو روایات اور پابندیوں کے بوجھ سے نکلنا چاہتا ہے، ایک بھوکا اور بے آسرا پرندہ جو اپنے اندر تیرنے والی خوبصورتی کو پی کر جینا چاہتا ہے۔
نوٹ :
1- عرب محقق ڈاکٹر محمد عبداللہ سرحان نے اپنی کتاب “الرواية العربية – دراسة نقدية إيكولوجية” یعنی “عربی ناول- ایک ماحولیاتی تنقیدی مطالعہ” کی تصویر ہے جو مصر کے پبلش خانے سے چھپی ہے۔
2- اردو ادب میں میرے خیال میں ماضی قریب میں اگر کسی نے ماحولیاتی ادب پر کوئی ناول لکھا ہے تو ان میں Muhammad Atif Aleem عاطف علیم صاحب کا ناول “مشکپوری کی ملکہ” ہے۔ میں نے یہ ناول نہیں پڑھا لیکن میں نے اس کتاب کی توصیف و تعریف میں معروف تبصرہ نگاروں اور اچھے لکھاریوں کے تبصرے ضرور پڑھے ہیں، جو لوگ ماحولیاتی ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں انہیں یہ ناول ضرور پڑھنا چاہیے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں