فرخ سہیل گوئندی اور اُن کا منفرد سفر نامہ‘‘میں ہوں جہاں گرد’’/حصّہ دوم/تبصرہ:ڈاکٹر اے بی اشرف

جہاں گرد جب ایران میں داخل ہوا تو یہ وہ زمانہ تھا جب امام خمینی کا انقلابِ ایران اپنے شباب کی انگڑائیاں لے رہا تھا۔ مشہد کی طرف جاتے وقت جہاں گرد کو دشت لوت کا طول طویل سفر کرنا پڑا۔ دشت لوت دنیا میں ستائیسواں بڑا صحرا ہے جو دنیا کی سب سے خشک اور گرم ترین سرزمین ہے۔یقین سے تو نہیں کہہ سکتا مگر میرے خیال میں یہ وہی دشت لوت ہے جس میں حسن بن صباح نے جنت ارضی قائم کر کے سلطنت ایران کو ہلا کر رکھا دیا تھا۔ائیر کنڈ یشنڈ بس میں ان کے ساتھ ملتان اور نارووال کے مسافر تھے جن کے ساتھ بڑا اچھا وقت گزرا ۔ مشہد میں ، جہاں امام رضا ؑکا روضہ ہے ، خوب گھومے پھرے۔ایران میں جہاں بھی گئے، قابل تحسین ادب آداب اور نظم و ضبط دیکھااور ہر شعبہ حیات میں ڈسپلن پایا۔ ایرانی ‘‘کباب کو بیدہ’’ کی لذت انہیں بے مثال لگی۔
انقلابِ ایران کے بعد انقلاب مخالف لوگ زیادہ تر ترکی میں منتقل ہوئے۔کچھ پاکستان کے راستے ترکی پہنچے۔ گویا انقلابِ ایران کو فرخ سہیل گوئندی نے اپنی جوانی میں اپنی آنکھوں سے دیکھا۔مشہد کو دیکھنے کے بعد وہ تہران پہنچے۔ تہران کے مسافر خانوں کو انہوں نے پاکستان کے ہوٹلوں سے بھی بہتر پایا ۔ پھرناشتے میں چھے سات فٹ لمبے ایرانی نان کے ٹکڑوں کے ساتھ‘‘صبحانہ’’میں دنبے کے مغز کے بار بی کیو نے انہیں دوسری دنیا میں پہنچا دیا۔ تہران کی سڑکوں پر جگہ جگہ انہیں بینرز نظر آئے جو ایران کی آمد پر ان کے استقبال کے لیے لگائے گئے تھے ،جن کو پڑھ کر جہاں گرد کا دل خوش ہوا۔
بینرز پر لکھا تھا: ‘‘سگ امریکہ آمداست’’۔
‘‘کاخِ گلستان ’’کی سیر کرواتے وقت جہاں گرد نے سوچا:
‘‘ایرانی شہنشاہ کا محل ہمارے قدموں تلے تھا، مجھ پر ایک کیفیت طاری تھی۔ انقلابِ ایران ،جس نے اڑھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کا خاتمہ کروایا اور یہ افتادگانِ خاک صدیوں قدیم اس محل میں گھوم رہے تھے۔ جہاں کسی چڑیا کو پر مارنے کی اجازت نہ تھی۔’’(ص58 )
دانشگاہِ تہران دیکھنے کے بعد اصفہان نصف جہان پہنچے۔جس زمانے میں مَیں فاضل فارسی کا نصاب پڑھ رہا تھاتو اس میں قدیم ایران کی تاریخ کا مطالعہ کرتے وقت شاہ عباس صفوی کا باب میں نے بڑی دلچسپی سے پڑھا تھاکیوں کہ وہ ایران کے عظیم شہنشاہوں میں سب سے نمایاں تھااور اس نے عظیم الشان کارنامے سر انجام دئیے تھے۔اصفہان کو اسی نے پایۂ تخت بنایا تھا۔جہاں گرد نے تفصیل سے اصفہان کی سیریں بھی کیں ، تاریخی مقامات بھی دیکھے ۔ شاہ عباس اعظم کے زمانے کے تاریخی حوالے بھی دئیے ہیں، جو بہت دلچسپ ہیں۔ گویا تہران کو مرکز بنا کر انہوں نے مختلف شہروں کی سیاحت کر کے تاریخی مقامات ہی نہیں دیکھے بلکہ ایرانیوں کے رہن سہن، خوراک و لباس، اخلاق و اطوار ، تہذیب و ثقافت کے مختلف پہلوؤں کا مطالعہ بھی کیا۔مجھے ان کی جو بات اچھی لگی، وہ یہ کہ ان کا چیزوں کو دیکھنے بھالنیکا اندازبڑا مثبت اور خوشگوار ہوتا ہے۔
ایران کی سیاحت کے بعد وہ ایک یہودی شوفر کی ٹیکسی پر تہران کے بس ٹرمینل پہنچے۔ راستے میں شوفر کے پوچھنے پر اُسے جب بتایا کہ وہ ترکی جا رہے ہیں تو اُس کی زبان سے بے اختیار نکلا ،‘‘تم خوش نصیب ہو ۔ کھلی دنیا میں جا رہے ہو۔’’(ص122 )اُس زمانے میں یہ بڑا معنی خیز جملہ تھا ۔جہان گرد نے اس پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہ کیا کہ مصلحت وقت یہی تھی اور ان کی سیاسی سوجھ بوجھ کا تقاضا بھی۔
بس کا ٹکٹ لینے میں بہت دشواری پیش آئی کیوں کہ اس کے ذریعہ خاصی سمگلنگ کی جا رہی تھی۔ مسافر کم اور سامان خرد برد زیادہ لادا جارہا تھا ۔شامی سمگلر نے سپاہ پاسداران کی چیکنگ کے وقت مذہب کو استعمال کر کے تلاشی سے بچنے کے طریقے اختیار کیے ہوئے تھے۔ خوبصورت ایرانی قصبے ماکو پہنچے جو ترکی کی سرحد سے بیس ، بائیس کلومیڑ کا فاصلے پر تھا۔کسٹم وغیرہ کی رسومات سے فراغت کے بعد جہاں گرد ترکی کے سرحدی ہال میں داخل ہوا تو ہال میں نیلی آنکھوں والی ایک عظیم شخصیت کی پُر کشش تصویر لگی دیکھی …
‘‘مصطفی کمال پاشا اتاترک’’
باہر نکل کر دیکھا تو سفید چوٹی والا کوہ ارارات نظر آیا جو اپنی تاریخی عظمت کو سینے سے لگائے شان استقلال سے ایستادہ تھا۔ جہاں گرد کے ذہن و دماغ میں کوہ ارارات سے وابستہ پوری تاریخ ماضی کے اوراق کھولتی چلی گئی ۔ طوفانِ نوح ، حصرت نوح ؑکی کشتی ، آرمینیا ، ایران، سلجوق، عثمانی سلطنت، اناطولیہ جدید،ترکی، اشتراکیت،سرمایہ داری ، سرد جنگ،کُردستان اور بہت کچھ۔
یہاں سے دولموش پردوع بیازت پہنچے۔ اس زمانے میں جنرل کنعان ایورن کا مارشل لاء ترکی میں لگا ہوا تھااور ادھر پاکستان میں ضیا الحق کا مارشل لاء نافذ تھا۔ دونوں غاصب جرنیلوں میں گاڑھی چھنتی تھی۔ دوع بیازت میں جہاں گرد نے اسحاق پاشا کا محل دیکھاجو 1705 ء میں مکمل ہوا تھا۔جہاں گرد کے مطابق، دوع بیازت میں کوئی دیکھنے والی شے ہے تو وہ کو ہ ارارات ، اسحاق پاشا کا محل اور کُردوں کا اخلاق اور مہمان نوازی ۔کرد علاقے کی سیر کا حال پڑھا کر مجھے اورحان پاموک کا ناول برف(Kar) یاد آگیاجس کا پورا پس منظر اور موضوع یہی علاقہ ہے۔میری دانست میں اورحان پاموک کا شاہکار ناول یہی ہے ،اگرچہ نوبل انعام ان کے ناول ‘‘سرخ میرا نام’’کے باعث ملا۔
دوع بیازت سے جہاں گرد بس کے ذریعے ارض روم پہنچا ،بڑ ی تفصیل سے اسے دیکھا، گھوما پھرااور تفصیل سے اس پر لکھا۔ارضِ روم کو جہاں گرد نے کئی تہذیبوں کا گہوارہ قرار دیا۔سمیری، حتی، بابلی، آرمینیائی، فارسی، روسی، سلجوقی، عثمانی تہذیبوں نے ارضِ روم میں شکلیں بدلیں۔یہیں انہوں نے محسوس کیا کہ ترکوں میں قومیت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، گویا اس جذبے کا ادراک انہوں نے اپنے مشاہدے کے بَل پرکیا ۔ ترکی کا یہ پرچم اس جذبے کا اظہار کرتا ہے۔ جہاں گرد لکھتے ہیں:
‘‘مدرسہ یعقوتیہ سے باہر نکلا تو ترکوں کا ایک غول مسجد میں نماز کے لیے رواں دواں تھااور مسجد کی پیشانی پر ترکیہ جمہوریہ کا پرچم لہرا رہا تھا۔جہاں ترکی ہے ،شہر ، گاؤں ، قصبہ، پہاڑ یا ٹیلہ، ترک پرچم ہر طرف لہراتا نظر آئے گا۔ مسجد، دفترہوٹل، گھروں کی بالکونیوں، بسوں کے اندر ، کاروں کے اندر……اور ایسے ہی اتاترک کا مجسمہ ضرور ہو گا……..میں سوچنے لگا کیا کبھی ہم نے دیکھا کہ پاکستان کی کسی مسجد پر پاکستانی پرچم لہرا رہا ہو۔ البتہ ہمارے ہاں دہلی کے لال قلعہ پر پاکستان کا پرچم لہرانے کا جنون اکثر پاکستانیوں کے دماغوں پر سوار ہے۔’’(ص177 )
ہمارے ہاں قومیت کا جذبہ مفقود ہے اور ہماری بہت سی برائیوں کا ایک سبب یہ بھی ہے۔ اسی طرح پاکستان میں مذہبی طبقے کے علاوہ ایک خاصے بڑے طبقہ میں یہ غلط فہمی بھی پائی جاتی ہے کہ چوں کہ ترک ایک سیکولر ملک ہے، اس لیے وہاں کے لوگ بے دین ہیں،کوئی غازی نہیں ۔ جہاں گرد لکھتے ہیں:
‘‘ہمارے ہاں تو مشہور تھا کہ ترکی سیکولر ملک ہے، وہاں کوئی نمازی نہیں، میرے ہم وطنوں نے اسی لیے یہ سمجھ لیا کہ ریاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں، اس لیے شاید لوگوں کا بھی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ۔ ایک حیران کن مغالطہ…..میں دیکھ رہا تھا کہ مساجد میں نمازیوں کی تعداد اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی۔’’(ص 179 )
ہمارے جہاں گرد نے ہر چھوٹے بڑے شہر میں یونیورسٹی ضرور دیکھی۔ تعلیمی لحاظ سے ترکوں نے جمہوریت کے قیام کے بعد اتنی ترقی کی کہ یہاں ایک ایک شہر میں سکولوں کی کثیر تعداد کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیاں بھی کثرت سے موجود ہیں، مثلاً محض انقرہ میں بیس سے زائد یونیورسٹیاں موجود ہیں ۔ سکول تو لاتعدادہیں۔ یہاں کالج کا رواج نہیں ہے یعنی سکول سے لیزے(گیارہ جماعتیں) کرنے کے بعد براہ راست یونیورسٹی میں چلے جاتے ہیں، جہاں چار سال کی تعلیم کے بعد گریجویشن کی ڈگری ملتی ہے۔ترکی میں تعلیم کا تناسب سو فی صد ہے۔
ارضِ روم سے انقرہ کے لیے ٹرین کا سفر اختیار کیا جس کا نام Dogu Express یعنی۔ مشرقی ایکسپریس ، جہاں گرد دوعو ایکسپریس کے بارے میں لکھتے ہیں :
‘‘دوعو ایکسپریس میرے خوابوں کی ریل گاڑیوں میں سے ایک ہے۔ترکی کے بلند ترین شہر قارص سے استنبول تک۔ ترکی طویل ترین سفر کرتے ہوئے مسافروں کو ایک سے دوسری جگہ لے جاتی ہے۔ یہ دوعو ایکسپریس سوویت یونین کی ریپبلک آرمینیا سے شروع ہو کر باسفورس کنارے حید ر پاشا کے ریلوے سٹیشن تک، کوہ قاف کے پہلو سے شروع ہو کر اناطولیہ ، دجلہو فرات کو عبور کر کے تھریس تک۔دوعوایکسپریس یعنی مشرقی ایکسپریس دنیا بھر کے سنجیدہ سیاحوں کی پسندیدہ ریل گاڑی ہے۔’’(ص197 )

انقرہ پہنچ کر ‘‘اُلس’’ میں واقع بازارِ حُسن کے قریب ایک ہوٹل میں ٹھہرے۔سب سے پہلے ‘‘انت کبیر’’کی سیر کی جو مصطفی کمال پاشا کا مقبرہ ہے اور دیکھنے کے لائق ہے ۔ اسی حصے میں جہاں گردنے کمال پاشا کی زندگی اور کارناموں کے بارے میں ضروری تفصیل بہم پہنچائی ہے۔پھر گینچلک پارک (باغِ شباب ) دیکھا ۔یہیں ان کی ملاقات علیمے خانم سے ہوئی ۔ وہ انہیں مہمان بنا کر اپنے گھر لے گئی۔یہ چھوٹا سا گھر بڑے دل والے انقلابی غریبوں کا تھا۔ یہاں کے غریب پاکستان کے مڈل کلاسیے سمجھیے۔ یہ لوگ علوی تھے۔اہل تشیع کو یہاں علوی کہتے ہیں ، مگر یہ علوی بڑے لبرل اور سیکولر ذہن کے مالک ہوتے ہیں ۔ نہایت امن پسند اور انسان دوست ۔ تعزیے نکالنے اور ماتم کرنے کا رواج یہاں نہیں ہے۔ البتہ عاشورہ بہت بانٹا جاتا ہے اور محفل سازو سما ع ضرور منعقد کی جاتی ہے۔ یہ تیرہویں صدی کے ایک صوفی بزرگ حاجی بیکتاش ولی کے پیرو کار ہیں۔
انقرہ میں جہاں گرد نے وہ زندان بھی دیکھا جس میں فاتح قبرص بلند ایجوت 1980 ء میں ترکی پر آخری مارشل لا ء نافذ کرنے والے کو جنرل کنعان ایورن نے قید رکھا تھا۔یہ وہی زندان ہے جہاں ترکی کے عالمی شہرت یافتہ شاعر ناظم حکمت اور ناول نگا ر یشار کمال بھی قید رہے۔
جہاں گرد انقرہ سے ٹرین میں بیٹھ کر الف لیلوی شہر استنبول روانہ ہوئے۔ ٹرین براعظم ایشیا کے آ خری سٹیشن حیدر پاشا جا کر رکی۔سامنے سمندر اور براعظم یورپ تھا۔ یہاں سے ہمارا جہاں گرد اورحان غازی اسٹیمر کے ذریعے یورپی حصے میں ایمی نونو جا اترا ۔تین ہزار سال سے آباد اس شہر کی آبنائے فاسفورس کی شاخِ زریں کے کنارے ایک تنگ گلی کے بوسیدہ ہوٹل میں قیام کیا اور پھر استنبول کو خوب کھنگالا ۔آیا صوفیہ کو تاج استنبول قرار دے کر اس کی خوب سیر کی ۔باہر نکل کر سلطان احمت میں گھومے پھرے ۔ یہ علاقہ ان کے لیے ایک طلسماتی جگہ بن گیاکیونکہ یہ اصل استنبول ہے جو ہزاروں سال کی تاریخ کے نشانات کے سا تھ آج بھی استنبول کے دل کی طرح دھڑک رہا ہے، یونانی ، بازنطینی ، عثمانی اور ہر زمانے کا استنبول یہیں ہے۔ استنبول کو انہوں نے اپنے پورے جزیات کے ساتھ دیکھا اور کئی ابواب میں دلچسپ عنوانات کے تحت اس پر لکھا ۔ ان عنوانات کے تحت جہاں گرد نے الف لیلوی طلسماتی شہر استنبول کی مکمل سیر کروا دی ہے۔ میں نے اپنے تینتس سالہ قیام ترکی میں استنبول کو اس تفصیل سے اور گہرائی میں جا کر نہیں دیکھا جس گہرائی اور مشاہداتی نگاہ سے فرخ سہیل گوئندی نے دیکھا ہے۔ یہ حصے پڑ ھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply